بہت پرانی بات ہے ایران میں ایک لبرل شیطان
رہا کرتا تھا اس کا نام تھا مزدک ،مزدک عقل پرست تھا ، ہنسو نہیں یہ سچی
کہانی ہے ہمارے ہاں کے دیسی لبرلز کا شجرہ نسب اگر DNA کی سائنسی تحقیق کے
بعد منظر عام پر لایا جائے تو وہاں تک امید ہے پہنچ جائےگا مزدک لبر ل تھا
مزدک نے ایک دعوت دی لوگوں کو اس نے کہا صرف دو چیزیں انسان کو مختلف طبقات
میں تقسیم کرتی ہیں ایک جائیداد اور دوسری عورت ۔
سب انسان برابر ہیں لہذا یہ دونوں چیزیں انسانوں میں برابر تقسیم کر دی
جائیں نہ ہی کوئی عورت کسی کی منکوحہ بن کر رہ سکتی ہے اور نہ ہی کوئی
جائیداد کسی کی ملکیت قرار پائے گی ۔اس نظریہ کی اشاعت کے لیے مزدک نے
ایران کی اشرافیہ کو اپنا ہمنوا بنایا ایران کے لوگ اس کے دام فریب میں
گرفتار ہو چکے تھے عوام کو تو یہ دعوت بڑی پسند آئی ، ایران کی پوری قوم
لبرل ہو گئی سوائے چند ایک کے مزدک جس عورت کو چاہتا کچھ دن اپنے پاس رکھتا
اور پھر دوسرے کے حوالے کر دیتا ،ہوتے ہوتے ایران کا بادشاہ ’’کیقباد ‘‘بھی
اس کے پیروکاروں میں شامل ہو گیا ۔
مزدک کی بے حیائی یعنی لبرل ازم کا نشہ اس حد تک بڑھ گیا کہ ایک دن اس نے
بادشاہ ’’کیقباد ‘‘سے کہا :آج تیری بیوی اور نو شیرواں کی ماں میرے پاس رات
بسر کرے گی ۔
بادشاہ ’’کیقباد‘‘ مزدک کے نظریہ کے حامی تھا لبرل ازم کا قائل تھا اور تم
جانتی ہو یہ لبرل ازم غیرت کا جنازہ نکال دیتا ہے مزدک کی اس خواہش پر
بادشاہ نے کسی قسم کا کوئی اظہار ناراضگی نہیں کیا بلکہ مزدک کی تجویز کو
بغیر کسی نا پسنددیگی کے قبول کر لیا-
نو شیرواں کوجب معلوم ہو اتو وہ اپنی ماں کی اس بے عزتی پر بے چین ہوگیا
اور مجبور ہو کر مزدک کے پاس گیا اس کے ہاتھوں کو چوما اور جوتے اتار کر
پیروں کو بوسہ دیا اور لجاجت کے ساتھ درخواست کی کہ وہ اس کی ماں کی آبرو
ریزی نہ کرے اس کے عوض وہ جو چاہے لے لے تب کہیں جا کر لبرل شیطان مزدک باز
آیا اور اس نے نو شیرواں کی ماں اور مادرِ ایران کوچھوڑ دیا-
صورت حال یہ تھی کہ مزدک کو ایران کے روحانی پیشوا کی حیثیت حاصل تھی ایک
بہت بڑی اکثریت اس کی معتقد تھی جو شخص بھی مزدک کی کسی بات سے انکار کرتا
اس کو حکومت کے کسی بھی عہدے سے معزول کرنے میں دیر نہیں لگائی جاتی تھی-
کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ اقتدار نو شیرواں کے قبضے میں آگیا نو شیرواں نے
مزدک کو اپنے دربار میں طلب کیا
اور کہا :میری بڑی خواہش تھی کہ میں زندیقوں کو موت کے گھاٹ اتارو -
مزدک نے یہ سُنا تو مسکراتے ہوئے کہنےلگا’’کیا تیرے بس میں ہے کہ تو سب
انسانوں کو قتل کر دے ‘‘ اسے اپنی عوامی طاقت پر بڑا ناز تھا -
نوشیرواں کا غصہ اپنے عروج پر تھا اس کے ان جملوں نےتوگویا آگ پر تیل کا
کام کیا-
نو شیرواں نے غصہ سے بے قابو ہوتے ہوئے کہا : او! زانیہ کے بیٹے ! تو ابھی
تک یہاں موجودہے خدا کی قسم ! تیری جرابوں کی بدبو آج تک میری ناک میں
موجود ہے جب میں نے اپنی ماں کی عصمت بچانے کے لیے تیرے بدبو دار پیروں کو
بوسہ دیا تھا ۔
اس کے بعد نو شیرواں نے حکم دیا کہ اس لبرل شیطان کا سر قلم کر دیاجائے اس
دن ایران میں ایک لاکھ لوگوں کے سر قلم کیے گئے تھے ۔ |