’’تناول ہاؤس ‘‘سے وابستہ کچھ امیدیں

 میری ان کے ساتھ رفاقت دیرینہ ہے ،بے تکلفی بھی ہے ،دینی درد رکھنے والے عالم فاضل نوجوان ہیں ،دین دار گھرانے میں آنکھ کھولی ،بزرگ شخصیات ان کے والد مرحوم کے زمانے سے گاہے بگاہے ان کے ہاں تشریف لاتی رہتی ہیں ان کے دادا قاضی عبدالخالق سابق ریاست’’ امب ‘‘دربندکے قاضی القضاۃتھے ،ان کے والد محترم مولانا قاری بشیرؒمرحوم علاقہ ہری پور کی جانی پہچانی شخصیت ہیں ،جن کی محنت جدوجہد اور اخلاص کا ثمر آج بھی موجود ہے ،ان کے لگائے ہوئے چمن کے پودے آج پھل آور درخت بن چکے ہیں ،جن کے نام سے دشمن آج بھی لرزہ براندام ہے ،جن کے بارے میں کہا جاسکتا ہے ان کا نام ہی کافی ہے ،شیرانوالہ گیٹ کا نام سنتے ہی قاری بشیر صاحب کی یاد کے زمزمے گونجتے ہیں ،ان کے قائم کردہ ادارے مدرسہ تدریس القرآن میں آج بھی فیض جاری وساری ہے ،ہری پورکے مدارس احمدا المدارس ،جامعہ خلیلیہ،تدریس القرآن ،تجوید القرآ ن سراجیہ پرانے مدارس میں شامل ہوتے ہیں ،لئکن افسوس کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اب وہ رونقیں اور بہاریں ناپید ہیں ،اس کے برعکس دور جدید میں سرزمین ہزارہ کی عظیم دینی درسگاہ جامعہ عربیہ عبداﷲ بن مسعودؓعلوم نبوت کے پیاسوں کو سیر اب کر رہی ہے ،بات ہو رہی تھی قاری بشیرؒ کی ان کے خاندان کی ،اس خاندان کے افراد کی دینی خدمات کے حوالے سے،تو اسی خاندان کے ایک روشن ستارے مفتی قاضی سعید جو،انیس سو چوہتر کو نصرت العلوم گجرانوالہ کی درس گاہ سے فراغت پائی ،تحصیل غازی کی یونین کونسل بیٹ گلی کے گاؤں گلی دیوی میں ساری زندگی امامت خطابت میں گزارنے کے بعدگزشتہ تین سال سے بستر علالت پر تھے کہ گزشتہ دنوں اﷲ کی رضاء ہو گئے ہیں ان کی نماز جنازہ میں سیاسی، سماجی، تعلیمی اور تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے افراد نے شرکت کی ۔ان کے بھائی قاضی عبد العلیم ’’خطیب شہر ‘‘کے لقب سے جانے پہچانے جاتے ہیں ، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے سابق ضلعی امیر بھی رہے ہیں ، اس کے علاوہ قاضی عبدالسمیع اور قاری عبد البصیر بھی معروف و مشہور ہیں ہری پور میں ان کا دولت کدہ’’ تناول ہاؤس‘‘ بھی کافی شہرت کا حامل ہے گزشتہ دنوں قاضی عبد العلیم کے بھائی کی وفات پر تعزیت کے سلسلے میں جانا ہوا ،ہوا یوں کہ میرے دوست جن کا ذکر شروع کی سطور میں کیا جا چکا ہے سے اکثر میں شکایت کرتا ہوں کہ آپ کے ہاں اکابر علماء گاہے بگاہے تشریف لاتے ہیں آپ سارا فیض خود ہی سمیٹ لیتے ہیں تو ان کا جواب ہوتا ہے ان شاء اﷲ آئندہ کوئی موقع آیا تو دعوت دوں گا ،اتوار کی صبح موبائل پر قاری محمد شکیل صاحب کا نمبر نمودار ہواتو میں دل میں یہ سوچ بیٹھا شاید میں ان کے چچا کی نماز جنازہ میں شرکت نہیں کرسکا اس لیے اب شکایات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگا تاہم یہ ان کا میرے ساتھ شفقت کا معاملہ ہے کہ انہوں نے بغیر کسی شکوہ شکایت کے اپنے دولت کدہ تناول ہاؤس ‘‘دس منٹ میں پہنچنے کا کہا ،اس دور میں تیز رفتا ر گھوڑے تو دستیاب نہیں تاہم ان کی جگہ موٹرسائیکل نے لے رکھی ہے ، اس پرسوارہو کروہاں پہنچ گیاقائد جمیعت مولانا سمیع الحق صاحب قاضی سعید کی تعزیت کے لیے وہاں پہنچ چکے تھے ان کے ساتھ جماعت کے ترجمان قاری یوسف کے علاوہ چند مقامی علماء بھی موجود تھے، ،وہاں جا کر اس احساس نے ایک مرتبہ پھر جھنجھوڑاکہ ہماری آپس کہ فرقہ بندی اور گروہ بندیوں نے آج ہمیں اس مقام تک پہنچا دیا ہے ۔کہ ہم آج تیرا قائد میرا قائد کے نعرے الانپتے ہیں ،نصف صدی سے دین کی خدمت کرنے والے بزرگ کا دیدار کرنے کے لیے عوام الناس کے علاوہ علماء بھی موجود نہ تھے ،سیاسی جماعتوں کے قائدین کا اختلاف شاید کے اتنا نقصان دہ نہ ہو جتنا کہ مذہبی سیاسی جماعتوں کا آپس میں ہے ۔

