پاکستان سے ایف 16پر معاہدے کے بعد ہمارے بھی نئے مطالبات ہوں گے‘‘ امریکی خواہش،
(Muhammad Azam Azim Azam, Karachi)
آخر کارامریکا کی زبان پربھارتی مفاداتی سچ آہی گیا،کیاپاکستان سے متعلق امریکی اور بھارتی مفادات کے خاطر نئے معاہدے کئے جائیں گے . . .؟؟
|
|
ایک خبر جو امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے
اُس وقت آئی ہے جب پاکستان اور امریکا کے درمیان وزارتی سطح کے اسٹرٹیجک
مذاکرات کاچھٹادور پیر29فرور2016سے واشنگٹن میں شروع ہونے والا ہے توچلیں ،
یہ خبر بھی سُن لیجئے کہ ’’ امریکا نے صاف صاف کہہ دیاہے کہ پاکستان سے ایف
سولہ طیاروں پر معاہدے کے بعدہمارے بھی نئے مطالبات ہوں گے‘‘ ۔
اِس پر ایسا لگاکہ آج جیسے امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر نے اپنے
منہ میں بھارتی زبان ٹھونس لی ہے اورآخرکار اُسی کی زبان ہلاتے ہوئے
پاکستان پر یہ سچ بھی واضح کردیاہے کہ امریکا اور بھارت یکدل اور یک زبان
ہیں اِن کی سوچیں ایک ہیں اِن کا دماغ ایک ہے اور خطے میں اِن کے مفادات
ایک سے ہیں اور امریکابھارت کے لئے ہے اور اِسی طرح امریکا ہر لحاظ سے
بھارتی مفادات کا تحفظ کرے گا ۔
خبر کے مطابق امریکانے پاکستان سے یہ کہاہے کہ ’’ بھارتی تحفظات اور مخالفت
کے باوجود پاکستان کو ایف سولہ طیارے دیں گے‘‘ اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ
دیاہے کہ ’’پاکستان سے ایف 16پر معاہدے کے بعد ہمارے بھی نئے مطالبات ہوں
گے امریکا نے پاک بھارت تعلقات میں بہتری کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی ہے‘‘۔
اَب ایسے میں یہاں یہ سوال اور اِس جیسے بہت سے سوالات پیداہوتے ہیں کہ اَب
یہ معاہدہ کیا اور کیسے ہوگا؟؟ کیا اِس معاہدے میں صرف امریکی مفادات کا
تحفظ کیاجائے گا؟؟یا یہ نئے معاہدے بھارت کے فائدے سے متعلق بھی ہوں گے؟؟
یاامریکا ایف سولہ کے عوض پاکستان سے جو نئے معاہدے کو عملی شکل میں لانے
کا خواہشمند ہے کیا اِس نئے معاہدے سے مستقبل قریب میں پاک امریکا تعلقا ت
مزید پائیدار اور مستحکم ہوں گے ؟؟ یا پھرپاکستان اور امریکا کے درمیان نئے
معاہدے کا جوسلسلہ شروع کیاجائے گا وہ خطے سے متعلق ہوگا؟ اَب یہ تو آنے
والاوقت ہی بتائے گاکہ امریکانے طیاروں کے عوض معاہدے میں پاکستان کو کس کا
پابندکیاہے۔
مگراَب کچھ بھی ہو خدشہ بس یہی ہے کہ امریکا اپنے اور بھارت کے مفادات کے
حصول کے خاطر پاکستان سے ایف سولہ طیاروں کے بدلے ایسے معاہدے کرے گاجس میں
امریکااور بھارت کے مفادات شامل ہوں گے اور پاکستان پر ڈومورکی رٹ لگاتے
ہوئے پاکستان کو اِس کا بھی پابندکرے گا کہ پاکستانی سرحد سے بھارت میں
سانحات ممبئی اور پٹھان کوٹ کے طرز کے دہشت گردی کے واقعات بندہونے چاہئیں
اورپاکستان اِس کابھی پابندہوگاکہ وہ اپنے یہاں دہشت گردوں کے نیٹ ورک کا
خاتمہ یقینی بنائے امریکا نئے معاہدے میں یہ شرائط رکھ کرپاکستان کو اچھی
طرح جکڑکر اپنی مرضی کے کام کروانے کا پابندکرے گا، ایسا امریکاکی جانب سے
کہاجانایقینا بہت سے شکوک و شبہات کو جنم دے گا ، جن پر ہر حال میں پاکستا
ن کو عمل کرناہوگا، اَب یہ اور بات ہے کہ ہم سب کچھ جان کر بھی انجان بنے
رہیں اور اپنا سرجھکاکر امریکی خواہش کو مان جائیں۔
بہرحال ،آج یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ زندگی کے بعد موت کا ذائقہ ہر ذی
شعورکو ضرور چکھنا ہوگااورآج اگردنیا میں سب اچھاہوتااور بُرائی نہ ہوتی
