سہیلی

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

فاطمہ تم عائشہ کے گھر گئیں یا نہیں؟رائحہ نے کئی بار پوچھا ہوا سوال آج پھر دہرایا۔نہیں رائحہ باوجود کوشش اور خواہش کے میں عائشہ کے گھر نہیں جا سکی۔لیکن آخر تم بتا کیوں نہیں دیتیں کہ اس کے گھر میں ایسا کون سا شاہکارہے کہ اگر میں اسے نہ دیکھ سکی تو اﷲ نہ کرے کسی بڑی سعادت سے محروم رہ جاؤں گی؟فاطمہ وہ وہاں جاکردیکھنے اورمحسوس کر نے کی بات ہے۔تم وہ منظر دیکھ کر انگشت بہ دنداں رہ جاؤگی۔خیر میں نے یہ بتانے کے لئے فون کیا ہے کہ کل میں عائشہ کی طرف جا رہی ہوں۔تم ٹھیک ۱۰ بجے تیار رہنا ،میں جاتے ہوئے تمہیں پِک کرلوں گی،ان شاء اﷲ۔ اوکے میں تیار رہوں گی ،ان شاء اﷲ،فاطمہ نے جواب دیا۔

اگلے دن ۱۰ بجے میں رائحہ کے ساتھ عائشہ کے گھر جاتے ہوئے دل ہی دل میں اندازے لگا رہی تھی کہ شاید یہ بات ہوگی،شاید وہ بات ہوگی۔خیر اﷲ اﷲ کر کے ہم عائشہ کے گھر پہنچے۔گھنٹی کی آواز پر میں نے دروازہ کھولنے والی خاتون کا جائزہ لیا۔وہ گندمی رنگت ،درمیانے قد،متناسب نقش ونگار والی ایک خاتون تھی جس کے چہرے پر ایک معصومیت،ایک تقدس تھا۔اس نے ہلکے رنگوں والا پرنٹڈ سوٹ پہنا ہوا تھا۔وہ بہت حسین تو نہیں تھی،پر اس میں ایک عجیب سی کشش تھی۔شاید اس کے من کی خوبصورتی نے اس کے عام سے چہرے کو خاص بنا دیا تھا۔اس نے مسکراتے ہوئے چہرے سے ہمارا استقبال کیا۔"فاطمہ یہ عائشہ ہے"اور عائشہ یہ میری دوست فاطمہ ہے۔رائحہ نے تعارف کروایا۔

عائشہ ہمیں سادہ مگر خوبصورتی سے سجے ڈرائنگ روم میں لے گئی۔جہاں اس نے چائے اور دیگر لوازمات سے ہماری تواضح کی۔اس دوران میں پہلے ایک بچہ آیا،ہمیں سلام کیا اور ماما کہہ کر باقی بات کان میں بتا کر چلاگیا۔تھوڑی دیر بعد ایک اور بچہ آیا اور عائشہ کی گود میں بیٹھ گیا۔اس بچے نے بسکٹ دیکھ کر کہا۔۔۔ماما بسکٹ۔عائشہ نے اسے پیار کیا اور ایک بسکٹ اسے دے دیا۔میں نے نوٹ کیا دونوں بچوں کی شکلیں ایک دوسرے سے مختلف تھیں۔لیکن میں نے سوچا ایک ماں جیسا ہوگا دوسرا باپ جیسا۔گفتگو کے دوران رائحہ نے پوچھا زہرا کہاں ہے؟عائشہ نے جواب دیا وہ بچوں کو نہلا رہی ہے،ابھی آجاتی ہے۔

تھوڑی دیر بعد ایک خاتون ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی۔اس کی رنگت عائشہ کی نسبت گوری تھی۔وہ مجھے ایک ہنس مکھ خاتون محسوس ہوئی۔ اس نے بالکل عائشہ جیسا سوٹ پہنا ہوا تھا۔یہ زہراہے،رائحہ نے تعارف کروایا۔میں نے نوٹ کیاعائشہ اورزہرا کے جوتے بھی بالکل ایک ہی ڈیزائن اور رنگ کے تھے ۔دونوں کی چوڑیاں اور باقی زیورات بھی بالکل ایک جیسے تھے۔زہراکے پیچھے پیچھے ایک بچہ بھی آگیا جس کی شکل سب سے پہلے ڈرائنگ روم میں داخل ہونے والے بچے سے ملتی تھی۔زہرانے عائشہ کی گود میں بیٹھے ہوئے بچے سے کہا بیٹا ماما کے پاس آؤ۔بچہ فوراً زہرا کے پاس آگیا۔اتنے میں ایک تیسرابچہ ماما ،ماما کرتا زہرا کے پاس آیا اور پیسے مانگنے لگا۔زہرا نے عائشہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا بیٹا ماما سے لے لو۔یہ بھی ماما۔۔وہ بھی ماما۔۔۔میرا سر چکرانے لگاکہ
ع یا الہٰی یہ ماجرا کیا ہے؟

میں نے رائحہ کے کان میں کہا یہ سب کیا ہے؟رائحہ نے ہنستے ہوئے کہا"رہ گئیں نہ انگشت بہ دنداں؟ اورعائشہ سے کہا "بھئی میری دوست کو مزید پریشان مت کرو اوردونوں ماماؤں کا تعارف کرواؤ تاکہ یہ حیرت کے سمندر میں مزید غوطے کھانے سے بچ جائے۔جس پرعائشہ نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا اچھا بھئی میں تعارف کرواتی ہوں۔

میں اورزہرا ،ہم دونوں سہیلیاں ہیں۔اسی لئے ہم دونوں نے ایک جیسے کپڑے،ایک جیسے جوتے اور ایک جیسے زیور پہن رکھے ہیں۔تو یہ گھر کس سہیلی کا ہے؟میں نے سوال داغا۔ہم دونوں کا،زہرا نے جواب دیا۔میں ہونّقوں کی طرح دونوں کو دیکھنے لگی۔اور یہ بچے؟میں نے ایک اور سوال کیا۔یہ بھی ہم دونوں کے ہیں،عائشہ نے ہنستے ہوئے کہا۔میں نے کہا ایسا"سَہیل پنا"تو پہلی دفعہ دیکھا ہے۔۔۔ سہیلیوں کے ایک جیسے کپڑے،جوتے،زیور تو سنے بھی تھے اور دیکھے بھی تھے۔۔۔مگر یہ مشترکہ بچے۔۔۔ہر بچہ کا دونوں کو ماماکہنا۔۔۔۔ میری سمجھ سے بالا تر ہے۔اس پرعائشہ اور زہراکا مشترکہ قہقہہ سنائی دیا۔

