مغربی دنیا میں حقوق اور برابری کے نام پر
خواتین کو مردوں کے ساتھ لاکھڑا کرکے وہی کام لیے جاتے ہیں جو مرد کے ذمے
لگائے گئے ہیں۔ ان کے کہنے کے مطابق عورتوں کو وہ تمام حقوق دئے جانے
چاہئیں جو مردوں کو میسر ہیں۔ وہ دعوی کرتے ہیں کہ اسلام عورتوں کو برابری
کا حق نہیں دیتا بلکہ ان پر ظلم کر کے انہیں گھروں میں قید کرکے رکھتا ہے۔
آئیں دیکھتے ہیں کہ کیا واقعی اسلام خواتین کو ان کے جائز حقوق نہیں دیتا؟
جہاں تک برابری کے حقوق ہے تو یقینا عورتوں کو اسلام نے کبھی بھی برابری کے
حقوق نہیں دئے۔ کیونکہ عورت صنف نازک ہے۔ اس کی جسمانی خدو خال اور بناوٹ
ایسی بنائی گئی ہے کہ وہ مردوں کے طرح مشقت برداشت کرنے کے متحمل نہیں۔ ان
کے جسم میں ایسے پیچیدگیاں پائی جاتی ہے جن کی وجہ سے ہر مہینہ میں چند دن
وہ الجھن کا شکار ہوتی ہے اور اپنے روزمرہ کے امور صحیح طرح سے سرانجام
نہیں کر پاتی۔ اس کے علاوہ صنف مخالف ہونے کے ناطے مردوں کے برابر کھڑے
ہوکر وہ ان کے ہوس کا مقابلہ نہیں کر پاتی۔
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ۔ ایک ایسا دین جس نے ہر ایک اس کے حیثیت کے
مطابق حقوق دئے اور ان کے استطاعت کے مطابق ان پر ذمہ داریاں ڈالی ہیں۔ مرد
سخت جان ہوتے ہیں۔ ہر قسم کی مشقت برداشت کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ
ہے کہ اسلام نے مردوں کو حقوق بھی زیادہ دئے ہیں اور ان پر ذمہ داریاں بھی
زیادہ ڈالی ہے۔ پیسے کمانا مرد کے ذمے ہیں۔ رہائش مہیا کرنے مرد کے ذمے۔
کھانا مہیا کرنا مرد کے ذمے۔ علاج معالجہ کرانا مرد کے ذمے۔ لباس مہیا کرنا
مرد کے ذمے ہیں۔ اس کے بر عکس عورت کے ذمے صرف اپنے شوہر کے مال اور عزت کی
حفاظت کرنا اور اولاد کی تربیت کرنا ہیں۔ اگر اس پر غور کر لیا جائے تو
یقینا یہ ماننا پڑے گا کہ اسلام واقعی عدل و انصاف کا دین ہے۔ جس کے ذمہ
داریاں زیادہ ہیں اسی کو حقوق بھی زیادہ دئے ہیں۔|
مغربی معاشرہ جو عورتوں کے آزادی اور برابری کا دعوی دار ہے۔ اگر ان کے
عورتوں کی زندگی کا بغور جائزہ لیا جائے تو ان کی زندگی ایک مشین جیسی ہے۔
اپنی کمزور جسمانی ساخت کے ساتھ وہ مردوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر دن بھر
مشین کی طرح چلتی ہے۔ ماہانہ بیماری کی کوفت برداشت کرتی ہے۔ بچوں کے
پیدائش جیسے عظیم الشان تکلیف سے گزرتی ہے۔ اس کے باوجود عموما کام کے
دوران مردوں کے حوس کا شکار ہوجاتی ہے۔ یعنی اس عورت کو حقوق اور برابری کے
نام پر ذمہ داریوں کی دلدل میں پھنسا دیا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اسے اپنے
ہوس مٹانے کا ایک کھلونا بنا دیا ہے۔
ان کی دیکھا دیکھی وطن عزیز میں بھی آج سے چند سال پہلے ایسا قانون نافذ
کرنے کی کوشش کی گئی تھی جس کے مطابق مرد اپنے بہن ، بیوی، بیٹی سے یہ نہیں
پوچھ سکے گا کہ وہ کہا جارہی ہے ۔ کہا سے آرہی ہے۔ دن کس کے ساتھ گزارا۔
رات بھر کس کے ساتھ رہی۔ اس قانون کی دین دار طبقہ کے ساتھ ساتھ ن لیگ نے
بھی زبردست مخالفت کی تھی۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ آج ایک ایسا ہی قانون
پنجاب اسمبلی میں پاس کیا جاچکا ہے کہ اگر مرد عورت پر ہاتھ اٹھائے گا تو
عورت اس کے خلاف شکایت درج کرائے گی جس کے نتیجہ میں مرد کو دو دن گھر سے
باہر گزارنے پڑیں گے۔ کیا یہ قانون بنانے والوں نے یہ سوچا ہے کہ اس کے
نتائج کیا ہوں گے؟ منشیات، چوری اور رہزنی میں اضافہ ہوگا۔ طلاق کی شرح
بڑھے گی۔ جنسی بے راہ روی میں اضافہ ہوگا۔ ہم جنس پرستی پروان چڑھے گی۔
لڑکیاں اپنی سہاگ کی انتظار میں بوڑھی ہو جائے گی۔ خودکشی بڑھ جائے گی۔
اس قانون سے عورتوں کے حقوق کے تحفظ کے نام پر ان کے گھروں میں ایک ایسی آگ
لگے گی جو پورے معاشرے کو جلا کر راکھ کر دے گی۔ پنجاب حکومت اس بل پر نظر
ثانی کرکے معاشرے کو تباہی کی طرف جانے سے روک دے۔ باشعور طبقہ ایسے قانون
کا راستہ روکھنے میں کردار ادا کریں تو معاشرے میں عدم توازن کا باعث بن
رہا ہو۔ ورنہ اس کے وجہ سے آنے والا معاشرتی برائیوں کا سیلاب پھر روکھنے
سے نہ رکے گا۔ |