احتساب: دوسروں کا حلال اپنا حرام

احتساب دوسروں کا ہی اچھا لگتا ہے ، کسی طرح احتساب کا رخ اپنی یا اپنے ساتھیوں کی جانب ہوجائے تو وہ زہر بلکہ حرام لگنے لگتا ہے۔ یہ ظالم’احتساب ‘ ہے ہی ایسی بلا،صرف دوسرے کے لیے ہی پسند کی جاتی ہے۔ ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے کہ ساتویں دہائی ختم ہونے کا آئی لیکن ہم نے اپنے ملک سے حاصل تو کیا اُسے کچھ دینے کا کبھی سوچا ہی نہیں۔ جس کاجس حیثیت میں بس چلا اس نے دونوں ہاتھوں سے ملک کو لوٹا، سینما کا ٹکٹ بلیک کرنے والے سے صدر کے عہدے تک ، افسر سے چپراسی تک ہر ایک نے دونوں ہاتھوں سے خوب خوب نوچا، خوب مال بنا یا، بنک بیلنس ، دولت ، جائیداد ملک کے اندر ملک سے باہر، لیکن پیٹ ہے کہ بھر کے ہی نہیں دیتا۔ احتساب کی باز گشت کافی عرصہ سے جاری تھی ، سرِ دست سندھ کی ہوائیں اس کی لپیٹ میں تھیں، لمحہ موجود کے احتساب میں ڈاکٹر عاصم سر فہرست چلے آرہے تھے، بعض دیگر سیاسی جماعتوں کے لوگ بھی اس میں شامل ہوئے۔ عوام نے احتساب کے اس عمل کو ملک و قوم کے لیے غنیمت جانا، جس طرح دہشت گردوں کے خلاف ہماری عسکری قوت کام کررہی ہے اور اس کے عملی نتائج پوری قوم کے سامنے ہیں، آج کا کراچی ماضی کے کراچی سے یکسر مختلف دکھا ئی دیتا ہے، رات ہی میں اپنے بھائی پرویز اور ندیم سے یہ بات کررہا تھا اور انہوں نے بھی اس بات کی تائید کی کہ واقعی اب گاڑی میں سفر کرتے ہوئے، بس اسٹاپ پر کھڑے ہوئے ، بنک سے باہر نکلتے ہوئے، موبائل پر کھلے عام بات کرتے ہوئے خوف اور ڈر جاتا رہا ہے۔ کبھی خوف کا یہ عالم تھا کہ جیب سے موبائل نکالتے ہوئے ڈر لگا کرتا تھا، بنک سے چاہیے دو ہزار ہی لیے ہوں باہر نکلتے ہوئے خوف آیا کرتا تھا۔ خواتین جو تنہا رکشا میں سفر کررہی ہوتی تھیں سر عام بلکہ مصروف ترین شاہراہ پر روک کر ان کے ہاتھوں سے چوڑیاں، کانوں سے بندے اور پرس چھین لینا عام سی بات ہوگئی تھی۔اگر کسی بہادر نے بہادری دکھائی تو اسے اپنی جان سے جانا پڑتا تھا۔ کراچی آپریشن کا نتیجہ ہے کہ آج کا کراچی گزرے ہوئے کراچی سے بہت مختلف ہوچکا ہے خدا کرے اب وہ دن لوٹ کر نہ آئیں اور امن و سکون کی فضاء اسی طرح قائم رہے۔

بات احتساب کی کر رہا تھا سندھ کے بعد احتساب کا رخ مڑنا ہی تھا، احتساب کرنے والے خود بھی محسوس کررہے ہوں گے ہوسکتا ہے کہ وہ اندر سے شرمندہ بھی ہوں اور سوچ رہے ہوں کہ ان سے زیادتی ہورہی ہے، عام و خاص بھی یہ سوچ رہے تھے کہ کیا سارے بدمعاش اور کرپٹ سندھ میں ہی موجود ہیں، کیا برے کام کرنے والے کراچی میں آباد ہوچکے ہیں باقی صوبے اور شہر دودھ میں دھلے ہوئے ہیں ۔ حالانکہ میڈیا سب ہی کے کالے کرتوت اسکرین پر دکھاتا رہا ہے، وزیروں کو پیسے لیتے ہوئے ٹی پر دکھایا گیا ہے اس کے باوجود وہ مسندِ وزارت پر ڈٹے نظر آرہے ہیں۔ عدالتوں نے اس جانب اشارہ کیا، کمیشنوں کی رپورٹوں نے بھانڈا پوڑا لیکن احتساب کرنے والوں کو نہیں معلوم سانپ سونگھ گیا تھا، انہیں پنجاب میں ہونے والی کرپشن، لوٹ مار، دہشت گردی، ترقیاتی منصوبوں میں گھپلے، بڑے بڑے عہدوں پر من پسند افراد کی تقرری اور میرٹ کا خون ہوتا ، اقراباء پروری جیسی برائیاں نظر ہی نہیں آرہی تھی۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی تھی کہ لوگوں نے کھلے الفاظ میں کہنا شروع کردیا تھا کہ یہ سراسر زیادتی ہے، حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں تو چلا ہی رہی تھیں۔ سندھ کی حکومت مسلسل وفاق سے نالا نظر آئی اور وفاق کو صوبائی معاملات میں مداخلت سے باز رہنے کا مشورہ دیتی رہی، بے شمار پریس کانفرنسیز کر کے سندھ کے حکومتی ذمہ داروں نے احتساب کے عمل کو سندھ سے پنجاب تک پہنچانے اور انصاف سے کام لینے کی دوھائی دی۔ ایک دن آیا کہ چیرٔمین نیب کی طرف سے کرپشن مقدمات جلد سے جلد نمٹانے اور اس کا دائرہ سندھ کے ساتھ ساتھ پنجاب تک بڑھانے کے احکامات جاری کیے۔ متعدد اہم حکومتی شخصیات پر مقدمات کے حوالے سے بلا خوف و خطر پیشرفت جاری رکھنے ، ہنگامی بنیادوں پر احتساب کے عمل پر عمل کرنے جیسے اعلانات سامنے آئے۔ نیب کے اعلانات سے یہ احساس پیدا ہوا کہ اب نہ انصافی کی فضاء ختم ہوگی اور احتساب کا دائرہ پنجاب تک وسیع ہوگا۔

ابھی احتسابی عمل بڑے بھائی کے گھر کی دہلیز تک پہنچا ہی نہیں تھا، ابھی تو صرف تیاری ہی شروع ہوئی تھی، کرپشن کرنے والوں کی فہرستیں تیار ہی ہورہی تھیں ، تیار کیا ہورہی تھیں ان فہرستوں کو جنہیں سرد خانے کی نظر کر دیا گیا تھا وہاں سے نکالنے کا عمل شروع ہونے ہی والا تھا کہ شیروں کو اس کی بھنک پڑگئی کہ ہم تو جگر تھام کے بیٹھے ہیں اب ہماری باری آئی، پھر کیاتھا سیاسی پنڈتوں نے، شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں نے اپنی اپنی چھریوں کی دھارے تیز کرنا شروع کردیں، کسی نے کہا کہ خبر دار اگر اس جانب غلطی سے بھی نظر کی تمہاری آنکھیں نکال دی جائیں گی، کسی نے کہا کہ اگر تمہاری پرواز اس جانب ہوئی تو یاد رکھو تمہارے پر کتر دئے جائیں گے، کوئی بولا ناخن تراش دیں گے،تمام زور نیب افسران کو کاٹنے پر تھا اور تو اور حیرت کا بت اس وقت ریزہ ریزہ ہوگیا جب وزیر اعظم میاں نواز شریف کا بیان آیا کہ ’نیب اپنے دائرے میں رہے ورنہ کاروائی کریں گے‘ ، ساتھ ہی یہ اعلان بھی سامنے آیا کہ احتساب کے عمل کی نگرانی کے لیے آزاد کمیشن بنائیں گے، اور احتساب کے قانون کو شفاف بنانے کے لیے اس میں ترمیم کی جائے گی۔ وزیر اعظم نے 16فروری 2016 کو بہاولپور میں مسلم لیگ (ن) کے نومنتخب نمائندوں سے خطاب کے دوران قومی احتساب بیورو(نیب) کے حوالے سے جن خیالات کا اظہار کیا ان سے واضح اشارہ ملتا ہے کہ حکومت احتساب سے متعلق قانون میں تبدیلی لانے پر سنجیدگی کے ساتھ غور کررہی ہے، میاں صاحب کا فرمانا تھا کہ نیب حکام سرکاری افسران کو ڈراتے اور تصدیق کے بغیر معصوم لوگوں کو تنگ کرتے ہیں۔ آخر میاں صاحب کو یہ ادراک ہوہی گیا کہ نیب معصوموں کو تنگ کررہی ہے، حالانکہ سندھ کی حکومت چلا چلا کر تھک گئی اسی قسم کی شکایت کرتی رہی اس وقت وفاق کو یا میاں صاحب کو یہ احساس کیوں نہیں ہوا؟ میاں صاحب کا اس وقت اس قسم کا بیان دینا سوالیا نشان ہے؟