میں نے پھر روئے سخن رائحہ کی طرف کیا اور کہا رائحہ پلیز مجھے سچ سچ بتاؤ یہ سب کیا ہے؟رائحہ نے کہا:زہرا، عبدالرحیم صاحب کی پہلی بیوی ہے جب کہ عائشہ ان کی دوسری بیوی ہے۔زہرا کے عبدالرحیم صاحب سے دوبیٹے ہیں۔عائشہ کے تین بیٹے اس کے پہلے شوہر سے ہیں اور عبدالرحیم صاحب سے شادی کے بعد اﷲ تعالیٰ نے عائشہ کو یہ بیٹی عطا فرمائی جو یانچ بھائیوں کی اکلوتی بہن ہے۔عائشہ کے شوہر کی وفات ہوگئی ،وہ عبدالرحیم صاحب کے ملنے والوں میں سے تھے۔عبدالرحیم صاحب نے شرعی پردہ کرنے کی وجہ سے اگرچہ عائشہ کو کبھی دیکھا تو نہیں تھا مگر اس کی دین داری،اچھے اخلاق وسیرت،سلجھی ہوئی طبعیت کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے۔سو انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ میں عائشہ سے شادی کرلوں۔ایک بیوہ عورت اور اس کے یتیم بچوں کی سرپرستی سے اﷲ خوش ہوگا اور یقیناًاس عمل سے ہمارے رزق میں مزید برکت دے گا اور عائشہ پروفیسر ہونے کی بنا ء پربچوں کی تعلیم وتربیت میں بھی بہترین معاونت کا باعث ہوگی۔

سو عبدالرحیم صاحب نے عائشہ کو شادی کا پیغام بھیجا،مگر عائشہ نے یہ کہہ کر انکار کردیاکہ مجھ پر اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت کی بہت بڑی ذمہ داری ہے۔کوئی اجنبی میرے بچوں کو باپ کاپیار کیسے دے سکے گا؟میں نہیں چاہتی کہ میرے کسی غلط فیصلے سے میرے بچوں کی زندگی خراب ہوجائے۔ سو میں ہرگز ہرگز دوسری شادی نہیں کروں گی۔پھر رائحہ نے روئے سخن عائشہ کی طرف کرتے ہوئے کہا :عائشہ بہتر ہے کہ تم اپنی کہانی فاطمہ کو خود سناؤ۔اس پر عائشہ یوں گویا ہوئی:
جب عبدالرحیم صاحب نے مجھے پرپوز کیا تو میں نے ان سے کہا ماشاء اﷲ آپ کی بیوی حیات ہے،وہ خوبصورت بھی ہے، اﷲ نے آپ کو دوبیٹوں کی صورت میں اولاد سے بھی نوازا ہے۔آپ کو اپنی بیوی سے کوئی شکایت بھی نہیں،اس میں کوئی کمی بھی نہیں پھر مجھ سے شادی کا آپ کے پاس کیا جواز ہے؟ عبدالرحیم صاحب نے ہر مرد کی طرح جواب دیا کہ اسلام نے مجھے چار شادیوں کی اجازت دی ہے۔ میں نے کہا کثرت ازواج حکم نہیں ہے بلکہ بہت سی وجوہات کی بناء پرمرد کو ایک رخصت دی گئی ہے۔اسلام محض اپنی جنسی خواہشات کی تسکین کے لئے کثرت ِازواج کی رخصت نہیں دیتا بلکہ اس رخصت پر خاص شرائط کے ساتھ عمل کیا جا سکتا ہے۔اس پر عبدالرحیم صاحب نے جواب دیا میں بہت اچھے طریقے سے جانتا ہوں کہ اسلام جہاں اس سہولت کے ذریعے یتیم،خلہ یافتہ ،طلاق یافتہ اور بیوہ عورتوں کی کفالت اور دلجوئی چاہتا ہے،وہاں عورتوں کی کثرت اور مردوں کی قلّت کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل پر قابو پانا بھی اس کا ایک اہم مقصد ہے۔ اوریہ بھی یاد رہے کہ دوسری شادی کے لئے یتیم،بیو ہ یامطلقہ کی شرط ہرگز نہیں رکھی گئی مگریہ ایک سنّت ہے اور سنّت پر عمل کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔سو میرے پیشِ نظر محض شادی نہیں ہے ،میں اس کے ذریعے یتیموں کے سر پر دستِ شفقت بھی رکھنا چاہتا ہوں۔اس لئے آپ ٹھنڈے دل ودماغ سے اس پر سوچیں۔

میں نے کہا عبدالرحیم صاحب زبانی باتوں اور عمل میں زمین ،آسمان کا فرق ہوتا ہے۔یہ اتنا آسان نہیں ہے جتنا آپ سمجھ رہے ہیں۔عورت جس کے اندر اﷲ تعالیٰ نے پیدائشی طور پر مامتا کا جذبہ رکھا ہوا ہے،جب سوتیلی ماں بنتی ہے تو یہ جذبہ پتا نہیں کہاں جا سوتا ہے؟تو سوتیلے باپ کا کیسے اعتبار کیا جائے؟ عبدالرحیم صاحب نے کہا سوتیلی ماں کا جوگھناؤنا کردار ہمارے معاشرے میں معروف ہے اس کاسبب ہندوؤانہ سوچ کے اثر کے ساتھ ساتھ بے دینی اور قرآن و سنّت سے لا علمی بھی ہے۔جہاں دین داری،اﷲ کا خوف اور اﷲ پر توکل ہو وہاں اس قسم کے مسائل پیدا نہیں ہوتے۔ میں نے ایک اعتراض یہ بھی کیا کہ آپ نہ صرف عمر میں مجھ سے چھوٹے ہیں بلکہ آپ کی تعلیم بھی مجھ سے کم ہے۔عورت اگر تعلیم کی کمی کو اہمیت نہ بھی دے۔۔مرد اس حوالے سے احساسِ کمتری کا شکار رہتا ہے اور یہ احساس زندگی میں تلخیاں پیدا کردیتا ہے پھر میں کیونکہ عمر میں آپ سے بڑی ہوں اس لئے شاید میں آپ کا وہ احترام نہ کرسکوں جو بحیثیت بیوی مجھ پر فرض ہے ۔ عبدالرحیم صاحب کا جواب تھا نبی کریم ﷺ نے اپنے نکاحوں سے مسلمانوں کو عملی سبق دیا کہ صرف کنواری اور جوان عورتوں ہی کی طرف نہ جائیں بلکہ ناداربیواؤں، طلاق یافتہ اور بڑی عمر کی عورتوں کو ترجیح دیں۔امّہات المومنین رضی اﷲ عنہنّ میں صرف حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کنواری اور کم عمر تھیں۔نبی کریم ﷺ نے پہلی شادی حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا سے کی جو عمر میں آپ ﷺ سے پندرہ برس بڑی تھیں۔اور آپ نے دیکھا کہ دونوں کی زندگی کس قدر خوشگوار گزری کہ آپ زندگی بھر حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کو یاد کرتے رہے ۔

اس پر عائشہ نے کہا آپ کی پہلی بیوی الحمد ﷲ،ماشاء اﷲ نہ صرف حیات ہے بلکہ خوبصورت اور جوان بھی ہے،مجھے ایسا محسوس ہوگا کہ میں اس کا حق مار رہی ہوں۔میں سمجھتی ہوں یہ اس سے زیادتی ہوگی۔عبدالرحیم صاحب کا فوری جواب تھا کہ کیا اماّں عائشہ رضی اﷲ عنہا اور دیگر امّہات المومنین خوبصورت نہیں تھیں؟آپ ﷺ نے ان کی زندگی میں اور شادیاں کیں۔دراصل ا سلام اس بات کا حکم دیتا ہے کہ عورت کواس کے خاندان کے مرد تحفظ دیں،سخت حالات میں ہرطرح اس کی کفالت کریں۔اگر خاندان میں کوئی کفیل نہ ہوتو آپ ﷺنے برادری سے ہٹ کر دوسرے قبائل میں نکاح کرکے ثابت کیا کہ اصل معیار دین داری ہے برادری یا خاندان نہیں۔

