کچھ تو احساس زیاں تھا پہلے

عدم برداشت ایک ذہنی کیفیت کا نام ہے جس میں ایک انسان ہر چیز کو اپنے ہی زاویہ نظر سے دیکھتا ہے اوراسی کو درست سمجھتا ہے رفتہ رفتہ یہ احساس اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ ایسا انسان اپنے نظریات کے سامنے ہر کسی کو پس پشت ڈال دیتا ہے اسے اختلاف کے لیے دلائل یا وجوہات کی ضرورت نہیں ہوتی اس کے لیے اتنا ہی کافی ہوتاہے کہ اس کے قول و عمل سے کسی نے انحراف کیا ہے ۔بدقسمتی سے گذشتہ چند دہائیوں سے حکمرانوں کے عوام سے ناروا سلوک ،بے انصافیوں اورفرقوں میں بٹے ہوئے بعض نا عاقبت اندیش علمائے کرام کی اشتعال انگیزیوں کی وجہ سے معاشرہ مسلسل عدم برداشت کا شکار ہو رہا ہے فکرانگیزبات یہ ہے کہ یہ کیفیت پورے معاشرے میں ناسور کی طرح پھیل رہی ہے جو کہ مسلسل قتل و غارت گری ،ٹارگٹ کلنگ ،گھریلوتشدد اور دہشت گردی کا باعث بن رہی ہے عدم برداشت شدت پسندی کو جنم دیتی ہے جو کہ برائیوں اور جرائم کی انتہائی خطرناک صورت ہے جہاں انسان کا دل اور دماغ شل ہو جاتے ہیں وہ اچھے برے کی تمیز سے بالاتر ہو کرعقل سلیم کھو بیٹھتا ہے اپنی ذہنی تشفی چاہتا ہے اور اسی کشمکش میں وہ دوسروں کو نقصان پہنچاتا ہے مگر اس کا خمیازہ نہ صرف وہ خود بھگتتا ہے بلکہ معاشرہ بھی اس کی اس کیفیت کی بھاری قیمت چکاتا ہے ۔

اس وقت عدم برداشت کا جو کلچر ہمارے معاشرہ میں فروغ پا رہا ہے اس میں تعلیمی ادارے سب سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں ایک مسئلہ تو یہ ہے کہ ہماراموجودہ نصاب ایسے مواد سے آراستہ ہے جو نفرت اور اشتعال انگیزی پھیلانے کا سبب بنتا ہے یعنی بعض مناسب احکام کو بھی غلط طریقے سے پیش کیا جاتا ہے،صبر برداشت ،تحمل ،معاف کر دینا اور غصہ تھوک دینا جیسی شاندار روایات کی طرف کم توجہ دلائی جاتی ہے مز ید براں مختلف فرقوں کے لیے مختلف کتب موجود ہیں ایسے میں ان کے پڑھانے والے اساتذہ بھی مخصوص ہیں جو کہ مخصوص نظریات کے حامل ہوتے ہیں ایسے میں معصوم اذہان کی مثال اس مائع کی طرح ہے جسے جس سانچے میں ڈھالا جاتا ہے وہ ویسا ہی بن جاتا ہے کیونکہ بچہ جو سنتا ہے وہ اس کی ذات کا حصہ بنتا جاتا ہے اور اگراس کے والدین بھی انہی نظریات کے حامل ہوں اورتعلیمی ذرائع بھی دین بیزاری سانچے فراہم کر رہے ہوں تو نفرت سے شدت کا در آنا کوئی بڑی بات نہیں ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ معاشرہ حقیقی درسگاہ ہے جس میں تعلیمی ادارے اہمیت کے حامل ہیں اگر ہمیں اخلاقی اقدار کی پاسداری کرنی ہے تو اساتذہ کی بعد از تعلیم بھی عملی تربیت کا اہتمام کرنا ہوگا ورنہ بھیانک نتائج کے لیے تیار رہنا ہوگا جو کہ ہم پہلے ہی بھگت رہے ہیں خود سوزی اور اس پر طرہ یہ کہ خود سوزی سے پہلے اپنے گھر کے بڑوں اورمعصوم بچوں کو بھی زہر دے دینا اسے بھوک و ننگ سے آزادی کہیں یا مجبوری ہر صورت میں یہ شدت پسندی کی انتہا ہے پھر پے در پے دو تین واقعات میری نظر سے گزرے جس میں ’’ماں ‘‘ وہ ہستی جس کے قدموں تلے جنت رکھ دی گئی ہے اس کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔یہ کہتے ہوئے پورا جسم کانپ اٹھتا ہے مگر حیرت ہے کہ ایسا کرنے والوں کے ہاتھ نہیں کانپتے ۔۔!