کسی معذور کی ہمت اور حوصلے کو
بڑھانے کے لیے معاشرہ اس کا ساتھ دے تو اس کے لیے یہ کٹھن مراحل آسان
ہوجاتے ہیںیہ اس وقت اور بھی آسان ہوجاتا ہے جب معاشرہ اور حکومت دونوں
اپنے فرائض کو پورا کریں۔ پاکستان میں معذور افراد خاص طور پر بچوں کو
زندگی کے ہر شعبے میں رکاوٹوں اور امتیازی سلوک کا سامناہے۔ معذوروں کے لئے
نہ تو کوئی خاص قوانین بنائے جاسکے اور نہ پہلے سے موجود قوانین پر عمل
درآمد ہوتا ہے۔معذور افراد کی بحالی اور ان کی تعلیم وتربیت کے لیے تاحال
ٹھوس حکمت عملی تیار نہیں کی جاسکی۔ حکومتی سطح پر ہر سال کئی سکیمیں بنائی
جاتی ہیں جن کا اعلان بھی ہوتا ہے مگرعملدرآمد نہیں ہوتا۔ معذورافراد کے
لیے سال 2012 میں ایک سیکم حکومت نے دی تھی کہ صوبے تمام اضلاع میں الگ سے
مخصوص پارکس بنائے جائیں گے۔مگر پوری طرح اس پر عمل نہیں کیا جا سکا۔ ایک
بار پھرمعذور افراد کے لیے دوستانہ پرکشش مخصوص علاقہ موجودہ پارکس میں
مختص کرنے کا ایک اور منصوبہ گورنمنٹ آف پنجاب نے آٹھ شہروں کے لیے گزشتہ
سال منظور کیا تھا جس میںڈیرہ غازیخان بھی شامل تھامگر ایسا کوئی منصوبہ تا
حال تکمیل تک نہ پہنچا۔ڈیرہ غازیخان سمیت دیگر کئی شہروں میں یہ سہولت
معذور افراد کے لیے نہیں ہے۔ محکمہ سوشل ویلفیئر کے مطابق ضلع کی بڑی تحصیل
ڈیرہ غازیخان میں آٹھ ہزار افراد رجسٹر ہیں یہ ڈیٹا خدمت کارڈ کے لیے اکھٹا
کیا گیا ہے۔جبکہ ضلع میں معذور افراد کی تعداد بیس ہزار سے بھی زائد ہے جن
میں بچے، جوان اور بوڑھے شامل ہیں۔ڈیرہ غازیخان میںمعذور افراد کے لیے صرف
سیرو تفریح و مزا ہی نہیںدیگر شعبوں میں بھی بہت کم سہولیات میسر ہیںپچھلے
دنوں ملازمتوں کے حصول کے بھی معذوروں نے احتجاج کیا ہے۔ اسی طرح ایک سروے
کے مطابق کسی بھی دفتریا محکمہ سرکاری یا پرائیویٹ میں مخصوص ریمپ نہیں بنے
ہوئے ۔کہا جاسکتا ہے کہ معذور افراد کی حکام تک پہنچنے میں آسانی نہیں
ہے۔جبکہ حکومتی پالیسی ہے کہ ان کے لیے الگ سے راستے یعنی ریمپ بنائے
جائیں۔ سپیشل ایجوکیشن کے ادارے تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے۔معتبر ذرائع کے
مطابق ڈویثزن ڈیرہ غازیخان کے چاروں اضلاع میں قائم سپیشل ایجوکیشن کے
سکولوں کو فنڈز اور سٹاف کی کمی کا سامنا ہے۔ معذوروں کے مسائل کی نشاندہی
توعوامی و سماجی حلقوں کی جانب سے مسلسل کی جارہی ہے۔مگر ان کے حل کے لیے
تاحال کوئی ٹھوس حکمت عملی مرتب نہیں ہوئی ۔اصولی طور پرلاہور سمیت تمام
شہروں میںمعذورافراد کو سخت مسائل کا سامنا ہے۔ڈیرہ غازیخان جیسے شہر میںیہ
مسائل اور بھی شدت کے ساتھ موجود ہیں۔ افسوس کہ منتخب نمائندگان جن میں چار
ایم این ایز، سات ایم پی ایز، دو سنیٹرز شامل ہیں نے اسمبلی فورم پر آواز
نہیں اٹھائی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بہت مسائل میں سے ان کی ترجیحات درجہ
بندی کی جائے توان میں فوری کرنے کے جو کام ہیںان پر بھرپور توجہ کی
جائے۔کچھ کام مقامی انتظامی افسران کی دلچسپی سے مکمل ہوسکتے ہیں۔جیسے تمام
پارکس میں الگ سے مخصوص ایریاز،دفاتر محکمہ جات میں الگ راستے ریمپ وغیر ہ
اس کے لیے بہت زیادہ وسائل کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ ہم ڈسٹرکٹ کے ڈی سی او،
اور کمشنر کی توجہ اس جانب مبذول کراتے ہیں کہ وہ ذاتی طور پر اس جانب پیش
رفت کریں ۔
-- |