میں نے کہا میں یہ فیصلہ کرچکی ہوں کہ میں دوسری شادی ہرگز نہیں کروں گی۔عبدالرحیم صاحب کا جواب تھا کہ دوسری شادی نہ کرنا تو ہندوؤانہ سوچ ہے۔ہندو معاشرے میں دوسری شادی کو گناہ سمجھا جاتا ہے۔آپ اتنی تعلیم یافتہ ہوکر ایسی سوچ رکھتی ہیں؟ میں نے کہا لیکن اسلام نے بیوہ کے لئے دوسری شادی کی شرط نہیں رکھی۔عدّت کے دوران میں نے کتاب"بیوگی کاسفر" پڑھی تھی جس میں بچوں کی خاطر نکاح ثانی سے انکار کی مثال موجود ہے۔واقعہ یوں ہے کہ حضرت امّ ہانی رضی اﷲ عنہا (بنتِ ابو طالب)کو نبی کریم ﷺ نے نکاحِ ثانی کا پیغام دیاتو انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کرلی :
" یا رسول اﷲ ﷺ!آپ مجھے اپنی آنکھوں سے بھی زیادہ عزیز ہیں لیکن شوہر کا حق بہت زیادہ ہوتا ہے اور میرے بچے بھی ہیں اور مجھے اندیشہ ہے کہ میں شوہر کا حق ادا کروں گی توبچوں کی طرف سے غافل ہوناپڑے گا اور اگر بچوں کی پرورش میں مصروف رہوں گی تو شوہر کا حق ادا نہ کرسکوں گی۔"(بیوگی کا سفر۔الہدیٰ پبلی کیشنز ص۱۲۷)

میری خوش فہمی تھی کہ یہ دلیل سن کر عبدالرحیم صاحب لاجواب ہوکر پیچھے ہٹ جائیں گے۔۔مگر انہوں نے کہا آپ اکثر صحابیات کا اسوہ اپنانے کی بجائے انفرادی مثال کو کیوں نمونہ بنا رہی ہیں؟ابھی آپ کے بچے چھوٹے ہیں،آج کل کے حالات میں مرد کی سرپرستی کے بغیر خاص طور پر لڑکوں کی دینی تربیت بہت مشکل کام ہے۔ہادیٔ برحق ﷺ نے توبیوہ عورتوں سے نکاح کرکے ان کی تعظیم وتکریم کرنے اور انہیں تحفظ فراہم کرنے کا عملی نمونہ قائم کیا ہی تھا،قرآن مجید نے بیوگان سے نکاح کی باقاعدہ تحریک چلائی۔ارشادِ ربّانی ہے:
و انکحوا الایامیٰ منکم
ـ"اور اپنے میں سے بے نکاح مردوعورت(بیواؤں اور رنڈووں)کا نکاح کردیا کرو"(النور:32)
حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:
"بیوہ اور مسکین کے لئے دوڑ دھوپ کرنے والا اور ان کی خدمت کرنے والا ایسا ہے جیسا کہ اﷲ کی راہ میں جہاد کرنے والا، جیسا وہ نمازی جو نماز سے نہیں تھکتا اور جیسا وہ روزہ دار جو کبھی روزہ کا ناغہ نہیں کرتا"(بخاری)
نبی کریم ﷺ نے یہ بھی فرمایا:
"میں اور یتیم کی پرورش کا ذمہ دار دونوں جنت میں ایسے ہوں گے جیسے یہ دونوں"اور شہادت اور درمیان والی انگلی کا اشارہ کرکے بتایا۔(بخاری)

میں نے ایک اور خدشے کا اظہار کیا کہ آپ کے ماشا ء اﷲ اپنے بچے بھی ہیں،آپ کی بیوی ہے،ہم تین افراد کے اضافے سے اخراجات میں جو اضافہ ہوگا وہ آپ کیسے پورا کریں گے؟انہوں نے جواب دیا:آپ نے وہ مشہور روایت نہیں سنی؟میں نے پوچھا کون سی؟جواب ملا
نبی کریم ﷺ کے پاس ایک شخص حاضر ہوا اور اپنی مفلسی وبدحالی کی شکایت کی۔آپ نے پوچھا "نکاح کیا ہے؟"اس نے کہا "جی ہاں"۔حکم دیا
"جا!ایک اور نکاح کرلے۔"اس نے ایک اور نکاح کرلیا۔کچھ عرصے بعد دوبارہ حاضر ہوا اور مفلسی وبدحالی کی دوبارہ شکایت کی۔آپ نے اسے پھر ایک اور نکاح کرنے کا حکم دیا۔اس نے نکاح کرلیا اور پھر مفلسی و تنگدستی کی شکایت کی۔آپ نے اسے چوتھا نکاح کرنے کا حکم دیا۔اس نے نکاح کرلیا۔پھر کچھ عرصے بعد حاضر ہوا تو اس کی حالت سے آسودگی ٹپک رہی تھی۔عرض کرنے لگا۔"یا رسول اﷲ ﷺ اﷲ نے میری حالت بہتر کردی ہے۔"یعنی نکاح فراخئی رزق کا باعث بنتا ہے۔کیونکہ میاں بیوی دو افرادِ خانہ ہوتے ہیں،اگر ایک کا رزق تنگ بھی ہوگا تو دوسرے کارزق اسے بھی کفایت کرجائے گا۔

پھر میں بیرونِ ملک ملازمت کرتا ہوں۔الحمد ﷲ میری اتنی آمدنی ہے کہ میں دو خاندانوں کا خرچ آسانی سے برداشت کرسکتا ہوں۔میں نے جب پوچھا کہ آپ کی بیوی مان جائے گی؟تو جواب ملا پہلی بات تو یہ ہے کہ میں اس کی اجازت کے بغیر بھی دوسری شادی کرسکتا ہوں کیونکہ شریعت نے پہلی بیوی سے اجازت لینے کی شرط نہیں رکھی ۔۔مگر بعد کے مسائل سے بچنے کے لئے اسے اعتماد میں لے لینا بہتر ہوگا،اور ایک یہی مرحلہ بہت مشکل ہوگا۔لیکن زہرا دل کی بہت اچھی ہے ،دین دار ہے ،مشکل سے ہی سہی بالآخر مان جائے گی ۔اس کا ایک دوسرا حل بھی ہے کہ فی الحال زہرا کو نہ بتایا جائے،ہم خفیہ طور پر نکاح کرلیں۔یہ بات سن کر میں تو آگ بگولہ ہو گئی اور میں نے کہا"نکاح کا مطلب شادی کا اعلان ہوتا ہے،اور چھپ کر کئے جانے والے نکاح کو میں نکاح سمجھتی ہی نہیں۔نکاح ہوگا تو اعلانیہ ہوگا۔۔۔کیونکہ میرا ایک بہت مقدس پیشے سے تعلق ہے۔میں ایک استاد ہوں۔میں نے اﷲ کے فضل اور بڑی محنت سے اس شہر میں ایک باعزت اور باوقار مقام حاصل کیا ہے۔پھر بیوگی کے بعد میری پوزیشن اور بھی نازک ہوگئی ہے ،آپ میرے گھر آئیں، جائیں گے تو لوگ میرے بارے میں کیا سوچیں گے؟پھر میرے بیٹے ابھی بہت چھوٹے ہیں۔۔۔ان پر اس کا بہت برا اثر پڑے گا۔لہٰذا بہتر ہے کہ آپ پہلے زہرا کو منائیں۔۔۔بلکہ آپ کو اسے منانے ،اعتماد میں لینے کے بعد ہی مجھ سے بات کرنی چاہئے تھی۔"

