اقوالٍ زَرّیں

میراثیت اور موروثیت
عقل کبھی بھی نصیحت کی میراث نہیں رہی اگر ایسا ہوتا تو میراثی دنیا کے عقل مند ترین انسان کہلائے جاتے-

عقل ہمیشہ ٹھوکروں کی مرہونِ منت رہی ہے کیونکہ جٍن لوگوں نے ٹھوکریں کھائی وہ اکثر وقت کے ٹھاکر کہلائے،
قابلیت اور شعور کبھی بھی تعلیم کے مرہونِ منت نہیں رہے اگر ایسا ہوتا تو دنیا کے ٩٠ فیصد سے زائد تعلیم یافتہ افراد ملازمت کے حصول کو اپنی زندگی کا مقصد نہ بناتے، بلکہ وہ اپنی قابلیت کے بل بوتے پر دنیا کو نئے ادوار میں داخل کرتے اور آنحضرت مُحمد صلی الّلہُ علیہ وآلِ وسلّم ، صحابہ کرام رضی اللّہ تعالی عنہ ، اولیاء کرام رحمتہ اللّہ علیہ ، سقراط ، ارسطو ، افلاطون ، ڈاکٹر عبدالسلام اور آئن سٹائن کی طرح انسانوں کو معاشرتی ، معاشی اور سماجی طور پر اللّہ تعالی کی دی ہوئی زندگی کو بہتر سے بہترین طریقوں پر اٍستوار کرکے جینے پر مجبور کر دیتے، جس میں وہ اپنی دنیاوی زندگی کے ساتھ ساتھ اپنی اَبَدی زندگی میں کامیابی سے ہمکنار ہوتے-

قابلیت اور شعور کا اِنحصار ہمیشہ بہترین تربیّت پر ہوتا ہے، اِس لئے یہ کسی حد تک موروثی کہلاتے ہے، کیونکہ تعلیم ہمیشہ مدرسے سے اور تربیت اِنسان گھر سے لے کر چلتا ہے، اور تعلیم انسان کے اندر کی قابلیت اور شعور کو جانچنے کا پیمانہ تو بن سکتی ہے اور اجاگر بھی کر سکتی ہے لیکن قابلیت اور شعور کو انسان کے اندر پھونکنے صلاحیت نہیں رکھتی۔
میری کتاب سے ازخود احسن نواز