وہ ماں جس نے لازوال قربانیاں دے کر جنم دیا اور ہر مشکل برداشت کی اس’’ ہستی‘‘ کو مارنے کا حوصلہ کہاں سے آگیا۔۔؟ ایسے انسان کو تو سرعام بیچ چوراہے کے لٹکا دینا چاہییے جو اپنے لیے دعاؤں کے در بند کرتے ہے ان کو بد دعا بنا دیں اور اب ایک اور خبر دیکھی کہ غیرت کے نام پر ایک لڑکی کو قتل کر دیا گیا یہ غیرت کے نام پر شدت پسندی کا مظاہرہ کرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جبکہ اگر مردوں کو غیرت کے نام پر قتل کیا جائے تو روزانہ سینکڑوں مرد صفحہ ہستی سے مٹ جائیں اس لئے کہ اسلام برداشت کی تعلیم دیتا ہے حدود سے تجاوز کرنے والا ہر حال میں خسارے میں رہتا ہے وہ چاہے کسی بھی شکل میں ہو اعتدال ہر قدم پرضروری ہے لیکن بد قسمتی سے موجودہ معاشرتی حالات بھی ایسے ہیں کہ ہر انسان غصہ اور نفرت لئے پھر رہا ہے وہ جب معاشی جنگ ہارتا ہے تو اندرونی جنگ پر قابو پانے کے لیے قریبی خونی رشتوں پر وار کرتا ہے اس اندرون اور بیرون کی جنگ میں وہ سب ہار جاتا ہے افسوس حکمرانوں کا رویہ بھی اسی شدت پسندی کا مظہر بن چکا ہے وہ جو چاہتے ہیں وہی کرتے ہیں تھر پارکر میں بچے بھوک اور پیاس سے مر رہے ہیں مگر شہروں میں بسوں کی لائینیں لگائی جا رہی ہیں اس بے حسی کو کیا نام دیا جائے مزید لاہور میں جائیدادوں کو مسمار کر دیا گیا جبکہ ایکوزیشن کی عمل ہی پوری طرح مکمل نہیں ہوا لا پروائی حکومت کا شیوہ بن چکی ہے برسر اقتدار حکومت کی تان پل سے شروع ہوتی ہے اور سڑک پر آکر ٹوٹتی ہے جبکہ اسی پل کے نیچے بھوک سے تنگ کھڑے افراد یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ اپنے گھر والوں کو مار کر خود بھی مر جائیں گے کیونکہ یہاں انصاف کا ’’ٹل‘‘ بجانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگاگذشتہ کل جس باپ نے اپنے بچوں کو زہر دیا اس کے یہی الفاظ تھے کہ بیٹا یہ پی لو پھر کبھی بھوک نہیں لگے گی ۔۔۔!میٹرو اورنج لائین ٹرین کی لاگت کا اندازہ کیا جائے تو کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ہم غریب ملک کے باسی ہیں ‘جہاں روزانہ لوگ روٹی کے ہاتھوں خود کشیاں کر رہے ہیں۔ صد افسوس! غریبوں کی روٹی تشہیری منصوبے کھا گئے ہیں احساس زیاں کی موت ہوچکی یہی وجہ ہے کہ لکھنے والے بھی محتاط ہوگئے ہیں اور یہی کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ
جی میں آتا ہے الٹ دیں ان کے چہرے سے نقاب
حوصلہ کرتے ہیں لیکن حوصلہ ہوتا نہیں
مگر فصیل وقت کی تحریر چیخ رہی ہے کہ !