عبدالرحیم صاحب نے ایک اور بھی وضاحت کی کہ کچھ عرصے بعد پتا چلا کہ موصوف پاکستان آرہے ہیں۔سو پاکستان آکر زہرا سے بات کرنے کا فیصلہ ہوا۔زہرا سے بات ہوئی،حسبِ توقع اس کے لئے یہ خبر کسی بم سے کم نہ تھی۔کیونکہ وہ ہر مشرقی عورت کی طرح اپنے شوہر سے بے انتہا محبت کرتی ہے۔وہ یہ سن کر بہت روئی۔کچھ دیر کے لئے تو موصوف بھی گڑبڑا گئے۔لیکن پھر مجھ سے کئے ہوئے وعدے،وعید یاد آئے۔ہوسکتا ہے کہ مجھے بہت مظلوم بنا کر پیش کیا گیا ہو۔۔۔میری مشکلات کا رونا رویا گیا ہو؟یہ تو زہرا ہی بتا سکتی ہے کہ اسے کیسے منایا گیا؟زہرا پلیز آپ بتائیے کہ آپ کیسے مانیں؟عائشہ نے زہرا سے سوال کیا

زہرا نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا"یہ خبر واقعی میرے لئے کسی بم سے کم نہ تھی۔میں بہت روئی،کھانا پینا چھوڑدیا۔میرا دل محبت میں شراکت پر قطعی تیار نہ تھا۔میرے دل میں طرح طرح کے خدشات سر اٹھا رہے تھے۔بچوں کا اور اپنا مستقبل تاریک نظر آرہا تھا۔عبدالرحیم صاحب نے مجھے سمجھایاکہ زہرا تمہیں وہی مقام حاصل رہے گاجو اب حاصل ہے،تم سے میری محبت میں کوئی کمی نہیں آئے گی،بلکہ تمہارے اجازت دینے سے میرے دل میں تمہاری محبت اور بڑھ جائے گی۔تم یہ نہ سوچو کہ میری محبت "تقسیم" ہوجائے گی،تمہارے بچوں کو ملنے والا پیار "بٹ" جائے گا بلکہ تم یہ سوچو کہ
"محبت کو تقسیم نہیں کیا جاتا بلکہ محبت کو ضرب دی جاتی ہے"

تم اس حدیث کی عملی تصویر کیوں نہیں بنتیں؟کہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے،اوپر والا ہاتھ دینے والا اور نیچے والا ہاتھ لینے والا ہے-

سو تم اوپر والا ہاتھ بن جاؤ۔تم یہ مت سوچو کہ ایک بیوہ اور اس کے یتیم بچوں کے آجانے سے گھر کے اخراجات میں اضافہ ہوجائے گا،مجھے اور میرے بچوں کو ملنے والی سہولیات کم نہ ہوجائیں بلکہ یہ سوچو کہ اﷲ رب العزت نے ہر انسان کی پیدائش کے ساتھ ہی اس کا رزق بھی لکھ دیا ہے، جو ہر صورت اسے مل کر رہے گا۔آنے والے اپنا نصیب لے کے آئیں گے۔وہ اپنے نصیب کا کھائیں گے،تم لوگ اپنے نصیب کا کھاؤگے۔

تم یہ سوچو اس شادی سے کتنے غمگین دل راحت پائیں گے؟اور دل تو وہ جگہ ہے جہاں رب رہتا ہے۔سو ان کے دلوں کو سکون پہنچانے کے عوض اﷲ تمہاری،تمہارے شوہر کی،تمہارے بچوں کی نہ صرف دنیا بلکہ آخرت بھی سنوار دے گا۔انہوں نے شادی سے رزق کی فراخی والی روایت مجھے بھی سنائی،یتیم اور بیوہ کی خدمت پر ملنے والے اجروثواب والی حدیث کا ذکر کیا۔اور کہا تم اس کارِخیر میں معاونت پر اﷲ اور رسول ﷺ کی خوشنودی کے حصول میں معاونت پر حقیقی اور مجازی دونوں خداؤ ں کی "منظورِنظر"بن جاؤ گی۔میں نے عبدالرحیم صاحب سے ایک سوال کیا تھا کہ کیا بیوہ کے بچے یعنی بیٹیاں دوسرے شوہر کی محرم ہوں گی؟ توانہوں نے ایک وضاحت کی تھی،مجھے نہیں معلوم کہ انہوں نے عائشہ سے یہ وضاحت کی تھی یا نہیں؟انہوں نے کہاتھا کہ بیوہ کی پہلے شوہر کی اولاد دوسرے شوہر کے لئے ـ"ربیبہ"ہو گی۔

پھر عبدالرحیم صاحب نے عائشہ سے میری بات کروائی میں نے بادلِ ناخواستہ بات کی۔۔۔عائشہ نے مجھے بتایا کہ زہرا میں نے اپنے پہلے شوہر کے ساتھ الحمد ﷲ اتنی خوشگوار زندگی گزاری ہے اور اﷲ رب ا لعزت نے مجھے تین اتنے پیارے بیٹوں سے بھی نوازا ہے اس لئے میں اپنے آپ کو دوسری شادی کے لئے بالکل تیار نہیں کرپارہی۔میں نے عبدالرحیم صاحب کو صاف انکار کردیا تھا۔کیونکہ آپ کی نسبت مجھے مشکلات کے سامنے کا زیادہ اندیشہ ہے۔آپ اور آ پ کے بچے اس گھر کے مالک ہیں،میں تو آپ کے " گھر" میں لائی جاؤں گی ،اصل بات دلوں میں"گھر" بنانا ہے جو بڑے جان جوکھوں کا کام ہے۔میں اگر اس میں کامیاب نہ ہوسکی تو میرے بچے۔۔۔۔اﷲ نہ کرے،اﷲ نہ کرے "رُل" جائیں گے۔سومیں آپ سے ایک واقعہ شیئر کرنا چاہتی ہوں۔۔

ایک مرتبہ ہم (میں،میرے شوہر،تینوں بچے ) ٹرین میں سفر کررہے تھے۔تبلیغی جماعت کے کچھ لوگ بھی ٹرین میں تھے۔ایک شرعی مسئلے پر بات شروع ہوئی۔میرے شوہر نے قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیا،وہ سب بہت متاثر ہوئے اور گروپ لیڈر جو اپنے علاقے کا سردار تھانے ہمیں اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔میرے شوہر نے چھٹیوں میں آنے کا وعدہ کرلیا۔چھٹیاں ہوتے ہی فون آگیا کہ آپ کب آرہے ہیں؟سو ہم وہاں پہنچے تو پتہ چلا کہ سردار صاحب کی دو بیویاں ہیں۔دونوں ایک ہی گھر میں رہتی ہیں،کھانا،پکانا ہر کام مشترکہ ہے۔بظاہربھی دونوں مجھے خوش ہی لگیں۔ان کی پہلی بیوی نے اچانک مجھ سے پوچھا"تیڈی سہیلی دا کیا ناں ہے؟" میں حیران کہ وہ میری سہیلی کا نام کیوں پوچھ رہی ہے؟پھر میری تو کئی سہیلیاں ہوسکتی ہیں،کس کا نام بتاؤں؟میں نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا،اسے اندازہ ہوا کہ میں شاید اس کا سوال سمجھ نہیں سکی،سو اس نے اپنی"سوکن"کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا"میڈی سہیلی دا ناں رضیہ ہے"تو مجھے سمجھ آیا کہ وہ میرے شوہر کی پہلی بیوی کا نام پوچھ رہی ہے۔میں تو حیرت کے سمندر میں غوطہ زن ہوگئی کہ "سوتن"کے لئے "سہیلی"کا لفظ؟؟؟

