خواتین پر گھریلو تشدد کے حوالے سے پنجاب اسمبلی کے نئے قانون پر ایک نظر

پنجاب اسمبلی کے خواتین کے گھریلو تشدد کے حوالے سے قانون سازی یقینی طور پر ہمارئے معاشرئے میں خواتین پر روا رکھے جانے والے ظلم کے خلاف ایک توانا آواز ہے۔ لیکن جس طرح کے سماجی حالات ہمارئے معاشرئے کے ہیں اِن حالات میں اِس طرح کے قوانے شائد اُتنے کارآمد نہ ہوسکیں۔ قانون کی کتابوں میں لکھے ہوئے الفاظ یقینی طور بہت اعلیٰ و ارفعٰ ہوتے ہیں بات تو ہے عمل درآمد کروائے جانے کی۔ہمارئے معاشرئے میں تو پولیس خود تمام جرائم کی محافظ ہے۔ پولیس کی موجودہ نظام کے ہوتے ہوئے اِس طرح کی قانون پر عمل درآمد کروایا جانا ہی نمامکن ہے۔بلکہ خواتین کے خلاف ہی اِس قانون کو استعمال کیا جاسکے گا۔پولیس کے بعد مروجہ عدالتی نظام عوام کو کسی قسم کا بھی تحفظ دینے سے عاری ہے۔ عوام کو تحفظ تو کیا عدالتوں میں آکر انسان کا شاید اپنے رب پر بھی ایمان متزلزل ہونے لگتا ہے۔ قسمت کے مارئے مصیبتوں کے ماروں کو یہ نظام اتنے جھٹکے لگاتا ہے کہ ایک کہ بعد ایک مقدمہ ایک کے بعد ایک اور کیس۔ انصاف کے ایوانوں میں انصاف کے علاوہ سب کچھ ہے۔اِس نظام کا جائزہ لیتے ہیں۔پاکستان کے صوبے پنجاب کی اسمبلی نے خواتین کو گھریلو تشدد، نفسیاتی اور جذباتی دباؤ، معاشی استحصال اور سائبر کرائمز سے تحفظ دینے کا قانون متفقہ طور پر منظور کر لیا ہے۔اس بل کے ذریعے تشدد کا شکار ہونے والی خواتین کو تین طرح کا تحفظ دیا جارہا ہے۔1:پروٹیکشن آرڈر نئے قانون کی بدولت خواتین ہراساں کرنے والوں یا پھر جسمانی تشدد کرنے والوں کے خلاف عدالت سے پروٹیکشن آرڈر لے سکیں گی۔پروٹیکشن آرڈر کے ذریعے عدالت ان افراد کو جن سے خواتین کو تشدد کا خطرہ ہو، پابند کرے گی کہ وہ خاتون سے ایک خاص فاصلے پر رہیں۔اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ عدالت کے پروٹیکشن آرڈر کی خلاف ورزی نہیں ہو رہی تشدد کرنے والے شخص کو جی پی ایس ٹریکنگ بریسلٹ پہنائے جائیں گے۔تاہم اس پابندی کا اطلاق شدید خطرہ ثابت ہونے یا سنگین جرم کی صورت میں ہی ہوسکے یگا۔ عدالت ثبوت کی بنیاد پر جی پی ایس بریسلیٹ پہنانے کا فیصلہ کرے گی۔ ان کو ٹیمپر نہیں کیا جاسکے گا۔ٹیمپرنگ کی صورت میں تشدد کے خلاف قائم کیے گئے سینٹرز پر خود بخود اطلاع ہوجائے گی اور ٹیمپرنگ یا بریسلٹ کو اتارنے کے لیے چھ ماہ سے ایک سال تک اضافی سزا دی جائیگی۔ 2: ریزیڈینس آرڈر :ریزیڈینس آرڈ کے تحت خاتون کو اس کی مرضی کے بغیر گھر سے بے دخل نہیں کیا جاسکے گا۔اگر کوئی بھی خاتون جان کے خطرے کے باعث گھر چھوڑنے پر مجبور ہو یا اسے خاندان کے افراد گھر سے نکال دیں تو ایسی صورت میں عدالت خاندان کو پابند کرسکے گی کہ خاتون کی رہائش کا متبادل بندوبست کیا جائے یا اسے دوبارہ گھر میں رکھا جائے۔خواتین تشدد کرنے والے کے خلاف کی گئی قانونی چارہ جوئی پر ہونے والے اخراجات تشدد کرنے والے شخص سے حاصل کرسکیں گی۔3: مانیٹری آرڈر:جبکہ مانیٹری آرڈر کے تحت خواتین تشدد کرنے والے کے خلاف کی گئی قانونی چارہ جوئی پر ہونے والے اخراجات تشدد کرنے والے شخص سے حاصل کرسکیں گی۔