توہمیں اچھے بُرے کی تمیز نہ آتی اور اگر کائنات میں کانٹے ہی ہوتے تو
پھولوں کی نزاکت اور خوبصورتی کا اندازکیسے ہوتا؟؟اور اِسی طرح دنیا میں
سات سمندرپار رہ کر اپنے مفادات کے خاطرزمینِ خداپر فسادات برپاکرنے اور
کرانے والا امریکا اور ہمارے پڑوس میں ہمارے خلاف ہردم منفی پروپیگنڈااور
ذراذراسی بات اور معاملے میں واویلاکرنے والابھارت جیسا ملک نہ ہوتا تو
دنیاوالوں کو اور ہمیں یہ کیسے پتہ چلتاکہ دوستی سے دُشمنی اور دُشمنی سے
دوستی کیاہوتی ہے؟؟ اور اِس کا کیامزا ہوتاہے؟؟ اورپھر اِس آڑمیں موقع
پرستی کیا ہوتی ہے؟؟ اور اِس حربے کو استعمال کرتے ہوئے اپنے اپنے مفادات
کیسے حاصل کیئے جاتے ہیں؟
معاف کیجئے گا!! بات ذراآگے نکل گئی ہے، بات دراصل یہ ہے کہ گزشتہ دِنوں
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر نے اپنی بریفنگ میں واضح اور دوٹوک
انداز سے کہاہے کہ’’ پاکستان سے ایف 16طیاروں پر معاہدے کے بعدہمارے بھی
نئے مطالبات ہوں گے، نئے معاملات کسی کے لئے حیران کُن نہیں کیوں کہ یہ خطے
کے استحکام اور سیکیورٹی مضبوط بنانے سے متعلق ہی ہوں گے،البتہ اِن کا یہ
بھی کہناتھاکہ’’اسٹرٹیجک مذاکرات میں تجارت،دہشت گردی سمیت مختلف مسائل پر
بات ہوگی‘‘ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر نے انتہائی محتاط لب
ولہجہ اپنانے ہوئے یہ بھی کہاکہ’’ایف 16طیاروں نے پاک فوج کے آپریشنز میں
اہم کرداراداکیاہے‘‘ تاہم مارک ٹونر نے کہاہے کہ ’’ ڈیل پاکستان ، امریکا،
نیٹواور خطے سے جڑے مشترکہ مفادکے لئے اہم ہے‘‘ہاں البتہ ..!! مارک ٹونرنے
اِس موقع پر یہ بھی کہاکہ’‘ پاک بھارت تعلقات میں بہتری کی ہمیشہ حوصلہ
افزائی کی ہے‘‘ ۔
اِس سے انکار نہیں کہ امریکاپاکستان کو ایف سولہ طیاروں کے بدلے پاکستان سے
جونئے معاہدے کرنے کا خواہشمندہے اور جس کی امریکانے اپنے اور بھارتی
مفادات کی روشنی میں بھارت سے صلہ مشوروں کے بعد ساری تیاری بھی مکمل
کررکھی ہے بس جیسے ہی پاک امریکااسٹرٹیجک مذاکرات میں شرکت کی غرض سے
مشیرخارجہ سرتاج عزیز کی قیادت میں پاکستانی وفد امریکاپہنچے گااورامریکی
سیکرٹری خارجہ جان کیری سے مذاکرات شروع ہوں گے تو امریکامذاکرات کے دوران
ہی پاکستان سے معاہدے کی رضامندی کی یقین دہانی کرالے گاپھردوسرے ایجنڈے پر
بات ہوگی ۔
اگرچہ پاکستان نے تو ایف سولہ لڑاکا طیاروں کی امریکاسے خریداری پر بھارت
کے بیجا اعتراضات اور منفی پروپیگنڈوں پر بھرپورانداز سے سخت برہمی اور غصے
کا اظہارکرتے ہوئے کہاہے کہ ہمیں ایف سولہ لڑاکاطیارے ملنے پر کسی کے پیٹ
میں فکرکے مروڑے نہیں پڑنے چاہئیں ہم یہ طیارے اپنے دفاعی ضرورتوں کو مدِ
نظررکھتے ہوئے لے رہے ہیں اور آج یقینی طور پر دہشت گردی کے خلاف جاری
آپریشن ضرب عضب کے حوالے سے اپنے دفاع کا جتناحق ہمیں حاصل ہے اِیسے دفاع
کا حق خطے کے کسی اور ملک کو حاصل نہیں ہے جبکہ پاکستانی دفترخارجہ کے
ترجمان نفیس ذکریانے بھی کہاہے کہ ’’طیاروں کی فروخت کے معاملے پربھارتی
تحفظات مایوس کن ہے‘‘۔
اَب اِس سارے منظرنامے میں راقم الحرف کا قوی خیال یہ ہے کہ امریکا سے
پاکستان کا ایف سولہ لڑاکا طیاروں کو لینے کا معاملہ بھارت کو ایک آنکھ بھی
نہیں بہارہاہے اور ایسے میں بھارت کا امریکاکے سامنے رونادھونابھارت کی
جانب سے کھلے عام اپنی تھانہ داری اور چوہدراہٹ کا خواب چکناچور ہونے سے
بچانے کے مترادف ہے۔ |
|