واپس آکر میں نے اپنے شوہر کو ساری بات بتائی،وہ بھی بہت حیران ہوئے کہ لوگوں کی نظر میں بالکل "جاہل" عورت نے کتنی "گہری"بات کی

اس کی یہ بات کئی دن ہمارے گھر میں زیرِبحث رہی۔میں نے اپنے حلقہ احباب میں سب کو یہ بات بتائی۔میں نے اپنے شوہر سے اس حوالے سے سارا فلسفہ سمجھا اور ایک دن میں نے اپنے شوہر سے کہا کہ "اگر کبھی آپ یہ سمجھیں کہ آپ کوتیسری شادی کرلینی چاہئے تو میں آپ کو کھلے دل سے اس کی اجازت دیتی ہوں کہ آپ جب چاہیں تیسری شادی کرلیں۔۔لیکن جب بھی کریں بس مجھے بتا کر کریں۔میں اسے اپنی سہیلی بنا کے رکھوں گی،کیونکہ دونوں بیویاں اپنے شوہر کے سب رازوں کی شریک ہوں گی،سو انہیں سہیلیاں بن کر ہی رہنا چاہئے تاکہ گھر امن وسکون کا گہوارہ بنا رہے۔"

یہ تو اﷲ کی طرف سے ایک آزمائش اور امتحان تھا کہ مجھے اپنے شوہر کی وفات کا صدمہ برداشت کرنا پڑا۔اور الحمد ﷲ ،اﷲ نے مجھے صبرکی ہمت بھی دی۔اس مالک کا بڑا کرم ہے کہ اس نے مجھے تین اس قدر خوبصورت شہزادے بھی دے دیئے تھے کہ جو میرے لئے زندہ رہنے کا جواز ہیں۔ مجھے عدت کے فوراً بعد دوسری شادی کے مشورے دیئے جانے لگے،اور ظاہر ہے میری ہمدردی میں دیئے گئے،لیکن میرے شہزادے میراسرمایہ حیات ہیں،میں نہیں چاہتی میرا کوئی غلط فیصلہ،کوئی غلط اقدام ان کی محرومیوں میں اضافہ کردے۔ میں اب بھی دوسری شادی نہیں کرنا چاہتی لیکن صرف یہ سوچ رہی ہوں کہ ہم اپنے نبی رحمت ﷺکی سنّت کو زندہ کرنے کا عظیم کام کرکے اپنی دنیا اور آخرت کیوں نہ سنواریں؟ اس لئے میں آپ سے درخواست کرتی ہوں کہ آپ اس بات پر غور کریں کہ کیا یہ ممکن نہیں کہ ہم واقعی سہیلیاں بن جائیں؟ہم عبدالرحیم صاحب سے وعدہ لیں کہ وہ اپنے نبی کریم ﷺ کے اسوہ حسنہ کو نمونہ بناتے ہوئے ہم دونوں میں مساوات قائم رکھیں گے،دن تقسیم کریں گے،دونوں سے حسنِ سلوک کریں گے،کسی کو نظرانداز نہیں کریں گے اور کسی جھگڑے یا لڑائی کی صورت میں انصاف کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑیں گے بلکہ بہترین حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے صلح صفائی سے معاملہ نمٹا لیا کریں گے ،ان شاء اﷲ ۔اور ہم سب مل جُل کر ایک گھر میں زندگی گزاریں؟

میں نے کہا زہرا میں سہیلیوں کا لفظ اس لئے استعمال کررہی ہوں کہ سہیلی کا مطلب ہے ساتھن،سَکھی،ساتھ رہنے والی،ہمجولی،رازدار،ہمدرد، دکھ سکھ کوسمجھنے والی اور دکھ سکھ میں ساتھ دینے والی وغیرہ وغیرہ۔ اگرہم دونوں ہندوؤانہ سوچ اور ہندؤوانہ تصور کے تحت استعمال ہونے والے الفاظ ومحاورات مثلاً سوتن وغیرہ کو چھوڑ کر "سَہیل پُنا"اپنا لیں اور دونوں سہیلیاں اور ساتھنیں بن جائیں ،ایک دوسرے کی ہمدرد بن جائیں، دکھ درد ،تکلیف اور بیماری میں ایک دوسری کا خیال رکھنے لگیں،شوہر کے ہر راز سے واقفیت کی بناء پر ایک دوسرے کی رازدار اور ہمجولیاں بن جائیں تو سارے دلدر دور ہوجائیں گے۔اگرایک چیز ہو اور بانٹی جا سکتی ہو تو دونوں آپس میں بانٹ لیں،اگر بانٹنے والی نہیں تو کبھی پہلی دوسری کے لئے قربانی دے دے ،کبھی دوسری پہلی کے لئے قربانی دے دے ،سہیلیوں کی طرح ایک دوسری کی تکلیف پر تڑپ اٹھیں،جیسے سہیلیوں کو اپنی سہیلیوں کے بچّے بھی بہت عزیز ہوتے ہیں ایسے ہی ایک دوسری کے بچّوں سے پیار و محبت کریں۔بچّوں کو سکھائیں کہ آپ سب آپس میں بہن بھائی ہیں اس لئے لڑنے کی بجائے ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنا ہے ۔اس رشتے کی کامیابی میں شوہر کے بعد پہلی بیوی کا کردار بے حد اہم ہے ۔وہ اگر صرف حسد جیسا منفی جذبہ اپنے دل سے نکال دے تو زندگی بہت پُر سکون گزرے گی ۔اس مثلث کا تیسر ا اہم کردار یعنی دوسری بیوی کا کردار بھی بہت اہم ہے،اسے قربانی کا بکرا بلکہ بکری سمجھنے کی بجائے انسان سمجھا جائے اور وہ پہلی بیوی کے ایثار وقربانی کی دل سے قدر کرے ،گھریلو ذمہ داریوں اور فرائض کی ادائیگی اور بچوں کی تعلیم وتربیت میں بھرپور معاونت کرے تو دونوں سہیلیوں کی مشترکہ کاوشوں سے گھر "جنت"کا نمونہ بن جائے گا۔ اس طرح کا مثالی رویہ اور سلوک لوگوں کو ہضم نہیں ہوگا اس لئے وہ دونوں میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کی "انتھک "کوشش ضرور کریں گے جیسا کہ ایک حدیث مبارک ہے کہ:
"شیطان اپنے لشکروں سے کہتا ہے کہ:آج تم میں سے کس نے مسلمان کو گمراہ کیا ہے؟میں اسے قریب کرکے تاج پہناؤں گا،تو ایک آکر کہتا ہے کہ:میں نے فلاں کو اتنا ورغلایا کہ اس نے اپنے والدین کی نافرمانی کرلی تو شیطان کہتا ہے ہوسکتا ہے وہ صلح کرلے۔دوسرا کہتا ہے کہ میں نے فلاں کو اتنا ورغلایا کہ اس نے چوری کرلی تو شیطان کہتا ہے ممکن ہے وہ بھی توبہ کرلے۔تیسرا آکر کہتا ہے کہ میں نے فلاں کو اتنا ورغلایا کہ وہ زِنا کر بیٹھا تو شیطان کہتا ہے ہو سکتا ہے یہ بھی توبہ کرلے۔ایک اور آکر کہتا ہے کہ میں نے فلاں کو اتنا ورغلایا کہ اس نے اپنی بیوی کو طلاق ہی دے دی۔۔اب کی بار ابلیس کہتا ہے کہ" تُو ہے تاج کا مستحق"اور اسے اپنے قریب کرکے تاج پہنا تا ہے۔"(مسلم)

