کہاں سے لائیں وہ ریشم جیسا ملائم لہجہ اور
گلاب جیسی باتیں، خلوص بھری باتیں اور اپنوں جیسی شکایتیں اور روح کو جِلا
دینے والی حکایتیں۔
ہر طرف ہاہا کار مچی ہے، زندگی بے اماں ہے، لوگ تہی داماں ، ہوائیں زہریلی،
پانی گندا، ماحول تعفن زدہ…… ایسے میں منہ سے پھول نہیں جھڑتے، سنسناتے تیر
اور دو دھاری خنجر نکلتے ہیں۔ میں اگر زخم زخم ہوں تو سامنے والا زخموں سے
چور چور ہے۔ ایسا کیوں ہے؟شاید ہم جانتے ہیں یا شاید نہیں جانتے۔
جاننے اور نہ جاننے کے بیچ جو کچھ گزرتی ہے اسے سہنے کے لئے بڑا حوصلہ ہے
ہمارے پاس، تب ہی تو چپ چاپ بیٹھے ہیں، ورنہ قیامت برپا کرنے والے بھی ہم
ہی ہوتے ۔ اپنے چاروں طر ف دیکھیے کیا ہو رہا ہے یہی ہو رہا ہے نا؟
صبح بچوں کو اسکول جانے کے لیے جگاؤ تو وہ ایسے روتے ہیں ایسے ہوتے ہیں
جیسے اسکول نہ ہوں عقوبت خانے ہوں۔ سب کو یہی شکایت ہے کہ جو کچھ پڑھایا
جاتا ہے بالکل بھی سمجھ میں نہیں آتا۔ اور جب سمجھ میں نہیں آتا تو یاد بھی
نہیں ہوتا۔ پھر مار پڑتی ہے ، مرغا بنایا جاتا ہے ، اٹھک بیٹھک کرائی جاتی
ہے جس کا کوئی حساب نہیں۔سو پچاس تک گنتی پہنچ جاتی ہے۔ بغیر کھائے پئے،
روتے دھوتے اسکول روانہ ہوئے، وہاں یہ سلوک ہوا۔ اچھا جی پڑھائی نہیں سمجھ
آتا تو ٹیوشن لگادیتے ہیں۔ اس اماں نے ایک حل ڈھونڈ نکالا۔ اب دوہری مصیبت۔
ٹیوشن والی باجی اپنی مرضی سے کام کرواتی ہیں، اسکول کے مسائل سے انہیں کیا
غرض! اب دونوں جگہ باجیوں کو استادوں کو راضی کیسے رکھا جائے؟
مدرسوں میں جو جا رہے ہیں ہر روز کہتے ہیں: ہم مدرسہ نہیں جائیں گے۔ ارے
بھئی کیوں؟
بس صبح آٹھ بجے سے شام پانچ بجے تک ہل ہل کر ہم سے نہیں پڑھا جاتا۔ اگر ذرا
سا ادھر ادھر دیکھ لیا تو مولوی صاحب اٹھا کر پٹختے ہیں۔ شاید گھر سے لڑ کر
آتے ہیں ۔ اب مولوی صاحب کے گھر والوں کو کون سمجھائے کہ بھئی نہیں لڑا
کریں، بچوں کی شامت آجاتی ہے۔ مگر کیا جانیے ان کی کیا مجبوریاں ہیں۔
بیمار ہو جائیں، بلکہ ہو جائیں کیا؟ کوئی نہ کوئی بیماری جان کو لگی رہتی
ہے۔ ادھر ادھر کے ٹونے ٹوٹکے کر کے ہم خود کو اور بیماری کو بھلائے رکھتے
ہیں مگر وہ بہلتی ہی نہیں اور ٹہلتی بھی نہیں، جان کو چمٹی رہتی ہے ۔
پرائیویٹ اسپتال سے علاج کروانے کے لئے زیور بیچو یا مکان نہ ہو وہ کیا بیچ
کر علاج کروائے؟
کسی جھگڑے یا سازش میں پھنس گئے تو بس……جیل کاٹنا اور اشتہاری ملزم کہلانا
لازمی ۔کسے وکیل کریں، کسی سے منصفی چاہیں!
