غالب بنام خالد کامریڈ

برخوردار! یہ توبڑاکمال ہوابھئی!چشم بددور،میں صدقے جاؤں! واللہ مہا گرونکلے،استادوں کے استاد ہوئے۔ سنگھ کے خلاف تمہاری یک نفری جنگ مجھے دنگ کر گئی،ترشول کے ساتھ درانتی ہتھوڑا دودوہاتھ، ساتھ میں حافظ سعید کی غیبی آشیر باد!!! اسے کہتے ہیں سوسنارکی ایک لوہارکی مگردل جلے کہیں آپس
میں جو بھی جنگ چھڑی ہے زبانی ہے
بی بی سی ہے کو ئی، کوئی آکاش وانی ہے

یار قسم کھاتاہوںتم اپنی برادری کے ہومگررستم ہوکے آج تک کہاں چھپے تھے؟ واللہ رات دلی کی جامعہ نہرومیں تمہاری تقریر دلپذ کان لگاکر سنی، سر چکرایا، دل گھبرایا ، عینک کو بار بار صاف کیا کہ عمر خالد آسمان سے آیا فرشتہ ہے یا فاقہ مستوں کی زمین میںاگا کوئی خودروپودا ہے۔ دیکھ کرمان گئے تم کسی سے کم نہیں۔۔۔کیا غضب کیا،فر فرانگریزی میں بولا: آئی ایم عمرخالد، آئی ایم ناٹ اے ٹریریسٹ۔ شاہ رخ کی اداکاری تمہاری ڈائیلاگ بازی کے سامنے ایک دم ہیچ ، پھیکی ، بے دم، پھس پھسی ،باسی روٹی۔ تقریر ایسی ماری کہ ہم مبہوت، دیوانے دم بخود ، مستانے جھوم اٹھے، تالیاں سیٹیاں محفل میںجوش بھر گئیں۔ پتہ نہیں زعفرانیوں کے دل کتنے بجھ گئے کتنے جل گئے۔ یہ لذتِ تقریر واہ ، کاغذی پیرہن واہ واہ! یکایک یاد آیا ایک بار قضیۂ زمین پر یہی تقریری پہلوانی عمر عبداللہ نے ایوانِ پارلیمان میں دکھلائی ،سیلابستان کے باسی حیران ہی نہیں شادمان بھی ہوئے ، بولے ہم نہ کہتے شیخِ کشمیر کا نیاجنم ہو ا مگر عمر کی کمر،ہاتھ پاؤں،زبان بے وفا کرسی سے باندھ لی گئی تو سب نشہ خمار اترگیا ، اتنامشتِ خاک ہوگئے کہ پاک آسیہ نیلوفر کو بھی ناپاک کرسی پر نثار کیا، کشمیرکی صدہا کلیوں کی ہلاکت آنی جانی چیز مانی.......ایک تمہاری خطابت کہ ہر پیر وجوان پر غیرت و حمیت کا وہ جادو کیا کہ زبان خود بخود گنگنانے لگی ع
ایسا ہوا اثر کہ میرے ہوش اڑگئے

آنکھیں مل مل کے دیکھتا رہاکہیں یہ لیبیا کا بوڑھا عمر مختار دلی آکراٹلی کو ٹھینگا تو نہیں دکھا رہا، کہیں افغانستان کاملاعمرعالمِ برزخ سے اترتو نہ آیا۔ جب دیکھا ساڑھے پانچ فٹ کا چھوکراچھپن فٹ چھاتی پھلاکے زعفرانیوں کو ڈرپوک کہہ رہا ہے تو دل باغ باغ ہوا........چلو کوئی تو ہے جو بے خطر آتشِ نمرود میں کود پڑا ہے۔ یہ بھاشن فوڈسیفٹی ایکٹ کی طرح کوئی بخیلی راشن نہیں، عوامی جذبات کا آئینہ ہے، جھلسے ہووں کے لئے ٹھنڈک ہے، اچھے دن کے بدلے برے دن پانے والی جنتا کے لئے بِہاری نوید ہے۔ واللہ یہ آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے ۔ اسی لئے تو عرض کیا ہے
دیکھنا تقریر کی لذت کہ اس نے جو کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

