سوشل میڈیا جو ایک انسانی معاشرے کا اہم
جزو بن چکا ہے۔ اکثر اس پر دیکھنے کو ملتا ہے کہ لوگوں کی اکثریت بغیر
مطالعہ بغیر تحقیق وتصدیق کے باتیں لکھ دیتے ہیں اور آخر میں لکھ دیتے ہیں
کہ ’’ایک ہم ہیں‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ ’’ایک ہم ہیں‘‘ طنزیہ انداز میں لکھا جاتا
ہے مثلاً ایک تحریر پڑھنے کو ملی۔
’’مسجد میں داخلہ مفت ہے اور خالی ہیں کلب میں داخلے کے لیے ممبر شپ لینی
پڑتی ہے رقم ادا کرنی پڑتی ہے اور فل ہیں‘‘ ایک ہم ہیں کہ رقم ادا کر کے
کلب آباد کرتے ہیں اور مسجدیں خالی رکھتے ہیں۔
ہالینڈ کے وزیراعظم سائیکل پر دفتر جا رہے ہیں۔ ’’ایک ہم ہیں‘‘ کہ ہمارا
وزیراعظم چالیس گاڑیوں کے جھرمٹ میں وزیراعظم ہاؤس تشریف لیجاتے ہیں۔ کلب
اور مسجد کے تقابلی جائزے میں صاحب تحریر کا شاید مسجد میں جانے کا اتفاق
نہیں ہوا کیونکہ الحمداﷲ آج مسجدیں آباد ہیں رونق پہلے سے زیادہ ہے۔ صفیں
بھری ہوئی ہیں لیکن صاحب تحریر کا اس بات سے تعلق نہیں ان کا زور ’’ایک ہم
ہیں‘‘ پر زیادہ ہے۔ ہالینڈ کے وزیراعظم کا موازنہ پاکستانی وزیراعظم سے
کرنے والے کو یہ خیال نہیں رہا کہ ہالینڈ کے ساتھ بھارت اور افغانستان کی
سرحدیں نہیں لگتیں اس کی اسرائیل سے کوئی دشمنی نہیں وگرنہ ہم دیکھتے ان کا
وزیراعظم سائیکل پر کیسے جاتا ہے مگر چونکہ اصل زور ’’ایک ہم ہیں‘‘ پر ہے
لہٰذا ھالینڈ اور اس کے وزیراعظم پر نہیں زور ’’ایک ہم ہیں‘‘ پر زیادہ ہے
جو دبے لفظوں میں طنز وتنقید ہے۔
سوشل میڈیا کے جہاں فوائد ہیں وہاں نقصانات زیادہ ہیں سب سے پہلا نقصان یہ
ہے کہ اس نے فاصلے کم کر دیئے اور دلوں کو دور کر دیا۔ دوسرا اس کا سب سے
بڑا نقصان یہ ہے کہ اس ڈاکٹر‘ انجینئرنگ کرتا ہے۔ انجینئرنگ والے نسخے
تحریر کر رہے ہوتے ہیں۔ تحریر لکھنا لفظوں سے کھیلنا ہر ایک کے بس کی بات
نہیں اس کے لیے پڑھنا پڑتا ہے تحقیق وتصدیق کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔
تحریر کو مدلل بنانا پڑتا ہے مگر سوشل میڈیا پر تحریر لکھنے والا ان سب
حدود وقیود سے آزاد ہوتا ہے اور تحریر میں صرف طنز وتنقید کا پہلو نمایاں
ہوتا ہے نہ دلیل کا خیال رکھا جاتا ہے نہ تصدیق کا بس بات لکھ دی جاتی ہے
کیونکہ لکھنے والے کا شعبہ ’’تحریر وتقریر‘‘ نہیں ہوتا۔
اکثر وبیشتر سوشل میڈیا پر دی گئی تحریر کا حقیقت سے تعلق نہیں ہوتا۔ صرف
’’ایک ہم ہیں‘‘ کے تناظر میں لکھی جاتی ہے۔ ایسی بے شمار مثالیں آپ دیکھیں
گے۔
دراصل اہل علم اور اہل دانش اس بات کو سمجھ سکتے ہیں کہ تحریر ہر ایک کے بس
کی بات نہیں اگر اس کے پس منظر میں دیکھا جائے تو راتوں کی نیندیں مطالعہ
پر قربان کی ہوتی ہیں۔ دن کی مصروفیات مطالعہ کی نذر کی ہوتی ہیں۔ جس کے
پاس علم نہیں ہوتا وہ ’’ایک ہم ہیں‘‘ پر زور دیکر اپنے علم کا اظہار کرنا
چاہتے ہیں۔ حقیقت خواہ کچھ بھی ہو۔
ان سب باتوں میں قابل غور وبات یہ ہے کہ جس خوبصورت ملک میں ہم رہتے ہیں جس
میں ہمیں مرتبہ ومقام حاصل ہوتا ہے اسی کو ’’ایک ہم ہیں‘‘ کی لپیٹ میں لا
کر تنقید کر رہے ہوتے ہیں حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ اس بات پر غور کریں
کہ جو بات ہم سوشل میڈیا پر دے رہے ہیں ہم نے بذات خود اس کے لیے کیا کیا
اپنے گریبان میں جھانک کر لکھیں
’’ایک ہم ہیں‘‘
تو پھر چُلو بھر پانی بھی کسی سمندر سے کم نہ ہو گا۔ |