تحفظ خواتین بل ایک سیکولر ایجنڈا

حکومت عورتوں کو ان کے حقوق دینے کیلئے برق رفتاری سے کام کر رہی ہے اس سلسلے میں پنجاب اسمبلی میں عورتوں کے حق میں بل پاس ہو گیا ہے بل کے مطابق خواتین پر گھریلو تشدد ،معاشی بدحالی ،جذباتی ،نفسانی ،بدکلامی اور سائبر کرائم قابل تعزیر جرائم ہوں گے،مرد کو دو دن کیلئے گھر سے باہر نکالا جا سکے گا ،خواتین کے تحفظ کیلئے شیلٹر ہوم بنائے جائیں گے۔خواتین کے تشدد کرنے والے مردوں کو ٹریکنگ کڑے لگائے جائیں گے جو ان کو اتارے گا اسے سزا دی جائے گی۔جب سے یہ بل پاس ہوا ہے عورتیں بہت خوش دکھائی دے رہی ہیں بلکہ بہادر ہوگئی ہیں اب ان کے دلوں سے بھی خاوند کا خوف ختم ہوگیا ہے انھیں علم ہوگیا ہے کہ پنجا ب حکومت نے ہماری وکالت میں بل پاس کرلیا ہے اب مرد تھوڑی بھی سرگوشی کرے گا تو گھر سے باہر یعنی اب حکمرانی عملاً عورت کی قائم ہوگئی ہے،عورتیں اب مردوں کو نصیحت کرتی نظر آرہی ہیں کہ دھیان سے گھر میں رہنا کہیں ایسا نہ ہو ہم اپنی پروٹیکشن کیلئے سرکار کے پاس چلیں جائیں اب ہماری بڑی سے بڑی غلطی پر بھی ہم پر ہاتھ نہ اٹھانا۔۔۔۔ مرد اسی طرح نہتے ہوگئے ہیں جیسے سکول کے اساتذہ "مار نہیں پیار "کے بعد اپنے شاگردوں کے سامنے بے بس ہوگئے تھے اب شاگرد جو مرضی کریں استاد کو انھیں بس نصیحت ہی کرسکتا ہے اس سے آگئے کچھ نہیں ۔۔۔اب گھروں میں بھی ایسا ہی ہوگا اسی لئے پاکستان کے معروف عالم دین جمعیت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمان نے اس بل پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا جس کامفہوم یہ ہے کہ مردوں کے حقوق عورتوں کو دے دئیے ہیں ،پنجاب اسمبلی زن مرید یعنی رن مرید ہوگئی ہے پنجاب حکومت کابل خواتین کو مادرپدر آزاد کرنے کی سعی ہیان کا کہنا ہے کہ کیا رات کو دیر سے آنے والی بیٹی سے جواب طلب کرنا تشدد ہے؟ن لیگ نے مشرف دور کے مسترد بل کو پاس کرلیا جس کا مقصد آقاؤں کو خوش کرنا ہے ۔اس بیان پر پنجاب اسمبلی آپے سے باہر ہوگئی ہے اور مولانا کے خلاف سرپائے احتجاج ہی نہیں بلکہ تحریک استحقاق بھی جمع کر دی اور معافی کا مطالبہ بھی ساتھ نتھی ہے ۔۔۔۔۔۔ پنجاب اسمبلی کے اراکین کااسلام مخالف بل کو اراکین اسمبلی اور عورتوں کی توہین سمجھنا سراسر حماقت نہیں تواور کیا ہے ۔ مولانا فضل الرحمان دین اسلام کو سمجھنے والے ایک زیرک سیاسی رہنماء ہیں اس کے ساتھ حکومت کے حمایتی بھی ہیں ایسے عالم دین اور ذمہ دار رہنماء کا بیان اسلام کے خلا ف کیسے ہو سکتاہے؟خیر یہ تو معاملہ مولانا فضل الرحمان اور پنجاب اسمبلی کا ہے لیکن بات اس سے بھی آگئے بڑھ گئی ہے۔ پاکستان کے جید علمائے کرام نے حالیہ پاس کردہ تحفظ خواتین بل کو غیراسلامی،غیر شرعی قرار دے دیتے ہوئے اسے نظریہ پاکستان کے خلاف گہری سازش کہا ہے ۔علمائے کرام کا کہنا ہے کہ یہ بل پاکستان کو سیکولر بنانے کی سازش ہے علمائے کرام نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ اس بل کو اسلامی نظریاتی کونسل میں بھیجا جائے ۔کیا پنجاب اسمبلی ان جید علمائے کرام سے بھی معافی کا مطالبہ کرے گی،جید علمائے کرام کے بیانات کے بعد ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ یہ مسٔلہ خالصتاً دینی ہے اسے جمہوری سیاسی رنگ نہ دیا جائے پنجاب اسمبلی اپنا قبلہ نظریہ پاکستان کی روشنی میں درست کرے۔