لیکن دونوں سہیلیاں ایک دوسری سے تصدیق کئے بغیر کسی کی بات پر یقین نہ کریں اور بھڑکانے والے کو فوراً ٹوک دیں کہ براہ مہربانی میری سہیلی یا میرے شوہر کے خلاف کوئی بات مت کریں، تو کوئی فساد کبھی نہ ہو۔

میں نے عبدالرحیم صاحب کو بھی سہیلی والا واقعہ اور اپنے شوہر کو کی جانے والی تیسری شادی کی پیشکش والی بات بتائی،اور انہیں کہا کہ اگر اﷲ نے ایسا ہونا لکھا ہے تو آپ دیکھیں گے کہ میں زہرا سے سہیلیوں والا رویہ ہی رکھوں گی،ان شاء اﷲ۔

عبدالرحیم صاحب کا یہ خیال بالکل درست ثابت ہوا کہ زہرا دل کی بہت اچھی ہے۔اﷲ رب العزت نے اسے خوبصورت شکل وصورت کے ساتھ ساتھ بہت ہی خوبصورت دل اور وسیع ظرف سے بھی نوازا ہے۔اپنے بچوں کو تو ہر کوئی فوقیت دیتا ہے ،کمال یہ ہے کی یہ اپنے بچوں پر میرے بچوں کو فوقیت دیتی ہے۔الحمد ﷲ ہمارا گھر امن و سکون کا گہوارا ہے۔یہاں تک کہ اب اگر عبدالرحیم صاحب ہم میں سے کسی پر سختی کرتے ہیں یا ڈانٹتے ہیں تو ہم۔۔۔۔ایک دوسرے کی طرف داری کرتی ہیں اور۔۔۔اور عبدالرحیم صاحب سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں،عائشہ نے ہنستے ہوئے بتایا۔

رائحہ نے کہا:عائشہ اور زہرااﷲ تعالیٰ آپ کے اس ہنستے ،مسکراتے گھرانے کو نظرِبد سے بچائے،آپ کو ہمیشہ اسی طرح خوش وخرم رکھے ،جس پر سب نے بیک زبان آمین،ثم آمین کہا۔

عبدالرحیم صاحب سعودیہ سے چھٹی پر پاکستان آنے پر پہلے تو ظاہر ہے کہ زہرا کے پاس آتے تھے،اب وہ پہلے کس کے پاس جاتے ہیں؟کیا اس معاملے پر بھی کبھی جھگڑا نہیں ہوتا؟فاطمہ نے دونوں سہیلیوں سے پوچھا۔ہاہاہا شاید ہوتا جھگڑا نہیں بلکہ فساد ہوتا،مگر یہاں بھی عائشہ کی سمجھداری اور مشاہدہ کام آیا۔اس نے بتایا کہ اس کے ایک کزن برطانیہ میں مقیم ہیں۔ان کی دو بیویاں ہیں۔وہ جب پاکستان آتے ہیں تو پہلی بیوی کے پاس پہلے جاتے ہیں اور جب واپس جاتے ہیں تو دوسری بیوی رخصت کرتی ہے،یعنی پہلی بیوی استقبال کرتی ہے تو دوسری رخصت کرتی ہے اور اگلی مرتبہ دوسری استقبال کرتی ہے اور پہلی رخصت کرتی ہے۔زہرا نے وضاحت کی۔

اس ساری گفتگوکے بعد رائحہ نے میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا،جیسے پوچھ رہی ہو اب کیا خیال ہے؟میں نے کہاا ٓج کل تو لوگوں میں تحمل اور برداشت کی اس قدر کمی ہوگئی ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بڑے بڑے جھگڑے شروع ہوجاتے ہیں اور نوبت گھر ٹوٹنے تک جا پہنچتی ہے۔

اور ساتھ ہی میری آنکھوں سے شرمندگی آنسوؤں کی شکل میں ٹپ ٹپ کرکے بہنے لگی۔رائحہ نے فوراً میرا سر اپنے کندھے سے لگاتے ہوئے مجھے نہ صرف تسلی دی بلکہ میرے آنسو بھی صاف کئے۔عائشہ اور زہرا گھبرا کر میرے قریب آگئیں اور پوچھنے لگیں کہ فاطمہ کیا بات ہے آپ کیوں رو رہی ہیں؟اصل میں فاطمہ بہت حساس ہے،اسے ذرا ذرا سی بات پر رونا آجاتاہے،پلیز آپ پریشان نہ ہوں،رائحہ نے بات کو سنبھالتے ہوئے حقِ دوستی ادا کیا۔لیکن میں نے اس موقع کوغنیمت سمجھا اور اپنے رونے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا:

