میاں بیوی میں گھمسان کی جنگ ہورہی تھی،
شوہر نے دہائی دی اب میری زندگی کیوں عذاب کرتی ہو نکاح کے وقت خود ہی تو
کہا تھا کہ قبول ہے قبول ہے قبول ہے۔ بیوی نے جواب دیا ہاں میری وہ سنگین
غلطی تھی اگر میں اپنا مستقبل جان لیتی تو یقینی طور پر صرف یہی کہتی فضول
ہے فضول ہے فضول ہے۔ گذشتہ دنوں پنجاب اسمبلی نے عورتوں پر تشددکے خلاف بل
پاس کرکے شوہروں کے سارے کس بل نکال دیے۔ مردِ مشرق کو مردِ مغرب کی نسبت
جو فوقیت حاصل ہے اس میں گھر کی چوہدراہٹ سرفہرست ہے۔مردحضرات چاہے لاکھ
بیگم کے آگے سرتسلیم خم کرتے ہوں لیکن اقرار کرتے ہوئے شرماتے ہیں۔ حالانکہ
شریعت میں اس کی ممانعت نہیں ہے۔اس بل کے فوائد ونقصان اپنی جگہ لیکن اس بل
کے اسمبلی میں پیش ہونے اور پھر پاس ہونے کا وقت بہت زیادہ اہمیت کا حامل
ہے۔ ایسے وقت میں بل کا پیش ہونا جبکہ آسکر ایوارڈ یافتہ خاتون شرمین عبید
چنائے اپنی نئی تخلیق کے ساتھ میدان میں کود پڑی ہیں کہ جس میں پاکستان کا
ایک اور بدنما چہرہ دنیا کے سامنے پیش کرنے پر وہ تمغہ ’’وفاداری‘‘ حاصل
کرنے کے قریب ہیں اور ان سے زیادہ ہم پُر امید ہیں کیونکہ اہل مغرب نے ہر
اس شخص کو تمغے سے نوازا ہے جو پاکستان اور اسلام کو بدنام کرنے کی دوڑ میں
شامل ہے۔خواتین پر تشدد کی کوئی مذہب اجازت نہیں دیتا اور اسلام تو نام ہی
امن و سلامتی کا ہے۔ اسلام نے عورتوں کو جتناتحفظ فراہم کیاہے اس کا تصور
بھی پہلے جرم تھا۔ افسوس کہ اب انسانی حقوق کے علمبردار اپنے من پسند
ایجنڈے کے تحت معاشرے کی بگاڑ میں کلیدی کردار ادا کررہے ہیں۔ محترم
وزیراعظم کی کمال ذہنیت دیکھیے کہ انہوں نے چند منٹوں کی فلم دیکھ کر ہی
فیصلہ کرتے ہوئے حکم جاری کردیا کہ پنجاب اسمبلی بل پاس کرے۔ اس بل میں
کلیدی کردار محترمہ حمیدہ وحیدالدین وزیر ترقی خواتین کا ہے۔ انکا پس منظر
کچھ یوں ہے کہ آپ مرحوم وحیدالدین سابق ممبرپنجاب اسمبلی کی صاحبزادی ہیں۔
انہوں نے ایک جاپانی خاتون سے شادی کی جن سے محترمہ کی پیدائش ہوئی ۔آپ نے
بچپن سے لڑکپن تک پرورش جاپان میں پائی۔ آپ کو سیاست وراثت میں ملی تو
وزارت بھی مل گئی۔آپ نے شادی کی پھر ان بن ہونے کی وجہ سے علیحدگی ہوگئی۔
اب یہ علیحدگی کا ناخوشگوار واقعہ ہی ہے کہ جو پوری قوم کے مردحضرات بھگت
رہے ہیں۔ محترمہ صبح و شام خواتین پر تشددکے خلاف سیمینارز اور دیگر این جی
اوز کے ہمراہ سرگرم دکھائی دیتی ہیں اور یہ سمجھتی ہیں کہ ان کا یہ عمل
خواتین کی ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی محترمہ
سمجھتی ہیں کہ عورت جب تک گھر کی زینت بنی رہے گی تب تک عورت ترقی نہیں
کرسکتی اس لیے انہوں نے ’’وومن آن وہیل‘‘ کے نام سے خواتین کو موٹر سائیکل
چلاتے ہوئے سڑکوں کی زینت بننے اور ترقی کا آسان جاپانی ٹوٹکہ بھی مہیا کیا۔
ابھی تو آغاز ہے امید ہے محترمہ چونکہ جاپان کی ترقی کی عینی شاہد ہے اس
لیے ایسے ٹوٹکے آزماتی رہیں گی۔وہ دن دور نہیں جب محترمہ جاپانی
تہوارKanamara Masturi) )کو بھی پاکستان میں منانے کا جاپانی ایجنڈا پورا
کرنے میں سرخرو ہوں گی۔
لیکن مرد حضرات فقط اس نامراد شوہر کی وجہ سے کس جرم کی سزا بھگت رہے ہیں
جو محترمہ کو آسمان سے تارے توڑ لانے کے دعوؤں کے بعد ناکام لوٹا۔ انجمن
شوہراں کی یہ دہائی ہے کہ خدارا یہ بل واپس لیاجائے پہلے ہی انکی جان عذاب
میں ہے اوپر سے یہ بل بیگمات کا غصہ توپل میں تولہ پل میں ماشہ ہوتا
ہے۔کہیں کسی شاپنگ کا غصہ ، کسی پارٹی کا غصہ بے چارے شوہر پر یوں نکلے کہ
وہ پنجاب پولیس کے ہتھے چڑھ گیا تو پھر گھر کے ’’بیلن‘‘ سے پولیس کے ’’چھتر‘‘
تک کا راستہ خاندانی نظام کو بربادکردے گا۔انجمن شوہراں نے محترمہ حمیدہ
وحیدالدین کے سابقہ شوہر سے دست بستہ گزارش کی ہے کہ وہ محترمہ کے پاؤں
پڑکر معافی مانگیں ۔کیونکہ انکی گستاخی کی سزا پنجاب بھر کے شوہربھگتنے
والے ہیں۔اگر کوئی خاتون کیس عدالت میں دائر کرے گی تو اس کے اخراجات بھی
شوہر کو ادا کرنا ہوں گے۔ اگر انکار کرے گا تو اسکی تنخواہ سے کاٹ لیے
جائیں گے۔اب بھلا یہ بل سفید پوش خواتین کے ہاتھ میں اک اور’’ بیلن
‘‘تھمانے کے سوا اور کیا ہے۔ شاپنگ ورنہ جیل ، پارٹی ورنہ عدالت کی دھمکی
کی للکار اب ہر گھر سے گونجنے والی ہے۔پاکستان میں قوانین کا غلط استعمال
کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں جس طرح پنجاب حکومت خواتین کی ترقی اور اختیارات
کی منتقلی کے لیے سرگرم ہے خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اسمبلیوں اور اداروں
میں مردوں کے لیے مخصوص نشستوں کا اہتمام کیا جائے گا، اور پھر حقوق نسواں
کے بعد حقوق مرداں کی صدا گونجے گی۔ |