بندہ کہتاہے کہ اس میں نہ ابہام نہ مبالغہ نہ کوئی شک و شبہ، تمہارایہ جرسِ انقلاب نوشتہ دیوار بنا، دربار میں کھلبلی مچی، آندھر کے کسی رکنِ پارلیمان نے دیش بھگتی کی زنجیرسے رہائی پائی، کشمیریوں کے استصوابِ رائے کی دہائی دی ، مودیوں کا پارہ چڑھایا ، ہائے وہ ذود پشیمان چدمبرم افضل کی پھانسی پر سلطانی گواہ بنا، دودھ الگ پانی الگ کیا، شبہات ظاہر کر کے اجتماعی ضمیر پر طمانچہ مارگیا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ملکِ کشمیر میں کنول کا دلدلی مشن سیاچن جیسے سیاسی زمستان میں ٹھٹھر گیا، قلم دوات پس وپیش کے رات دن میں بکھر گئی ، لاڈلی پارٹی سوچتی ہے قطبین کو اب ملائے کون ؟ اگرمودی سے ہاتھ ملاکر مفت میں ہاتھ جل گئے تو ؟ یارانہ ٹوٹااور کرسی مہاساگر میں ڈوب گئی تو ؟ گرینڈا لائنس کا سنہرا سپنا چور چور ہو اتو؟ مہارتھیوں کے خواب دھرے کے دھرے ر ہ گئے تو ؟انتخابی سرمایہ کاریاں خسارہ در خسارہ ہوئیں تو؟حسیب بے اعتبار ، نعیم بے کار، بیگ کسی اور کی شب د یگ کا یار ہوا تو ؟ این سی کے اسٹاک ا یکسچینج نے تیز رفتار پکڑی تو؟ یعنی
بوئے گل نالۂ دل، دودِ چراغِ محفل
جو تری بزم سے نکلا سو پریشان نکلا

جانِ من ! سناہے تم ہوپکے کمیونسٹ ، تاریگامی ٹائپ آدھا تیتر آدھا بٹیر نہیں، سیٹھی ویچوری ماڈل اشتراکی دلیر۔۔۔ اپنے والد کے افکار سے انکار، سیاسی خدا وںکیلئے للکار، معاشی ظل الہٰیوں کے لئے دھتکار، زخم زخم غریبوں پر اشک بار ، محروموں کے واسطے دلِ بے قرار، مظلوم اقلیتوں کے جگری یار، واشنگٹن سے دل بیزار، ماسکو کے فکری علمبر دار...... مگر تر شولیوں کے صدقے اب مسلمان ہونے پر کرتے ہو سوچ بچار۔۔ یعنی طوفانِ مغرب نے تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہ لایا بلکہ مودی ٹی وی کی تشہیر ی مالش، جھوٹ کی انکشافاتی بوٹ پالش،مظلوموں کی فریاد ونالش تم ایسے مریدِ مارکس کو مسلمان کررہی ہے۔ کیوں نہ ہو، اپنے مودی میڈ ڈھنڈور چیوں نے ہر خاص و عام میں اعلان کر ڈالا:خبردار ہوشیار!یہ جو کا مریڈ عمر خالدہے نا یہ داعش کا پرستار، لشکر پہ جان نثار، دیش کا جفا کار، افضل کا فداکار، باہرسے بھولی بھالی صورت اندر سے شہمار، دو بار اڑ کے گیا سرحد پار، وہاں سے لایا ہتھیار،کنہیاکمار کو بنا یااپنارازدار، وہ نافہم بہک کر بنا قوم کا غدار، یہ نام نہاد کامریڈ بغل میں چھری منہ میں رام رام ،حافظ سعید کا چیلا ، اس کا پتا سیمی کا البیلا، اس کا خاندان دہشت کا چھیل چھبیلا ۔ زعفرانیوں کا یہ سارا سیاسی جھمیلا دیکھ کر کسی ستم شعار نے ٹھیک ہی کہا
مودی کوکیجروال س ڈرہے نہ للو سے
کنہیا کی مرلی مرچیں خالد جلاب ہے

