جاوید منزل بمقابلہ اورنج لائن ٹرین
(Shehzad Aslam Raja, Lahore)
ریلوے اسٹیشن لاہور سے گڑھی شاہو کی طرف جاتے ہوئے اقبال روڈ پر ریلوے کیرنز ہسپتال سے ذرا آگے دائیں ہاتھ کی طرف سفید رنگ کی ایک خوبصورت عمارت آتی ہے جسے جاوید منزل کے نام سے جانا جاتا ہے جو کہ علامہ اقبال میوزیم کے نام سے بھی مشہور ہے ۔اس علامہ اقبال میوزیم کی عمارت جاوید منزل پورپی طرز پر ہمارے قومی شاعر ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ؒ نے 1935 ء میں 42,025/- روپے میں بنوایا تھا۔اس عمارت کے لئے جو7 کنال زمین کا ٹکڑا حاصل کیاگیا وہ علامہ محمد اقبال ؒ نے 1934 ء میں 25,025/- روپے میں خریدا۔
جواب طلب بات یہ کہ اگر اس تاریخی عمارت کا کام تاریخی عمارتوں کی مرمت کرنے والے ماہر ین سے کروانا ہے اور اس پر اس رفتار سے کام نہیں ہو سکتا جس رفتا ر سے دوسری عمارتوں کی مرمت کا م کیا جاتا ہے تو اب ہی کیوں یاد آیا موجودہ حکومت کو اقبالؒ میوزیم کی مرمت کا ؟ اس سے پہلے دورِ حکومت میں بھی تو پنجاب میں خادمِ اعلیٰ کی حکومت تھی کیا اُس عرصے میں اس طرف کسی کا دھیان نہیں گیا۔ اب جو اگر خدا ترسی سے اس ورثہ کی مرمت کا خیال آہی گیا ہے تو خدارا اس کو جلد از جلد اور معیاری کام کروا کر مکمل کیا جائے ۔ |
|
ریلوے اسٹیشن لاہور سے گڑھی شاہو کی طرف
جاتے ہوئے اقبال روڈ پر ریلوے کیرنز ہسپتال سے ذرا آگے دائیں ہاتھ کی طرف
سفید رنگ کی ایک خوبصورت عمارت آتی ہے جسے جاوید منزل کے نام سے جانا جاتا
ہے جو کہ علامہ اقبال میوزیم کے نام سے بھی مشہور ہے ۔اس علامہ اقبال
میوزیم کی عمارت جاوید منزل پورپی طرز پر ہمارے قومی شاعر ڈاکٹر علامہ محمد
اقبال ؒ نے 1935 ء میں 42,025/- روپے میں بنوایا تھا۔اس عمارت کے لئے جو7
کنال زمین کا ٹکڑا حاصل کیاگیا وہ علامہ محمد اقبال ؒ نے 1934 ء میں
25,025/- روپے میں خریدا۔ علامہ محمد اقبالؒ نے اپنی اس رہائش گاہ کو اپنے
بیٹے جاوید اقبال کے نام سے منسوب کیا ۔ شہرِلاہور میں جہاں جہاں بھی اقبالؒ
رہائش پذیر رہے ان میں سے صرف جاوید منزل ہی ان کی اپنی ذاتی ملکیت تھا۔بد
قسمتی سے اقبالؒ اس میں زیادہ دیر قیام پذیر نہ رہ سکے انہوں نے اپنی زندگی
کے آخری تین سال ہی جاوید منزل میں گزارے ۔ 10 مئی 1961 ء کو حکومتِ
پاکستان نے شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبالؒ کے استعمال میں آنے والے سامان ،
ان کے بہترین کام ، ان کے ہاتھ سے لکھے گئے شاعری کے مسودے ، تعلیمی
سرٹیفیکیٹ ،حاصل کی گئی ڈگریوں کے علاوہ ان کے ایوارڈ اور علامہ کے ہاتھ سے
لکھے گئے خطوط اور بہت سی نواردرات جن کا تعلق علامہ محمد اقبال ؒ سے تھا
کو محفوظ کرنے کے لئے جاوید منزل کو علامہ اقبال میوزیم میں تبدیل کرنے کا
منصوبہ بنایا۔اس مقصد کے لئے حکومتِ پاکستان نے اقبالؒ کے فرزند ڈاکٹر
جاوید اقبال مرحوم سے تقریباََ پینتیس لاکھ جاوید منزل کو خریدا۔یکم دسمبر
1977 ء کو پاکستان کے چیف جسٹس انوارالحق نے اس میوزیم کا افتتاح کیا ۔اس
میوزیم میں 1877 ء سے 1938 ء تک علامہ اقبالؒ کی تصاویر، تعلیمی اسناد،
میڈلز ، حاصل کردہ انعامات اور علامہ کے ہاتھ سے تحریر کردہ شعری مسودے اور
خطوط شامل ہیں ۔علامہ اقبالؒ کے بیٹے ڈاکٹر جاوید اقبال نے بھی میوزیم کو
علامہ اقبال ؒ سے تعلق رکھنے والی تقریباََ چھ سو اشیاء عطیہ کے طور پر دیں
۔یہ میوزیم ایک عدد لائبریری اور نو گیلریوں پر مشتمل ہے ۔’’جاوید منزل‘‘
اقبالؒ میوزیم کی ایک بار مرمت و تعزین و آرائش کی گئی اور اُس وقت کے صدر
جنرل ضیاء الحق نے دسمبر 1984 ء میں مرمت و تعزین و آرائش کے بعد اس کا
افتتاح کرکے عوام الناس کے لئے دوبارہ کھول دیا گیا۔
صاحبو!