میاں صاحب کے اس بیان کو نیب کو ڈرانے دھمکانے کے زمرہ میں لیا جارہا ہے، بعض حلقے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ نیب کا شکنجا پنجاب کے بعض اہم سیاست دانوں کو اپنی گرفت میں لینے جارہا تھا۔ عین وقت پر میاں صاحب نے خبر دار کردیا ۔ بعض تجزیہ کاروں نے میگا کرپشن کے 150مقدمات کی فائلیں جن میں علامہ آصف زرداری، بڑے میاں صاحب اور چھوٹے میاں صاحب، سمدھی وزیر صاحب، یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف، چودھری شجاعت، چودھری پرویز الہٰی، اسلم رئیسانی، حسین حقانی، آفتاب شیر پاؤ، یونس حبیب، غضفرگوندل، ، ایاز خان نیازی، توقیر صادق، میاں منشاء، جنرل سعید الظفر، سلمان صدیق، شاہد رفیع، اسماعیل قریشی، حکیم ارشد، ہارون اختر ، جہانگیر صدیقی، محمد صدیق میمن اور دیگر کے اسمائے گرامی شامل ہیں احتساب بیورو کی جانب سے جولائی 2015ء میں سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی ہے۔ دیگر کیسیز اس کے علاوہ ہیں۔ بہتر تو یہ تھا کہ وزیر اعظم صاحب نیب کے اس عمل کا خیر مقدم کرتے، اسے آزادی سے احتساب کرنے دیتے، چیرٔ مین نیب کا انتخاب باہمی رضامندی سے ہوا تھا، وہ حکومت اور حزب اختلاف کے منتخب کردہ ہیں۔ یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ جب بھی احتساب کا عمل آگے بڑھتا نظر آتا ہے،یہ محسوس ہوتا ہے کہ اب احتساب تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر کیا جائے گا ، اس وقت کوئی نہ کوئی مصلحت ، کسی طاقت ور کی مداخلت اس عمل کو آگے بڑھنے سے روک دیتی ہے۔ اگر صرف ان لوگوں سے جنہوں نے کرپشن کے ذریعہ ملک کی دولت جمع کی،محض وہ دولت ہی ملک میں آجائے تو پاکستان کے بے شمار مسائل حل ہوجائیں لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ حکومت کے اس اقدام کو عام لوگوں نے اچھی نظر سے نہیں دیکھا بلکہ اسے اس طرح لیا گیا کہ احتساب جب سندھ میں ہو یا دوسروں کا ہو تو تو جائز اور حلال جب اپنا احتساب ہوتا نظر آئے تو نانا اور حرام ، یہ روش ہماری تباہی اور بربادی کا موجب ہورہی ہے۔ جب تک ملک میں انصاف اور ایمانداری کا بول بالا نہیں ہوگا، کرپشن کرنے والوں کو کڑا احتساب نہیں ہوگا ، انہیں سخت سے سخت سزائیں نہیں دی جائیں گی، ملک کی ترقی کی رفتار سست روی کا شکار رہے گی، عوام غریب سے غریب اور کرپشن کرنے والے امیر سے امیر ہوتے رہیں گے۔ ملک کے سیاست دانوں کا جائزہ لیں ہر سیاست داں وقت کے ساتھ ساتھ دولت سے اپنے آپ کو آراستہ کرتا رہا ہے۔ ایسے ایسے سیاسی ورکر جو گلیوں اور سڑکوں پر ٹوٹی چپل پہن کر گھوما کرتے تھے ، سیاست میں آئے، وزیر بنے ان کے پر لگ گئے، جی چاہتا ہے کہ ان کے نام بھی لکھ دوں لیکن نہیں لکھنے کی کیا ضرورت ہے ان کا حال ہمارے سامنے ہے، غریب بستی میں رہنے والے آج دبئی اور لندن سے کم کی بات نہیں کرتے ، جن کے پاس اپنے ملک میں رہنے کو پکہ گھر نہیں تھا سیاست نے انہیں دبئی کا شہری بنا دیا۔ یہ سب کچھ ایمانداری سے ہوسکتا ہے ، کبھی نہیں ، یہی تو کرپشن ہے، اس کا احتساب بہت ضروری ہے۔
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 866 Articles with 1438131 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More