مانیٹری آرڈر کے تحت خواتین اپنی تنخواہ یا اپنی جائیداد سے ہونے والی آمدنی کو اپنے اختیار میں رکھنے اور اپنی مرضی سے خرچ کرنے کے قابل بھی ہوسکیں گی۔وزیراعلیٰ کے امن وامان سے متعلق خصوصی مانیٹرنگ یونٹ نے خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں انسانی حقوق کے کارکنوں اور خواتین رکن اسمبلی کے ساتھ مل کر یہ بل تیار کیا ہے۔اس قانون پر عمل درآمد کے لیے ہر ضلعے میں وائلنس ایگنسٹ ویمن سینڑز بنائے جارہے ہیں۔ یہ جنوبی ایشیا کے پہلے ایسے سینٹر ہیں جہاں تمام متعلقہ ادارے ایک ہی چھت کے نیچے موجود ہوں گے۔ جیسے پولیس پراسیکیوشن فرائنزک میڈیولیگل ماہر نفسیات اور شیلڑہوم وغیرہ۔مانیٹرنگ یونٹ کے سربراہ سلمان صوفی کا دعویٰ ہے کہ قانون میں پروٹیکشن ریزیڈنس اور مانیٹری آرڈرز کے تحت تحفظ دینے کے لیے ایک پورا نظام بنایا گیا ہے اور کسی بھی عمر کی خاتون کو کسی بھی قسم کے تشدد سے اس بل کے ذریعے تحفظ دیا جاسکے گا۔ اس قانون پر عملدرآمد کانطام بھی بل میں دیا گیا ہے۔’اس قانون پر عمل درآمد کے لیے ہر ضلع میں وائلنس ایگنسٹ ویمن سینڑز بنائے جارہے ہیں۔ یہ جنوبی ایشیا کے پہلے ایسے سینٹر ہیں جہاں تمام متعلقہ ادارے ایک ہی چھت کے نیچے موجود ہوں گے۔ جیسے پولیس پراسیکیوشن فرائنزک میڈیولیگل ماہر نفسیات اور شیلڑہوم وغیرہ۔‘ اس قانون کے تحت خواتین کے تحفظ کے لیے ضلعی کمیٹیاں بنائی جائیں گی۔ جو تمام سینٹرز میں شکایات کے اندراج کی نگرانی کریں گی اور یقینی بنائیں گی کہ پولیس تمام حقیقی شکایات کے مقدمات درج کرے۔سلمان صوفی کہتے ہیں ’غلط شکایت ثابت ہونے پر چھ ماہ سے ایک سال تک سزا ہوسکے گی۔ لیکن ہم نے جو سینٹرز اور کمیٹیاں بنا رہے ہیں اس سے غلط شکایتوں کا جلد پتہ لگایا جاسکے گا۔ اور صرف حقیقی شکایتیں ہی سامنے آسکیں گی۔‘اس سے پہلے پنجاب میں خواتین کو تشدد سے تحفظ دینے کے لیے کوئی ایسا قانون موجود نہیں تھا۔ اس وقت خواتین کے خلاف تشدد پر سزا ئیں سی پی آر سی کے وفاقی قانون کے تحت دی جارہی ہیں۔یہ قانون گذشتہ برس بھی اسبملی میں پیش کیا گیا تھا تاہم پارلیمٹیرنینز کی جانب سے کئی اعتراضات اٹھائے جانے کے باعث یہ منظور نہیں ہوسکا۔ تاہم گزشتہ جمعرات کو پنجاب اسمبلی نے متفقہ طور پر اس کی قانون کی منظوری دی ہے۔پنجاب اسمبلی سے خواتین پر گھریلو تشدد کے خلاف قانون سازی پر عمل درآمد کے لیے پنجاب پولیس نہیں کرواسکتی۔پولیس کا موجودہ نظام اور عدالتی نظام کی خامیاں اِس قانون کے ذریعہ خاندانی نظام کو مزید تباہ کردیں گی۔ راقم نے لاہور ہائی کورٹ بار کی انسانی حقوق کمیٹی کے شریک چیئرمین ہونے کے ناظے جناب چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو مراسلے بھی ارسال کیا ہے کہ وہ اِس پر نظر چانی کا حکم جاری فرمائیں۔
MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE
About the Author: MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE Read More Articles by MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE: 452 Articles with 386620 views MIAN MUHAMMAD ASHRAF ASMI
ADVOCATE HIGH COURT
Suit No.1, Shah Chiragh Chamber, Aiwan–e-Auqaf, Lahore
Ph: 92-42-37355171, Cell: 03224482940
E.Mail:
.. View More