یہ تو تھا’’جاوید منزل‘‘ اقبال ؒ میوزیم کا ایک مختصر تعارف جیسا کہ اوپر
ذکر کیاکہ اس میوزیم کی مرمت و تعزین و آرائش کا کام 1984 ء میں ہوا تھا
آج کلاقبالؒ میوزیم کی عمارت خستہ حال ہے اور ہماری حکومت نے پھر سے ایک
بار اقبالؒ میوزیم کی مرمت کے کام کا آغاز کیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ
لاہور شہر میں اتنے بڑے بڑے فلائی اوورز اور انڈر پاس بنے ہر ایک کا مکمل
ہونے کا ٹائم فریم خادمِ اعلیٰ نے اپنی مرضی کا دیا اور سال چھ ماہ کے
دوران ہی ہر پراجیکٹ مکمل کروایا لیکن اقبال ؒ میوزیم کی مرمت مکمل کرنے کے
لئے ایک نجی نیوز چینل کی رپورٹ کے مطابق دو سے تین سال کا وقت بتایا ہے ۔
حکومت کے نمائندے زعیم قادری صاحب صاحب کا کہنا ہے کہ جیسا کہ ’’جاوید
منزل‘‘ کی عمارت تاریخی عمارت ہے اس لئے اس تاریخی عمارت یا تاریخی عمارتوں
کا کام اتنی آسانی سے اور جلدی نہیں ہوتا اس لئے کم از کم دو سال تو لگیں
گے ۔
صاحبو!
اب ذرا غور کریں کہ موجودہ حکومت کو اپنے پانچ سال پورے کرنے کے لئے ابھی
2018 تک یعنی دو سال کا عرصہ پڑا ہوا ہے کیا اس دو سال کے عرصہ میں ’’جاوید
منزل‘‘ اقبالؒ میوزیم کی مرمت کا کام مکمل ہو جائے گا جبکہ کہ اس کے مقابلے
میں پنجاب حکومت کا اورنج لائن ٹرین کا منصوبہ جو کہ اقبالؒ میوزیم کے مرمت
کے کام سے بیس سے پچاس گنا بڑا ہے وہ دنوں ہفتوں اور مہینوں میں مکمل کیا
جارہا ہے اور جس رفتار سے اقبالؒ میوزیم کی مرمت سے بیس سے پچاس گنا بڑے
منصوبے کو مکمل کیا جارہا ہے اس سے ذہن میں ایک ہی بات آتی ہے کہ اورنج
لائن ٹرین پہلے مکمل ہو گی جبکہ اس کے مقابلے میں شاعرِ مشرق علامہ محمد
اقبالؒ کی یادگار کو شاید آئندہ آنے والے دورِ حکومت میں مکمل کیا جائے ۔
جواب طلب بات یہ کہ اگر اس تاریخی عمارت کا کام تاریخی عمارتوں کی مرمت
کرنے والے ماہر ین سے کروانا ہے اور اس پر اس رفتار سے کام نہیں ہو سکتا جس
رفتا ر سے دوسری عمارتوں کی مرمت کا م کیا جاتا ہے تو اب ہی کیوں یاد آیا
موجودہ حکومت کو اقبالؒ میوزیم کی مرمت کا ؟ اس سے پہلے دورِ حکومت میں بھی
تو پنجاب میں خادمِ اعلیٰ کی حکومت تھی کیا اُس عرصے میں اس طرف کسی کا
دھیان نہیں گیا۔ اب جو اگر خدا ترسی سے اس ورثہ کی مرمت کا خیال آہی گیا ہے
تو خدارا اس کو جلد از جلد اور معیاری کام کروا کر مکمل کیا جائے ۔ |
|