لکھنا اور اچھا لکھنا آسان نہیں ۔۔۔پھر جس
موضوع پر تحریر ہو وہ پسندیدگی کی سند تک پہنچے ایک نئے لکھاری کو کم ہی
ایسی خوشی ملتی ہے ۔۔۔۔۔ ہمارا لکھنے کاشوق بہت پرانا ہے سات سال کی عمر
سےلکھنا شروع کردیا تھا ۔۔ لیکن کبھی اپنی تحریروں کو شائع کرانا تو دور کی
بات ہے ہم نے کبھی انہیں کسی کو پڑھنے بھی نہیں دیا اور کالج لائیف تک یہ
سلسلہ یونہی چلتا رہا ۔۔۔ خود ہی لکھتے ،خود ہی پڑھتے اور خود کو داد دیتے
کہ بھئی واہ فرح بیگم کیا خوب لکھا ہے ۔۔۔۔ بہرحال گریجویشن کے دوران ہی
انگریزی میں لکھنے کا بھوت سر پر سوار ہوگیا ۔۔ اور انگریزی زبان میں شعر و
شاعری کرنے لگے ۔۔۔۔ پہلی دفعہ ہمت کر کے انٹرنٹ پر ایک انگلش پوئٹری سائیٹ
پر اپنی پہلی پوئیٹری بھیجی ۔۔۔۔ ایک مہینے کے اندر ہی ان کی جانب سے ای
میل ہمیں موصول ہوگئی ۔۔۔۔ کافی تعریف و توصیف کی گئی تھی ۔۔۔۔ ہم تو جیسے
ہوائوں میں اڑنے لگے ۔۔۔ پہلی بار ایک ایک کو اپنی انگریزی غزلیں اور اوڈس
( بہت لمبی نظمیں ہوتی ہیں ) سنانے بیٹھ جاتے ۔۔۔۔ مگر پتا نہیں کیوں اردو
میں لکھے اپنے زخیرے کو کسی کے ساتھ بانٹنے کا انہیں پڑھانے سے ہچکچاتے رہے
۔۔۔۔
زندگی میں کافی اتار چڑھاؤ دیکھے ۔۔۔۔ مگر قلم کا ساتھ کبھی نہیں چھوٹا ۔۔۔
ساتھ میں کالج لائیف سےہی ایک خاموش قاری کی حیثیت سے بھی بہت سے بڑے
لکھاریوں کو پڑھتے رہے ۔۔۔۔ جن میں اشتیاق احمد اور ابن صفی ہماریے محبوب
رائیٹرز کی صف میں ہمیشہ سے ہی موجود رہے ۔۔فکشن سےلگاؤ عمر کے ساتھ بڑھتا
گیا۔ اور اس پر وقتاً فوقتاً تبع آزمائی بھی کرتے رہے ۔۔۔ پھر ایک وقت ایسا
بھی آیا کہ ہم نے لکھنا بند کردیا ۔ اور ایک طویل عرصہ قلم کو چھوا تک نہیں
۔
امریکہ آنے سے پہلے ہم نے مشکل راستے لکھنا شروع کی ۔۔۔ اور پہلی بار زندگی
میں اپنی کوئی تحریر ایک اردو سائیٹ پر بھیجی ۔۔۔ ہم نے یہ ناول رومن اردو
میں لکھنا شروع کیا ۔۔۔ساتھ ہی ایک ناولٹ بھی آن لائین لکھا جس کا عنوان
“عمر زیاں “ تھا ۔ یہ ہمارا دوسرا اورشاید پہلا مختصر افسانہ تھا ۔۔۔ جو اس
سائیٹ پر بہت پسند کیا گیا ۔۔۔۔ “مشکل راستے “ کی نو دس ہی اقساط لکھی
ہونگی کہ ہمارا دانا پانی وطن سے اٹھ گیا اور ہمارا بلاوا دیار غیر سے آگیا
۔ امریکہ میں آٹھ سال ہونہی گھریلو مصروفیت کی نظر ہوگئے ۔ پھر ایک لمبے
عرصے بعد ہمارے اندر کی وہ رائیٹر صاحبہ دوبارہ جاگ گئیں ۔۔۔ مختلف سائیٹس
پر گئے مگر مزاح نہیں آیا ۔۔۔ پھر نیٹ سرفنگ کے دوران ہی اتفاقاً ہماری ویب