سر جی !شکر تم سے میک اِن انڈیا چنلیں آباد ہوئیں، اخباروں کی سرخیاں شاداب بنیں، سیاستِ زعفرانی کا شکمِ منافرت سیراب ہوا۔ ظالم! خواب میں بھی نہ سوچا تھا فانی دنیا میںکوئی مسرت عالم ثانی ہوگا ، وردی پو شوں کو ایساجل دے کہ سنتری توسنتری منتری بھی دانتوں تلے انگلی داب لیں ۔ روپوش ہواتو ہوش اڑاوئے ، اہل ِدربار کو تگنی کاناچ نچاوئے ، سامنے آیا تو سینہ تانے زمانے کے خداوں کو جلی کٹی سناوئے ۔ کبھی زیر زمین بولے ، کبھی بالائے آسمان منہ کھولے ، زعفرانیوں کا بلڈ پریشر گھٹاوئے ، بخاربڑھاوئے ، آزاد خیالوں کی تالیاں بٹورے ، دہر کو تجسس دے پریوار کو بے قرار ی ،چٹخارے ہیں زباں میں، ترکش میں طعنے، بول اتنے تیکھے زعفرانی ماتھا پیٹیں، ستم یہ کہ ناگاہ ویراپن کی طرح بیابانی کمین گاہ میں گم ہو جاوئے ،کیا خوب مکاںکہ درودیوار نہ ندارد، پھر بھی پولیس کف ِ افسوس ملتی رہ جاوئے۔۔۔

جان ِ پدر! یہ اپنی ترشولی سینا بڑی قاہرہے ، ہسٹری نہیں جغرافیہ بھی بدل دینے میں ماہر ہے۔ اس نے تھوڑی ہی پہلی بار کسی نام کے مسلمان کو کام کا مسلمان کرکے دم لیا۔ان مونگیری لالوں نے ایسے ہزارہا چمتکار پہلے بھی دکھائے ہیں ۔ ذرا ساپیچھے مڑ کے دیکھیو ۔ قائد اعظم تھے کون ؟ کوئی ملا دوپیازہ نہ تھے ،آزاد کی طرح پہلی صف کے پکے کانگریسی لیڈر، ہندو مسلم اتحاد کے سفیر، تعلیم یافتہ، سنجیدہ ، پر وقار و مہذب، گھاٹ گھاٹ کا پانی پیئے ہوئے، جہاں دیدہ، مغربی ثقافت کے دلداہ، بھید بھاو سے خالی ، شیروانی نہیں ہمیشہ کوٹ پتلون ٹائی پہننے والے، سگار کے رسیا، شیکسپئر کے ڈرامے لندن کے سٹیج پر کھیلنے والے منچلے۔نام مسلمانانہ ، گفتار انگریزی، کردار بے داغ، خلوص زادِ راہ ، انسانیت کیلئے کچھ اچھا کرنے کی تمنا...... اوصاف کا یہی مجموعہ قائد کی شخصیت تھی۔۔۔ مگر وقت کی بے رحم کروٹوںنے، مہا سبھائیوں نے ، دوست نما ظالم دشمن کی تلخ کامیوں نے، رنجش و رقابت کے پجاریوں نے انہیںآسمان سے زمین پر پٹخ دیا۔ وہ ہمت نہ ہارے ، مخالفتوں کے طوفان میں مسلمان بن کراٹھ کھڑے ہوئے ،ایک نئی سوچ، ایک نئی امنگ، ایک جوش اور ولولے میں ڈھل کر، ایک فولادی عزم اور ارادے کی زرہ پہن کر۔ان کوسب سے پہلے پاکستان نے تڑپنا سکھا یا ، تڑپاناآیا، وہ سمجھ گئے سب سے پہلے اپنے گھر کی خبر لینا عقل مندی ، اپنی روٹھی قسمت کو منا نا فہمیدگی ۔ انہی تند و تیز سچائیوں نے ان کا دامنِ فکر وعمل پکڑا ،راتوں کی نیندیں اور دن کا چین حرام کردیا۔اپنی باج گزار قوم کی کھوئی ہوئی لاج لوٹانے ، ا س کا علحیدہ سیاسی وجود منوانے، دشمنانِ زمانہ کو لوہے کے چنے چبوانے کے لئے قائد دوقومی فلسفہ کی وردی پہنے کوہ پیمائی کر گئے کہ تاریخ کی جبین ان کے تھکے قدموں پر جھک گئی ۔ شکر ہے کہ اس وقت کو ئی حافظ سعید نہ تھا، ورنہ ان کو یہ پھبتی سننا پڑتی آپ کے پس پشت کوئی اقبال نہیں اساموں کا جھر مٹ ہے ..... آج بھی تم زمانے سے جاننا چاہو کہ قائد ایک قانون کے پابند انسان تھے یا کنیہا اور گیلانی جیسے باغی ؟ توایڈوانی اور جسونت سنگھ سے سچ اگلیں گے۔ ان ہی سے پوچھیو کس کی کھوٹ ، کس کی بد دماغی ، کسی کی سنگ دلی، کس کی تنگ نظری ، کس کا تنفر ، کسی کی عیاری ، کس کی مکاری قائد کے آنکھوں کا پردہ ہٹا گئی کہ وہ یک لخت کلمہ خوان ہوئے، اپنے خلوص ، ثابت قدمی ،ایثار کی قیمت پر اپنے ہاتھوں اقبالی خواب کو ایک تعبیر دی۔

