جو غریب ہیں وہ مزیدغریب اور جو امیر ہیں
وہ مزید امیر ہوتے جا رہے ہیں ۔اس کی بہت سی وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے
کہ پیسے کو پیسہ کھینچتا ہے ۔خود غرضی ،سیاست ،طاقت اور اقتدار اس کی دیگر
وجوہات ہیں ۔اس وقت پوری دنیا کی دولت چند افراد کی طرف جا رہی ہے ۔نتیجے
میں امیر اور غریب کے درمیان خلیج بڑھتی جا رہی ہے ۔اس رپورٹ کو دیکھیں جس
میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کی نصف دولت صرف 62 افراد کے پاس ہے ۔دولت تیزی
سے چند افراد کی طرف بڑھ رہی ہے، جس سے غربت میں اضافہ ہو رہا ہے ۔
رپورٹ کے مطابق 2011 ء تک اتنی دولت کے مالک 388 لوگ تھے لیکن 2011 ء کے
اختتام تک یہ تعداد کم ہوکر 177 رہ گئی تھی۔ 2014 ء یہ تعداد صرف 80 رہ گئی
اور امیر غریب کے درمیان وسیع ہوتی یہ خلیج 2015 ء میں ساری حدیں پار کر
گئی اور اس وقت یہ دولت صرف 62 لوگوں کے ہاتھوں میں ہے ۔ یہ رپورٹ مشہور
بین الاقوامی تنظیم آکسفام نے تیار کی ہے ۔
ایک تو طرف تو یہ حال ہے دوسری طرف غریبوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول
مشکل تر ہو چکا ہے ۔عام لوگ مشقت بھری زندگی گزارنے پر ہی مجبور ہیں۔اس سے
بھی ان کی ضروریات زندگی پوری نہیں ہو رہی ہیں ۔ مزدوری ،پرائیویٹ نوکری ،خوانچافروش
وغیرہ کے پاس تو زندگی گزارنے کے بنیادی ذرائع بھی نہیں جانوروں سے بدتر
زندگی گزار رہے ہیں ۔پاکستان میں نصف آبادی خط غربت کے نیچے زندگی گزار رہی
ہے ۔ دوسری طرف اس وقت پاکستان میں1000 (ایک ہزار) سے زائد ایسے امیر ترین
لوگ موجود ہیں، جن کے اثاثہ جات کھربوں روپے میں ہیں۔
پاکستان میں کتنے ارب یا کھرب پتی افراد ہیں ۔ان کی فہرست تیار کرنا ایک
مشکل ترین کام ہے ۔اس کی تین وجوہات ہیں ۔دنیا میں ارب پتی افراد کی فہرست
تیار کرتے ہوئے سٹاک مارکیٹ ،اور اثاثوں کا حجم مد نظر رکھا جاتا ہے ۔یا اس
فر د کے ٹیکس سے اعدادو شمار جمع کیے جاتے ہیں ۔ہمارے ہاں ٹیکس تو امیر
آدمی بہت کم دیتے ہیں ۔کوئی اپنا اصل اثاثہ ظاہر نہیں کرتا ۔(جو کہ ایک جرم
ہے۔صرف قانون کی کتاب کی حد تک ) ۔ امیر افراد اپنے اثاثہ جات ظاہر نہیں
کرتے ۔کیونکہ قانون بنانے والے اور اس پر عمل کروانے والے ادارے ان کے قبضے
میں ہیں ۔اس لیے ہمارے ہاں تو ان طریقوں پر عمل کر کے پاکستان کے امیر ترین
افراد کی فہرست تیار ہی نہیں کی جا سکتی۔اس لیے بھی کہ مالداروں نے اپنے
بزنس شناخت ظاہر کیے بغیر شروع کیے ہوئے ہیں ۔کچھ نے اپنے رشتہ داروں کے
نام سے اور زیادہ تر نے اپنا مال و دولت بیرون ملک منتقل کیا ہوا ہے ۔
پاکستان کے ان چند دولت مند ترین لوگوں میں ایسے نام زیادہ ہیں جو سیاست سے
کاروبار میں آئے ۔یا کاروبار سے سیاست میں ۔پھر سیاست ہی ان کا کاروبار بن
گیا ۔
ان افراد کو اپنی دولت کا اندازہ تک نہیں وہ اگر دن رات دونوں ہاتھوں سے
لٹائیں تو جتنی ان کی زندگی رہ گئی ہے اس میں ختم نہ ہو لیکن نہ جانے کس
حرص کی مٹی کے بنے ہیں یہ لوگ جو بھرپور زندگی گزارنے کے باوجود ۔اس پر