کھل گئی ۔۔۔ سائیٹ کچھ ادبی سی لگی شروع میں کمنٹس تک ہی محدود رہے مگر پھر
شاید ١٩ ستمبر ٢٠١٤ کو ہم نے مشکل راستے کی پہلی قسط پوسٹ جو ٢٣ ستمبر کو
شائع بھی ہوگئی ۔۔۔ پھر جنات سے متعلق سچے واقعات پر مبنی آپ بیتی لکھی جس
کا عنوان “جن صاحبان کے قصے “ تھا ۔۔۔ پھر اس کا دوسرا ورژن “جن صاحبان کے
قصے پارٹ ٹو “ بھی لکھا ۔۔۔ اور یہ سلسلہ لکھنے کا اس سائیٹ پر چل نکلا
۔۔۔۔ پھر اس سائیٹ کی ایسی عادت ہوئی کے تمام دوسری سائیٹس سے ناطہ ہی ٹوٹ
گیا ۔۔۔ یہاں ہمیں بہت سے ایسے لوگ ملے جن سے ایک تعلق سا بنتا گیا ۔۔۔جن
میں سرفہرست محترمہ عظمہ صاحبہ ، حرا گوجرا رہیں ۔۔۔ محمد جبران صاحب اور
شعیب برادر سے بھی علیک سلیک ہوتی رہی ۔۔۔۔۔ پھر مصدق صاحب نے جس طرح
ایمیلز کے ذریعے سے ہم سے کانٹیکٹ رکھا ۔۔۔۔ اس سے ایک بات تو ہم پر واضح
ہوگئی کہ ہماری ویب اپنے چھوٹے بڑے لکھاریوں کو ایک جیسا پروٹوکال دیتی ہے
۔۔۔ میں خود ایک معمولی لکھاری ہوں۔ لیکن جو عزت اور تکریم مجھے اس ویب
سائیٹ نے دی ہے ۔۔ وہ شاید ہم جیسوں کو کسی اور سائیٹ پر نہیں مل سکتی۔
ہماری ویب نے ہمیں اپنی ہی نظروں میں انمول بنا دیا ۔۔۔۔ اس سائیٹ پر ہر
موضوع پر آرٹیکلز مل جاتے ہیں ۔۔ گو کہ بہت سی اردو ادب کی ویب سائیٹس آن
لائین ہیں ۔۔ مگر ہماری ویب اردو ویب سائیٹس کے درمیان واحد گوہر نایاب ہے
جس نے اردو ادب کے فروغ کے لئے ایسے اقدامات کئے ہیں جس کی نظیر کسی اور
اردو سائیٹ پر نہیں ملتی جس میں سے ایک نیا اور خوبصورت سلسلہ اپنے
لکھاریوں کی حوصلہ افزائی کے لئے ان کی کاوشوں کو سراہنے ان کو مزید بہتر
لکھنے کی طرف گامزن کرنے کے لئے سرٹیفکیٹ کا سلسلہ شروع کیا ہے ۔۔۔۔ جو
نہایت ہی عمدہ اور اچھوتا خیال ہے جس کو جناب ابرا صاحب اور ان کی ٹیم نے
عملاً کر دکھا یا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سرٹیفکیٹ تین کیٹیگریز میں دیا گیا ہے
موسٹ پارٹیسپیٹ ، موسٹ ویوڈ اور موسٹ لائیکڈ ۔۔۔ ہمیں بھی ایک عدد سرٹیفکیٹ
دیا گیا ہے ۔۔۔ جو ہمیں موسٹ ویوڈ پر ملا ہے ۔۔۔ چونکہ ہم ملک سے باہر رہتے
ہیں اس لئے ہماری امی نے ہماری جگہ وصول کیا ۔۔۔۔ بہرحال ہم ہماری ویب کے
شکرگزار ہیں جنہوں نے ہمیں اس سرٹیفکیٹ کے قابل سمجھا ۔۔۔۔ اور ان ویورز کے
بھی شکر گزار ہیں جن کی بدولت ہمیں یہ تحفہ ہماری ویب کی جانب سے دیا گیا
۔۔۔ شکریہ ہماری ویب آپ کا بہت بہت شکریہ ۔۔۔ |