عائشہ،زہرا ۔۔اصل میں کافی عرصہ سے ایک جھگڑا چل رہا ہے۔میری اور حمزہ کی شادی کو پانچ سال کا عرصہ گزر چکا ہے مگر ابھی تک ہم اولاد جیسی نعمت سے محروم ہیں۔حمزہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہے۔میری ساس کی دلی خواہش ہے کہ ان کے اکلوتے بیٹے کی اولاد ہو،وہ دادی بنیں، ان کے اکلوتے بیٹے کا کوئی وارث ہو۔کافی عرصہ تو ہم نے اس طرف توجہ ہی نہیں دی۔جب میری ساس کا اصرار بڑھا تو ہم نے اپنا چیک اپ کروایا ۔۔۔۔میری آواز رُندھ گئی اورمیری ہچکیاں بندھ گئیں۔رائحہ نے جلدی سے پانی کا گلاس میری طرف بڑھایا جو عائشہ لے کر آئی تھی۔ رائحہ نے کہا فاطمہ رونا بند کرو اور چلوگھر چلیں۔وہ دوست ہونے کے ناتے میرا راز رکھنا چاہتی تھی مگر عائشہ اور زہرا کی مثالی زندگی نے میری سوچ کو یکسر بدل کر رکھ دیا تھا۔سو میں اس انقلاب کی روشنی سے اپنے گھر،اپنے شوہراوراپنی ساس کے دلوں کو منور کرنے کا جوپختہ عزم اپنے دل میں کرچکی تھی،اس سے سب کو نہ صرف آگاہ کرنا چاہتی تھی بلکہ مجھے سب کا مشورہ بھی درکار تھا۔سو میں نے زہرا اور عائشہ کوبتایا کہ ڈاکٹر نے یہ تکلیف دہ انکشاف کیا ہے کہ میں ماں نہیں بن سکتی ۔میری ساس نے مجھے تسلّی دی،اسے اﷲ کی رضا قرار دیتے ہوئے مجھے حوصلہ دیا اور ساتھ ہی اپنے بیٹے کو دوسری شادی کا مشورہ دیا۔حمزہ نے اپنی ماں کی خواہش مجھے بتائی تو میں نے اس کی سختی سے مخالفت کی۔حمزہ نے مجھے سمجھایا کہ دوسری شادی کے بعد بھی ان شا ء اﷲ تمہاری حیثیت میں کوئی فرق نہیں آئے گا،نہ ہی میری محبت میں کوئی کمی آئے گی۔لیکن میرادل ان دلیلوں کو نہیں مانتا تھاکیونکہ ہمارے ہاں عام طور پر یہی ہوتا ہے کہ دوسری شادی کے بعد ،خاص طور پردوسری بیوی سے اولاد ہونے کے بعد پہلی بیوی کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔پھر پہلی بیوی ایک فالتو ـ"چیز"کی طرح گھر کے ایک کونے میں پڑی زندگی کے دن گنتی رہتی ہے۔وہ نہ زندوں میں شمار ہوتی ہے ،نہ مُردوں میں۔رائحہ بہت دنوں سے مجھے آپ کے گھر لاناچاہ رہی تھی مگر مجھے یہ نہیں پتہ تھا کہ کیوں؟اصل میں یہ مجھے اس کشمکش سے نکالنا چاہتی تھی جس نے کافی عرصے سے مجھے بے چین اور بے سکون کر رکھا تھا۔ایک طرف "سوتن"کے گھر میں آجانے اور اپنے نظر انداز ہونے کا خوف اور غم دوسری طرف یہ احساس کہ حمزہ اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا ہے اس لئے اس کے ماں،باپ کواس کی اولاد کو گود میں کھلانے کا کتنا ارمان ہے؟اور میں ان کے اس ارمان کو پورا کرنے کے قابل نہیں۔لیکن آج عائشہ اور زہرا آپ کی آئیڈیل زندگی کو دیکھ کر میرے بہت سے خدشات ختم ہو گئے ہیں۔آپ دونوں مجھے مشورہ دیں کہ میں کیا کروں؟کیا میں حمزہ کو دوسری شادی کی اجازت دے دوں؟میں نے عائشہ اور زہرا کی طرف رخ موڑتے ہوئے پوچھا؟

دیکھو فاطمہ!ایک بات کی وضاحت کردوں کہ پاکستان کا قانون تو کہتا ہے مگر اسلام نے دوسری شادی کے لئے پہلی بیوی کی اجازت کی شرط نہیں رکھی کیونکہ عورت تو شاید کبھی اپنے شوہر کو دوسری شادی کی اجازت نہ دے۔حمزہ چاہے تو تمہاری اجازت کے بغیر بھی دوسری شادی کرسکتا ہے ،وہ اگر تم سے اجازت مانگ رہا ہے تو اس لئے کہ یہ معاملہ باہمی افہام وتفہیم سے طے پاجائے اوربعد میں لڑائی،جھگرے،فساد کا ڈر نہ رہے۔تمہاری سوچ میں یہ تبدیلی یقیناً بہت مُثبت اور خوشگوار ہے ،لیکن تمہیں حمزہ سے ایک بار کھل کر بات بھی کر لینی چاہیئے کہ کیا وہ مساوات قائم کرسکے گا؟ اور یہ کہ وقت کی تقسیم کیسے ہوگی؟وغیرہ وغیرہ۔اور اسے یہ بھی بتانا کہ مساوات قائم نہ کرنے پرحدیث میں سخت وعید بھی سنائی گئی ہے جو یہ ہے کہ:
"جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان کے درمیان برابری نہ کرے تو وہ قیامت کے دن اس حالت میں آئے گا کہ اس کا آدھا دھڑ ساقط اورمفلوج ہوگا۔(مشکوٰۃ صفحہ ۲۸۹) ۔

عائشہ نے جواب دیتے ہوئے کہا۔عائشہ! حمزہ کی تنخواہ ماشاء اﷲ ٹھیک ٹھاک ہے،گھر میں بھی الحمد ﷲ بہت گنجائش ہے۔بس دعا کرو کہ میری سہیلی واقعی سہیلی ثابت ہو، اﷲ ہمیں باہمی اتفاق واتحاد سے زندگی گزارنے اور حمزہ کو مساوات کی توفیق دے۔ سب نے یک آواز ہوکر کہا،آمین ،ثم آمین۔

فاطمہ!سب سے ضروری بات جس کا تمہیں بے حد خیال رکھنا ہے وہ یہ ہے کہ حمزہ کی دوسری بیوی کون ہوگی؟عائشہ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا:اس سلسلہ میں اپنی ساس اور حمزہ کو اس بات پر رضامند کرو کہ وہ کوئی بیوہ یا مطلقہ ہو،کیونکہ اس سے ایک پنتھ دو کاج ہوجائیں گے۔حمزہ اور اس کی والدہ کی اولاد کی خواہش بھی پوری ہوجائے گی اور ایک بیوہ یا مطلقہ کی کفالت اوردلجوئی بھی ہوجائے گی۔ عائشہ نے تاکید کی۔ مگر عائشہ بیوہ تو ٹھیک ہے کہ اﷲ نے شوہر کو واپس لے کراسے آزمایا ،یعنی شوہر کی موت اﷲ کی رضا تھی جس پر بیوہ کوصبروشکر کرنا چاہیئے مگر۔۔۔مگر طلاق تو عورت کی غلطی،اس کے نباہ نہ کرسکنے کی وجہ سے ہوتی ہے۔جو عورت پہلی مرتبہ گھر نہ بساسکی،بچانہ سکی وہ دوبارہ گھرکیسے بسائے گی؟اور دوسری بیوی کے طور پر کیسے نباہ کرسکے گی؟میں نے سوال کیا۔ عائشہ نے جواب دیا :فاطمہ! تمہارا یہ خیال مکمل درست نہیں ہے۔طلاق میں یا علیحدگی میں صرف عورت کا قصور نہیں ہوتا۔بعض دفعہ تو صرف مرد کی منفی سوچ طلاق کی وجہ ہوتی ہے۔یعنی مرد کی شادی اس کی پسند کے برعکس کردی جاتی ہے۔مثلاً اسے "ماڈرن"لڑکی پسند ہوتی ہے مگر اس کی شادی کسی دین دار عورت سے،کسی باپردہ عورت سے کردی جاتی ہے یا مرد دین دار عورت سے شادی کرنا چاہتا ہے مگر اس کی شادی کسی ماڈرن یا بے پردہ عورت سے کردی جاتی ہے۔سوچ اور عقیدہ کے اختلاف کی وجہ سے بعد میں نباہ نہیں ہوپاتا،نتیجے کے طور پردونوں میں طلاق ہوجاتی ہے۔یاد رکھو ہرطلاق یافتہ عورت بری یا قابلِ نفرت نہیں ہوتی۔یہاں تک کہ ہمارے پیارے نبیﷺ کی پیاری صاحبزادی کو اعلیٰ تربیت یافتہ ،پاکیزہ ،نیک اور خوبصورت ہونے کے باوجود بھی اس مشکل کا سامنا کرنا پڑا تو ہماں،شماں کس کھیت کی مولی ہیں؟ تم اپنے اردگرد نظر دوڑاؤ یقینا تمہیں ایسی عورتیں ضرور نظر آجائیں گی جو طلاق یافتہ ہونے کے باوجود باکردار ،دین دار اور پُرخلوص ہوں گی۔