برخوردار!تصویر کادوسر ارخ بھی دیکھیو۔یہ جو اپنے مکھر جی کاپرساد بانٹنے والے ہیں نا ، کیا صلہ دلوایاانہوں نے شیخِ کشمیر کو من توشدم کی بے وقت کی راگنی گنگنانے کا؟ پرچا پریشد کا ہنگامہ، ٩/اگست ١٩٥٣ء کی گرفتاری، کرسی سے بے دخلی، ٢٢سال کی آوارہ گردی، زور وزر سے لمباسنیاس۔ شیخ قائد کا مقلدنہ بنا بلکہ برہمن کے سامنے اپنی پشتینی وفاداری کی لاکھ قسمیں کھائیں ، مردولا سار بھائی سے لے کر جے پرکاش نارائین تک سب کی گواہی اپنے مچلکہ نامہ پر ثبت کروائی، سکندر بخت بنا ، مختار اور شہنواز کا روپ بھی دھارن کر گیامگر تادیر حال یہ بنا
خود کو بھی ہم نے مٹاڈالا مگر
فاصلے جو درمیان تھے رہ گئے
ہم وفا کر کے بھی تنہا رہ گئے
دل کے ارمان آنسوؤوں میں بہہ گئے

دل کے ارمان پھر پورے کیسے ہوئے؟ آوارہ گردی سے توبہ و استغفار کر کے، رائے شماری کے نام عاق نامہ لکھ کر، کرسی کی گردش میں رونا لیلی کا دما دم رقص تک سر آنکھوں پر بٹھاکر، تب جاکر میڈم گاندھی بولی:مو گیم بو خوش ہوا ۔۔۔اور شیخ کو قومی دھارے کی کشتی میں کچھ سال تک ڈل کی سیر نصیب ہوئی کہ اسی کنارے ابدی آرام گاہ ملی۔ آج ان کی آل اولاد ایک سانس میں دربارا کو اٹونامی کی بے سرتال چھکری سناوے، ودسری سانس میں الحاقی شرائط پوری نہ کرنے کا گلہ کرے۔ کا مریڈ جی ! کہیں تم بھی تاریخ کی اسی غلام گردش میں قسمت آزمائی کے لئے تو نہیں نکلے ہو ؟ خاطر جمع رکھیو،یہ کوئی گھاٹے کا سودانہیں ۔ صرف ہاں شیخ وبرہمن کا ملن کرنا سیکھیو۔ اگر اتنی لیاقت نہیں تو سرپر پیر رکھ کر بھاگ جاؤ۔ جواب کا منتظر رہوں گا ۔
جواب کا طالب
غالب
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 356303 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.