دیکھو ہمیں !کہ ہم نے ابھارے ہیں آفتاب
دیکھوہمیں! کہ خاک میں ہیں ملے ہوئے

مگر مسئلہ وہی کہ ہمارے سیاسی قائدین بھی اسلام سے دوری کے سبب روز محشر کو بھلا چکے ہیں انھیں اس کا احساس ہی نہیں کہ اقتدار اعلیٰ کا اصل مالک اﷲ ہے جس نے انھیں اپنا نائب بنایا ہے اور ہر عمل کا حساب ہوگا کیا آج کسی سیاسی راہنما کی آنکھ نم ہوگی۔۔۔؟ کہ ایک باپ نے اپنے بچوں کو یہ کہہ کر زہر پلا دیا کہ اب بھوک نہیں لگے گی ۔۔! میرے پاس الفاظ ہی نہیں کہ میں اس درد کو رقم کروں اور خواص کی بے حسی کی پیمائش کروں ۔عدم برداشت کے جو رحجانات قومی یا بین الاقوامی سطح پر فروغ پا رہے ہیں ان کی بہت سی وجوہات بتائی جاتی ہیں مگر اگر دیکھا جائے توبحثیت مسلمان بنیادی طور پر اس شدت پسندی کی واحد وجہ اسلامی تعلیمات سے دوری اورتعلیمات نبوی ؐ سے رو گردانی ہے ہمارے مدارس ،درسگاہیں ،اساتذہ ، میڈیا اور علمائے کرام اپنا فرض خوش اسلوبی سے ادا نہیں کر رہے ۔انھوں نے اپنی ذات کو مقدم رکھنے کے لیے فرقہ بندی اور توہمات پرستی کا لبادھا اوڑھ کر مذہبی منافرت اور باہمی کشمکش کو عام کر دیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج علمائے کرام ، میڈیا اور اساتذہ بھی تنقید و تضحیک کا شکار ہو رہے ہیں وہ احترام انسانیت اور اخلاقی اقدار جو اسلام کی میراث ہیں وہ خال خال نظر آتی ہیں جسے دیکھیئے وہ بد ظن اور شدت پسند نظر آتا ہے مگر مقام حیرت یہ ہے کہ ذمہ داران اپنی غلطی ماننے کو تیار نہیں ہیں جبکہ بہتری کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے ہمارے نبی اکرم ؐ کے الفاظ آج بھی روز روشن کی طرح ہیں کہــ’’ میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ،کتاب اﷲ اور اپنی سنت ‘‘مگر ہم وہ کم فہم ہیں کہ ان دونوں چیزوں کو ہی نظر اندازکر دیا ہے اسی بات نے ہمیں تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے جبکہ اگر آج بھی ہم اپنی کوتاہیوں اور گناہوں سے تائب ہو کر اﷲ کے حضور معافی طلب کریں‘ قرآن حکیم اور اسوہ رسول کی بنیادوں کی پیروی کریں ‘تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہم نہ صرف تمام مشکلات و مسائل سے نجات حاصل کر سکیں گے بلکہ دنیا کی امامت کا تاج بھی دوبارہ ہمارے سر پر آجائے گا علامہ اقبال نے یونہی نہیں کہا تھا کہ ۔۔آج بھی ہو اگر ابراہیم کا ایماں پیدا ۔۔آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا
 !