رہا سرکاری اسپتال، تو مریض کو آج ضرورت ہے آپریشن کی ، اور ڈیٹ ملتی ہے
چار پانچ مہینے بعد کی۔ عذر صاف ظاہر ہے کہ کیا کریں رش ہی اتنا ہے، مفت
آپریشن جو ہو رہے ہیں ۔ اب پتا نہیں ڈاکٹر کم ہیں یا چھٹی پر گئے ہوئے ہیں۔
آخر انہیں بھی تو آرام اور تفریح کا حق ہے نا!!
ہاں ہزاروں میں کوئی بچہ، بچی ایسے بھی ہیں جو شوق سے اسکول جاتے ہیں۔ کیوں؟
وہ بیچارے خود ہی مغز کھپاتے ہیں ، دن رات لوڈ شیڈنگ کے باوجود موم بتی کی
روشنی میں پڑھتے ہیں، کبھی حل پرچہ جات کھولتے ہیں ، کبھی ڈکشنری اور کبھی
اردو لغت۔ پھر بھی ان کے نمبر کم اور نقل کے ماہرین کے نمبر زیادہ۔ مارکس
شیٹ لائق بچوں کا منہ چڑاتی ہے۔ نالائق ان پر ہنستے ہیں ۔ ایسا ہی ہے نا؟
ہزاروں میں کوئی ایک مدرسہ ایسا ہے جہاں علم سے محبت سکھائی جاتی ہے ۔ کسی
خوش نصیب بچے بچی کو مل جائے تو فلاح دارین مل جاتی ہے ۔ کاش ہر مدرسہ ایسا
ہی ہو جائے کاش……
شادیاں ہیں کہ سودے بازیاں ! لڑکے والے چاہتے ہیں ہر لڑکے کی شادی ہو جائے
خواہ وہ اس قابل ہو یا نہیں ہو، پڑھا لکھا ہے، باشعور ہے یا نہیں، صحت مند
ہے یا نہیں، نمازی پرہیز گار ہے یا نہیں، کوئی ہرن بھی آتا ہے یا جو لڑکا
کسی بھی پہلو سے کمزور ہے اسے پہلے پیش کرو۔ ریجیکٹ مال پہلے بازار میں لاؤ،
اچھا مال چھپا کر رکھو۔ ہاں لڑکی میں ہر طرح کے اوصاف ہونے ضروری ہیں۔سب سے
پہلی بات رنگ گورا ہو، باقی باتیں بعد میں دیکھی جائیں گی۔ چلیے جی شادی ہو
گئی، اب لڑکی جانے اور اس کے گھر والے جانیں۔ ہم تو بیٹا بیاہ کر بری الذمہ
ہو گئے۔ لڑکیاں الگ ڈرامے فلمیں دیکھ دیکھ کر، ناول افسانے پڑھ پڑھ کر ایسے
لڑکے کا انتظار کرنے لگتی ہیں جو چھ فٹ سے کم ہر گز نہ ہو، چمچماتی کار سے
نیچے قدم نہ رکھتا ہو، چار سو گز سے کم کا بنگلہ نہ ہو خواہ کرائے کا سہی ۔
بھئی جوبیس پچیس ہزار کرایہ دے گا آخر کچھ دم خم تو رکھتا ہی ہو گا۔ بس
پانچوں انگلیاں گھی میں ہو ں اور سر کڑاہی میں۔ یہ خواب ہوتے ہیں اور جب
آنکھ کھلتی ہے تو انگلیاں گھی میں نہیں ہوتیں اور صرف سر کڑاہی میں ہوتا ہے۔
ہاں یہ خواب پورے ہو سکتے ہیں اگر کسی اسمگلر سے شادی ہو جائے، الامان
الحفیظ۔
چلئے چھوڑیے سب کچھ، ذرا بازار چلتے ہیں۔ قدم قدم پر بازار لگتے ہیں ۔
ضرورت کی چیزیں تو لانی ہی ہیں نا، مٹھی بھر کرایہ خرچ کرکے بازار پہنچے،