ہوں گی نہیں ،ہیں۔زہرا نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا۔خود عائشہ کی ۲،۳ شاگرد اور ساتھی بھی موجود ہیں جو بہت ہی پُرخلوص،نیک اطوار، تعلیم یافتہ اور سلجھی ہوئی ہیں۔ سسرال والوں کے لالچ اور عاقبت نا اندیشی کی وجہ سے علیحدگی ہوگئی۔فاطمہ!تم ان میں سے کسی کا انتخاب کرو اور یہ نیک کام کرڈالو،ان شاء اﷲ، اﷲ برکت ڈالے گا۔فاطمہ!زہرا بالکل ٹھیک کہہ رہی ہے۔میں تمہیں ان سب سے ملوادوں گی،پھر تم اپنی ساس اور حمزہ کے مشورے سے ان میں سے کسی کا انتخاب کر لینا۔اور ہاں جہیز کے چکر میں مت پڑنا کیونکہ جہیز لینا،دینا ایک غیر شرعی اور غیر اسلامی عمل ہے۔عائشہ نے کہا۔ ان شا ء اﷲ میں ایسا ہی کروں گی ۔آج میرے دل سے ایک بہت بڑا بوجھ اتر گیا ہے ۔الحمد ﷲ آج میں بہت خوش اور مطمئن ہوں فاطمہ نے مسرور لہجے میں کہا۔اور اس کا کریڈٹ جاتا ہے ۔۔۔۔کس کو جاتا ہے کریڈٹ ؟میں نے سوال کیا۔اس کا سب سے پہلا کریڈٹ جاتا ہے رائحہ کو۔۔جو فاطمہ کو ہمارے گھر لائی اور اسے عملی سبق دیا،دوسرا کریڈٹ جاتا ہے زہرا کو جس نے بہت وسیم الظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میرے کردار کونہ صرف سراہا بلکہ آئیڈیل بنا کر پیش کیا۔اور۔۔۔اور تھوڑا سا کریڈٹ مجھے بھی جاتا ہے،عائشہ نے فرضی کالراونچا کرتے ہوئے کہا۔اور۔۔۔اور جناب آپ سب ایک اہم ترین کردار کو بھول رہے ہیں۔۔۔ہم دونوں سہیلیوں کے شوہرِنامدار جناب عبدالکریم صاحب کو کیونکہ اگر وہ دوسری شادی کرتے ہوئے حکمت ِ عملی اور اﷲ و رسول کریم ﷺ کی تعلیمات کو پیش ِ نظر نہ رکھتے تو آپ ہماری مثال کیسے پیش کرتے ؟زہرا نے ہنستے ہوئے کہا۔جی جی بالکل بالکل ۔۔سب نے تائید کی ۔جناب آلو ! میرے بچوں کے سکول سے واپس آنے کا وقت ہوگیا ہے لہٰذا اب ہمیں اجازت دی جائے ۔چلوفاطمہ یا آج یہیں ڈیرے ڈالنے کا پروگرام ہے؟رائحہ نے ہنستے ہوئے کہا۔جی جناب ِ عالی چلیں،میں نے کہا۔اچھا عائشہ،زہرا ہمیں اجازت دیں،اﷲ آپ کو اسی طرح شادوآباد رکھے ،آپ کے گھر کو نظرِبد سے بچائے رکھے ۔آمین ۔ثم آمین ۔میں ان شاء اﷲ جلد آؤں گی اور عائشہ کی بتائی ہوئی خواتین سے ملوں گی ،فاطمہ نے کہا ،دلی اطمینان اور خوشی سے فاطمہ کا چہرہ دمک رہا تھا۔اور ہم ان شاء اﷲ جلد تمہاری "سہیلی"کی شادی کے چاول کھائیں گے،عائشہ نے ہنستے ہوئے کہا،جواب میں سب کامشترکہ قہقہہ سنائی دیا جو سب کی دلی خوشی کوظاہر کررہا تھا۔

اور ہاں جانے سے پہلے وہ مزیدارلطیفہ تو سن لیں۔۔۔آپ سب کو بھی یاد ہوگا،عائشہ نے پوچھا؟کون سا لطیفہ سب نے پوچھا؟وہی۔۔ایک شخص کی بیوی فوت ہوگئی ،اس نے دوسری شادی کی۔اس کے پہلی بیوی سے اپنے بھی سے بچے موجود تھے اور دوسری بیوی کے بھی پہلے شوہر سے بچے تھے۔ایک دن بیوی نے شوہر کو فون کیا۔وہ بہت گھبرائی ہوئی تھی شوہر نے وجہ پوچھی تو بیوی نے ہکلاتے ہوئے بتایا"آپ کے بچے اور میرے بچے مل کر ہمارے بچوں کو مار رہے ہیں۔۔میرے منع کرنے کے باوجود وہ باز نہیں آرہے،میں کیا کروں؟"عائشہ کے لطیفے پر ایک مرتبہ پھرسب کا مشترکہ قہقہہ گونج اٹھا۔اگر دونوں سہیلیاں ہوں گی تو ان شاء اﷲ ایسی صورت حال پیش ہی نہیں آئے گی،عائشہ نے وضاحت کی۔

فاطمہ! ہمیں یہاں سے فوراً نودو گیارہ ہوجانا چاہیئے ورنہ یہ دونوں سہیلیاں اپنی دلچسپ باتوں سے شام تک ہمیں یہاں سے ہلنے نہیں دیں گی سو۔۔۔پلیز فو راً اٹھو،رائحہ نے دروازے کی طرف قدم بڑہاتے ہوئے ہنس کر کہا ۔اچھا سہیلیو!اﷲ حافظ۔رائحہ اور فاطمہ نے باہر نکلتے ہوئے کہا۔

"سہیلی"مبارک ہو،آج ہم نے اﷲ رب العزت کی توفیق سے بہت نیکی کا کام انجام دیا ہے ،زہرا نے عائشہ کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔"سہیلی"تمہیں بھی مبارک ہو،واقعی آج اﷲ نے ہم سے بہت نیکی کا کام لیا ہے،الحمد ﷲ،ثم الحمد ﷲ۔اﷲ کرے فاطمہ کو بھی تمہارے جیسی سہیلی مل جائے،آمین،ثم آمین،عائشہ نے زہرا کو گلے لگاتے ہوئے کہا،میرے جیسی نہیں تمہارے جیسی،زہرا نے کہا۔اچھا بابا نہ میرے جیسی،نہ تمہارے جیسی بلکہ ہم دونوں جیسی،عائشہ نے زہرا کوگلے لگاتے ہوئے کہا۔
Razia Rehman
About the Author: Razia Rehman Read More Articles by Razia Rehman: 9 Articles with 19252 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.