کامل یقین ہونے کے باوجود کہ موت برحق ہے ۔ ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کرپائے
کہ ان کہ رخصت ہو جانے کے بعد ان کی دولت فلاح انسانیت کیلئے وقف کر دی
جائے ۔
اگر ان کو فکر آخرت ہو تو یہ غرباء ،مساکین ،یتیم ،بوڑھوں کے لیے ویلفئیر
سینٹر قائم کریں ۔لیکن یہ دولت مند ایسا کرنے کے لیے تیار نہیں ۔
ہمارے ملک کی بد قسمتی ہے کہ ہمارے اکثر ایسے مالداروں کے پیسے بیرون ممالک
بینکوں میں پڑے ہوئے ہیں ۔ان میں سے اکثریت ایسی دولت کی ہے جسے کالا دھن
کہتے ہیں ۔ایسا کرنے والوں کو یہ خیال نہ جانے کیوں نہیں آتا کہ انہوں نے
کون سا اس دنیا میں ہمیشہ رہنا ہے ۔اب تک لاکھوں قارون آئے اور اس دنیا سے
چلے گئے ۔اور یہ بھی کیسے سمجھ لیتے ہیں ایسے لوگ کہ یوم آخرت ان سے حساب
نہیں لیا جائے گا ۔وہ جو کچھ بھی اس دنیا میں کرتے رہے ہیں، انہوں نے مال
کیسے کمایا اور کہاں خرچ کیا ۔کیا وہ یوں ہی چھوڑ دیے جائیں گے ۔ایسا کچھ
نہیں ہو گا خیر یہ توان کا ذکر ہے جو مال و دولت ،عیش و عشرت میں خدا کو
بھول گئے ہیں ۔
دنیوی خوشحالی اور عیش میں پڑ کر وہ ہی لوگ خدا کی ناگہانی گرفت سے بے فکر
ہوتے ہیں جن کی شامت اعمال نے انہیں دھوکہ دے رکھا ہے ۔ایک مسلمان کی شان
یہ ہے کہ وہ کسی حال میں خدا کو نہ بھولے ۔
ظفر اس کو آدمی نہ جانئے گا گو ہو کیسا ہی صاحب فہم و ذکاء
جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا۔
اب کچھ ان کا ذکر ہو جائے جو ہیں تو ارب پتی لیکن انہوں نے اپنی دولت کا
ایک مخصوص حصہ فلاح انسانیت کے لیے وقف کر دیا ہے ۔ جو اپنے جیسے دوسروں
انسانوں کے لیے پیسے پانی کی طرح بہا رہے ہیں ۔جن میں سے چند ایک کا تعارف
پیش خدمت ہے ۔
شہزادہ ولید بن طلال جس نے چند ماہ قبل اپنی دولت فلاح انسانیت کیلئے وقف
کرنے کا اعلان کیا۔
فیس بک کے بانی مارک زکر برگ کو کون نہیں جانتا، مارک زکر برگ نے بیٹی کی
ولادت پر اپنی تمام دولت عطیہ کر دی تھی۔بل گیٹس نے یہ دروازہ کھولا اور بل
گیٹس اینڈ میلنڈا فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی ۔جیکی چن،مہنگے ترین فلم اسٹار نے
اپنی موت کے بعد آدھی دولت فلاحی کاموں کو دینے کا فیصلہ کیا ہے ۔روسی
تارکین وطن مارکوس نے اپنی دولت کا بڑا حصہ اپنی فاونڈیشن کو دینے کی
منصوبہ بندی کررکھی ہے، جس سے معذور بچے اور تعلیم کے شعبوں کو فائدہ
ہوگا۔جارج لیوکس نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی موت کے وقت اپنی آدھی دولت
فلاحی کاموں کے لیے وقف کر دیں گے ۔آئرش چک فینی نے 84 سال کی عمر میں اپنی
ساری دولت (6200 ارب )ضرورت مندوں ،غریبوں میں تقسیم کر دی ہے ۔یہ ان کے
منہ پر طمانچہ ہے جو حکومت میں رہ کر اپنا مال و دولت سوئس بینکوں میں
رکھتے ہیں اور عوام کے پیسے عوام پر خرچ کر کے اپنا نام و نمود بڑھانے کے
خواہاں ہیں ۔نجیب ساؤیریس پناہ گزینوں کے بحران کے حل کی ایک کوشش کرنا
چاہتے ہیں اور شام اور دیگرجنگ زدہ علاقوں کو چھوڑ کر آنے والے مہاجرین کی
آبادکاری کے لیے یونان یا اٹلی سے ایک جزیرہ خریدنے کے لیے تیار ہیں۔ |