اب ہر چیز اپنی طرف کھینچ رہی ہے اور ہم ہیں کہ اس طرح نظریں چرا رہے ہیں
جیسے نامحرم سے چرائی جاتی ہیں ،کہیں پہلی نظرکے بعد دوسرے نگاہ نہ پڑ جائے۔
اتنی احتیاط کے باوجود دکان دار بھائی بن کر باجی باجی کہہ کر دام بتا رہا
ہے مگر دل ہے کہ ڈوبا جا رہا ہے۔ یا اﷲ جتنے پیسے لے کر آئے ہیں اس میں
آدھا سامان بھی نہیں آئے گا۔ قیمت جب آسمان تک پہنچی ہو تو ہم زمین پر رہنے
والے کیا کریں بس یہی کہہ سکتے ہیں :
ہم خاک نشیں تم صف آرائے سرِ بام
بس واپسی کا کرایہ بچا کر گھر واپس آئے تو ہر طرف یہی شور مچ رہا تھا :
امی میرا ٹوتھ پیسٹ نہیں ہے! ، امی میرا شیمپو!، امی میرا تھرماس!، امی
میرا لنچ بکس!، امی میرا بستہ! ، امی میرے موزے!
ارے چپ ہو جاؤ ، چپ ہو جاؤ، بس پیٹ کا دوزخ بھر جائے یہی غنیمت ہے، نہ جانے
کتنوں کو یہ بھی نصیب نہیں ، فاقے کرتیہیں ، اب ٹوتھ پیسٹ کی جگہ منجن یا
مسواک ہو گی، شیمپو کی جگہ بیر کے پتے پیس کر دھویا جائے ، شاپر میں لنچ لے
جاؤ اور کسی بھی بوتل کو صاف دھو کر پانی بھر کر لے جاؤ، بستہ میں کپڑے
کاسی دوں گی اور موزے لنڈا بازار سے سستے لا دوں گی، بس اب یہ نخرے چھوڑ دو۔
اچھا امی جان!
پھر ایسی خاموشی چھائی کہ بس۔ نہ جانے یہ کونسی خاموشی ہے ، کہیں طوفان کی
آمدسے پہلے والی تو نہیں ؟
’’ارے بہن فرحت سنتی ہو۔‘‘ پڑوسن نے آواز دی۔ ’’جی جی آ جائیے دورازہ کھلا
ہے، جب تک ڈاکا نہ پڑ جائے دروازہ بند کرنا یاد نہیں رہتا، السلام علیکم
بہن خیریت تو ہے ؟‘‘
’’ہاں میں یہ بتانے آئی تھی کہ عظمیٰ خالہ اپنے بیٹے کے یہاں ناظم آباد میں
تھیں نا وہ بہت بیمار ہیں ، جناح اسپتال میں داخل ہیں۔‘‘
’’اوہ…… یہ تو بڑی پریشانی والی بات ہے۔‘‘ میں نے پچھلے مہینے سے ان کو فون
نہیں کیا، ایک دفعہ سوچا تھا جاؤں ، مگر کرائے بہت بڑھ گئے ہیں ، بس سے
جائیں تب بھی ۔ سو روپے سے کم نہیں لگتے ، فون کرو تو فون کا بل لمبا آتا
ہے، اب کریں تو کیا کریں! عظمی خالہ بہت محبت کرنے والی مخلص خاتون ہیں، ہم
سب گلی والے مل کر چلیں گے ، کرایہ بانٹ لیں گے۔ ویسے مجھے فون کرنا چاہیے
تھا تم نے بھی نہیں کیا۔
ارے بہن وہی فون کا بل، بس کیا کریں اور کیا نہ کریں۔چلو جب یاد آئیں ان کے
لئے دعائے خیر ہی کر لیا کریں، کم از کم یہ تو کر سکتے ہیں نا!! |