ہمارے پاکستانی معاشرے کا سب سے بڑا المیہ دہرا معیا رہے جو ختم ہونے کی بجائے بڑھتا ہی جا رہا ہے تحفظ خواتین بل پر بھی دہرا معیار واضح نظر آرہا ہے یہ بل عالم کفر کو خوش کرنے کیلئے ہے۔ مرد کو اسلام نے سربراہ مقرر کیا ہے اس بل سے کی سربراہی مجروح ہوگی تو گھر کا نظام درہم برہم ہوجائے گا آج کے عدم برداشت کے ماحول میں یہ بل کوئی تعمیری کردارہرگز ادا نہیں کریگا ۔خواتین کے عدم برداشت کا یہ عالم ہے کہ راقم کو بتایا گیا کہ لاہور میں ایک خاوند نے اپنی بیوی سے کہا کہ تم ہر روز اپنے والدین کے گھر نہ جایا کرو اگر جانا ہے تو صبح میں تمہیں چھوڑ آیا کروں گا شام کو اپنے بھائی کے ساتھ آجایا کرو ۔۔۔اگر ایسا ممکن نہیں تو ہفتے بعد چلی جایا کرو اس پر معمولی زبانی کلامی بحث ہوئی تو اس عورت نے اپنے بھائیوں کو اسی وقت خاوند کے سامنے جذباتی انداز میں فون کیا اس کے بھائی آئے اور بغیر تحقیق کئے اس قدر مشتعل ہوگئے اپنے بہنوئی کو بہت زیادہ زدو کوب کیا تشدد کا نشانہ بنایا اپنی بہن کو اپنے ساتھ اپنے گھر لے گئے اور بہنوئی کو باہر سے تالا لگا کر چلے گئے ۔اب تھانوں کے چکر لگا رہے ہیں لوگوں کی منتیں کررہے ہیں کہ ہماری صلح کروا دی جائے ۔۔۔قارئین کرام!یہ ہے ایک عورت کا آج کے معاشرے میں عدم برداشت کا رویہ تو حکومت کی طرف سے پاس کیا جانے والا بل کیا گل کھلائے گا؟لڑکی اور لڑکے کے اہل خانہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر تھانوں ،کچہریوں کے طواف ہی کرتے رہیں گے۔

دوسری طرف اس بل کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم یہاں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ سارے ملک میں خواتین کے تحفظ کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے مگر عافیہ کی بوڑھی والدہ،بہن اور خاندان کیلئے کوئی تحفظ کا انتظام نہیں ۔انھیں لاوراث ،بے یارومددگار کرکے چھوڑ دیا گیا ہے ۔اس کی زندہ مثال گذشتہ دنوں رات گئے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے گھر نامعلوم افراد نے حملہ کیا ،چوکیدار کو زدوکوب کیااور تشدد کا نشانہ بنایا اور عافیہ صدیقی کے بچوں کے بارے میں پوچھتے رہے یہ واقعہ عافیہ خاندان کے ساتھ زیادتی در زیادتی ہے کیا ڈاکٹر فوزیہ صدیقی ایک عورت نہیں؟ کیا اس کی کوئی عزت نہیں ؟کیا اس کو تحفظ دینا حکومت کا فرض نہیں؟عافیہ کے چھوٹے چھٹے بچے اور عافیہ خاندان پاکستان میں محفوظ نہیں، آخر کیوں؟کیا انسانی حقوق کے وہ حقدار نہیں، حکمرانو! کیا ڈاکٹر عافیہ صدیقی بھی عورت ہونے کے ناطے اپنے حقوق مانگ سکتی ہے یا نہیں ؟ اس کے حقوق کس نے دینے ہیں ؟ گذشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے ریمارکس حکومتی بے حسی کا ظاہر کر رہے ہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ امریکا کا ایک شخص ریمنڈ ڈیوس کو چھڑا کرلے گیا لیکن ہم امریکا سے بات نہیں کر سکے کیا ہم غلام ہیں ،حکومت عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے ایکشن لے ورنہ ڈائریکشن دیں گے ۔ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے وکیل کا کہنا تھا کہ پتا نہیں عافیہ زندہ بھی ہے کہ نہیں ۔گذشتہ ایک عرصہ سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی امریکی جیل میں 86سال کی قید بے گناہی کاٹ رہی ہے جوبالخصوص پاکستان اور بالعموم امت مسلمہ مرحومہ کے منہ پر اہل کفر کی طرف سے منہ پر زور دار طمانچہ ہے کیونکہ مسلمان اس بے گناہ عورت کے حقوق کیلئے زبانی کلامی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں کر سکے پاکستان کے سیاستدان اقتدار تک پہنچنے کیلئے قوم سے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کا وعدہ کرتے رہے مگر جب ایوان اقتدار میں پہنچے تو حسب عادت سب کچھ بھول گئے اور اپنے مغربی ویورپی آقاؤں کی خوشنودی کیلئے عافیہ کیس کو دبائے رکھا ۔جھوٹے وعدے عافیہ خاندان سے کئے گئے اسی لئے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن کا کہنا ہے کہ مشرف نے عافیہ کو ایک بار بیچا مگر موجودہ حکمرانوں نے باربار بیچا۔حکومت پر فرض عائد ہوتا ہے کہ عافیہ خاندان کو تحفظ فراہم کرے اور اپنا وعدہ وفا کرتے ہوئے قوم کی بیٹی دختر مشرق ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے عملی اقدام کرے ٭٭
Ghulam Abbas Siddiqui
About the Author: Ghulam Abbas Siddiqui Read More Articles by Ghulam Abbas Siddiqui: 264 Articles with 245830 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.