تمام مذہبی سیاسی جماعتوں کا جب مقصد ایک ہے وہ ہے اسلام کا نفاذ تو پھر یہ بعدالمشرقین کیوں ہے ،اگر پی پی اور نون لیگ احتسابی عمل میں ایک ہو جاتے ہیں ،ملک کے وزیر اعظم احتسابی عمل پر اثر انداز ہونے کی کو شش کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔یہ نورا کشتی ہی اس ملک کا مقدر ہے ،مولانا سمیع الحق صاحب نے بجا فرمایا کہ اس ملک پر چالیس کا ٹولہ مسلط ہے ،یہ یکے بعد دیگرے اس ملک پرحکومت کرتے ہیں میں اکثر اپنے دوست سے اس کا تذکرہ کرتارہتا ہوں ،کم ازکم ضلع ہری پور کی سطح پر تو اتحاد مشکل نہیں ۔ہر شخص کو اپنے مفادات عزیز ہیں ،کوئی کسی جماعت کی حمایت کرتا ہے تو کوئی کسی کی ۔گزشتہ انتخابات میں جے یو آئی کے سابق امیر پیر عالم زیب شاہ )حال بانی ہزاروی گروپ نے بیک وقت دو کشتیوں پرپاؤں رکھا ،جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے ،کتنی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ،شاید جے یو آئی ف فضل اؒلرحمن ،س سمیع الحق،ن نظریاتی اور ہ یعنی ہزاروی کے بعد مزید کتنے حصوں میں بٹے گی ،اور اس تقسیم کا فائدہ ظاہر ہے اور سب کو نظر آرہا ہے ۔لیکن اس کے باوجود ہم کچھ سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں ،ہم کب تک اپنی سیاسی دکان چمکاتے رہیں گے ،اپنے مفادات کا کب تک تحفظ کر کے دین کو نقصان پہنچاتے رہیں گے ۔میں’’ تناول ہاؤس‘‘جو آج کل سیاسی طور پر مولانا سمیع الحق صاحب کی جماعت کا مرکز ہے سے دست بستہ عرض گزار ہوں آپ اپنی جماعت کے ساتھ مخلص ہوں، اپنی جماعت کادفتر قائم کریں ،عوامی خدمت کو اپنا شعار بنائیں ،خدمت اور کارکردگی کو اوڑنا بچھونا بنائیں ،مظلوموں کے دست بازو بنیں ،ظالم کا ہاتھ روکیں ،اپنے خاندانی نام کو ،خدمات کے تسلسل کو جاری رکھیں ،مولانا سمیع الحق کے ساتھ عوامی محبت بھی شاندار ہے ،ان کا ماضی ان کا حال ،ان کی تعلیمی خدمات ،سیاسی خدمات کو لو گوں کے سامنے پیش کریں ،اپنا اثر ورسوخ دین کی اشاعت کے لیے استعمال کریں ،ڈی پی او ،اورڈی سی آفس میں چکر لگانے اور نذرانے وصول کرنے والے لوگوں سے دور رہیں ،اپنا شاندار ماضی ،جاندار حال اور عزم استقبال لے کر میدان میں اتریں ۔اﷲ تعالی آپ کا حامی و ناصر ہو گا ،ابھی سے آئندہ الیکشن کی تیاری کے سلسلے میں دینی جماعتوں میں اتحاد کے لیے کو ششیں تیز کریں ،نوجوان علماء ،آپ کے دست بازو ہوں گے ،وہ حیران و سرگرداں ہیں ،اپنا ووٹ دے کر بھی دھکے کھا رہے ہیں، ان کا استقبال کریں عزت دیں ۔اپنا آستانہ ان کے لیے کھول دیں،مشاورت کریں ،کام کریں پھر دیکھیں شیرانوالہ گیٹ کی طرح تناول ہاؤس بھی مرکزو مرجع خلائق ہوگا۔مجھے نہیں معلوم کہ میں اپنا درد ٹھیک طرح سے بیان کرپا یا کہ نہیں اس کے لیے مجھے احباب کی آرا ء کا انتظار رہے گا ۔
Touseef Ahmed
About the Author: Touseef Ahmed Read More Articles by Touseef Ahmed: 35 Articles with 32034 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.