ازدواجی زندگی کیسے گزاری جائے
(مولانا سید وجاہت, karachi)
ہمارے معاشرے میں بیویوں سے متعلق دو قسم
کے لوگ یا نظریات پائے جاتے ہیں ، کچھ ہو ہوتے ہیں جن کی بیویاں ان پر مسلط
رہتی ہیں ،بیوی کی مرضی سے آنا جانا کھانا گویا شادی نہیں کسی جابر آرمی
چیف کا مارشل لاء ہوتا ہے اور دوسری انتہا یہ ہے کہ بیوی کو زر خرید غلام
سمجھ لیا جاتا گویا وہ کوئی گھر کا سازوسامان ہے ، نہ اسکی کوئی مرضی ہے
اور نہ اسکی اپنی کوئی چاہت جو مرد چاہے وہی مسلط ہوگا ۔
یہ دونوں رویے اسلامی تعلیمات کے خلاف اور جہالت کی پیداوار ہے ،قرآن کے
مطابق اللہ نے مرد کو حاکم بنایا کہ مرد کی ذمے داریاں ذیادہ ہے خرچ کی ذمے
داری اور اخراجات کو پورا کرنا اسکے ذمے ہے، اس کی جسمانی ساخت اور قوت کی
بناء پر عورت گھر بار بچوں کا تحفظ اسکی ذمے داریوں میں شامل ہے، اس طور پر
مرد کو عورت پر فضیلت ملی ،لیکن حاکمیت سے مراد آقا اور غلام جیسا رشتہ
نہیں کہ بیوی شوہر کے ہر حکم کی تعمیل کرے یہ طرز عمل بھی درست نہیں اور نہ
وہ غلام بن کر رہنے والا تصور درست ہے ،بھائی شادی کوئی آقا غلام والا
رشتہ نہیں یہ محبت و الفت اور ایثار سے ہی قائم رہ سکتا ہے ورنہ ناموافق
ازداجی زندگی ایک عذاب سے کم نہیں ، شوہر اور بیوی میں کیسے تعلقات ہونے
چاہیے اس کے لئے سیرت نبوی کا مطالعہ کیا جائے کہ سرور عالم ﷺ نے کس محبت و
الفت بھرے انداز میں ازواج مطھرات سے تعلق رکھا،نمونے کے لئے صرف یہ حدیث
ہی دیکھ لیں ۔
عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ عائشہ رضي اللہ تعالی
عنہا نے فرمایا
اللہ تعالی کی قسم میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے حجرہ کے
دروازہ پر کھڑے دیکھا اورحبشی لوگ اپنے نیزوں سے مسجدنبوی صلی اللہ علیہ
وسلم میں کھیلا کرتے تھے ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی چادر سے مجھے
چھپایا کرتے تھے تا کہ میں ان کے کھیل کودیکھ سکوں ، پھر وہ میری وجہ سے
وہاں ہی کھڑے رہتے حتی کہ میں خود ہی وہاں سے چلی جاتی ، تونوجوان لڑکی
جوکہ کھیلنے پر حریص ہوتی ہے اس کی قدر کیا کرو ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر (
443 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 892 ) ۔ |
|