آج تو دنیا گلوبل ولیج کی شکل اختیار کر چکی ہے سوشل میڈیا نے پوری دنیا کو ایک کر دیا ہے ایسے میں اسلامی ممالک کو اپنا وقار اور اقدار عام کرنے کا موقع مل سکتا ہے مگر ہماری کوتاہیاں پورے سوشل میڈیا پر پھیلائی جاتی ہیں ۔میں نے اکثر فیس بک پیجز اور ویب سائیٹس پر دیکھا کہ اسلام دشمن عناصر یہ عدم برداشت کے واقعات کو ہی ہتھکنڈوں کے طور پر استعمال کر رہے ہیں اور ان کو سراہنے والوں کی زیادہ تعداد نام نہاد مسلمانوں کی ہوتی ہے کہ ہاں ۔۔یہ صرف ’’ملا ازم ‘‘کا قصور ہے جو ملک اس نہج پر پہنچ گیا ہے مگر کوئی یہ نہیں دیکھ رہا کہ یہ زہر ‘یہ نفرت انگیز ریمارکس اسلام کی اقدار کو کتنا نقصان دے رہی ہیں میں مانتی ہوں ہمارے ذمہ داران میں سے اکثر ایسے ہیں جو تبلیغ کرتے ہیں مگر اﷲ اور رسول ؐ سے مخلص ہو کر نہیں بلکہ بعض مقاصد ذہن میں رکھے ہوئے ہوتے ہیں جو کہ سب سے زیادہ اسلام کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور ان کی ویڈیوز بھی شئیر ہوتی ہیں ایسے لوگوں کو احتیاط کرنی چاہیئے اگر وہ نہیں سمجھتے تو دوسروں کو چاہیئے کہ ان کو بتائیں کہ آپ کی ایسی باتیں اسلام کو بدنام کر رہی ہیں منبر رسولؐ ،میڈیا اور اسٹیج پر آنے والوں کو یاد رکھنا چاہیئے کہ وہ جوکرتے ہیں اس کو پوری دنیا دیکھتی ہے اس لئے خدارا ۔۔یہ مقدس فریضہ احسن طریقہ سے ادا کریں۔ اسلامی اقدار کے مطابق وعظ و تبلیغ کریں اور فرصت ملے تو سوشل میڈیا پر بھی دیکھیں کہ دنیا کس طرح اور کس نظر سے آپ کو دیکھ رہی ہے ۔ہم جن کی امت ہیں ان کی گواہی تو کفار مکہ بھی دیا کرتے تھے ان کو تو ’’صادق‘‘ اور ’’امین‘‘ کفار مکہ ہی کہا کرتے تھے اور وہ دشمن کے مابین بھائی چارہ قائم کیا کرتے تھے تو سوچیں کہ آپ کہاں غلط ہیں ؟جبکہ اﷲ اور اس کا رسول ؐ نے تو ہر معاملہ میں انصاف سے کام لینے ،عفو درگزر کرنے ۔صبر اور شکر کرنے ،برداشت اور تحمل سے کام لینے کا درس دیاہے اور قرآن مختلف مقامات پر بار بار اس پیغام کو دہراتا ہے وہ ایسی شخصیت کی تعمیر کرتا ہے جو مکمل طور پر پوری انسانیت کے لئے سلامتی کا پیکر ہو۔ ارشاد ربانی ہے کہ غصہ پی جانے والے اﷲ کو بہت پسند ہیں یعنی غصہ آئے اوربرداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے درگزر کیا جائے اور جو ایسا نہیں کرتے وہ اﷲ کے نزدیک چوپایوں کی مانند ہیں اسی لئے انسان کو اشرف المخلوقات کہا گیا کہ وہ عقل اور سمجھ سے کام لیتا ہے لیکن اب عقل بعض نام نہا د دانش وروں اور مذہبی پیشواؤں کے حادثاتی قبضے میں ہے اس کی زندہ مثالیں قدم قدم پر دیکھنے کو مل رہی ہیں آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ترجیحی بنیادوں پر ان وجوہات کو تلاش کر کے ان کا سد باب کیا جائے جوکہ عدم برداشت کی وجہ ہیں اور احساس زیاں کی موت کا باعث بن رہی ہیں تاکہ معاشرے کو شدت پسندی سے بچاکر امن و سلامتی کی فضا قائم کی جاسکے جو کبھی ہمارے وطن کی پہچان ہوا کرتی تھی بقول ناصر کاظمی
کچھ تو احساس زیاں تھا پہلے
دل کا یہ حال کہاں تھا پہلے
Roqiya Ghazal
About the Author: Roqiya Ghazal Read More Articles by Roqiya Ghazal: 127 Articles with 102984 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.