خراب کر گئی شاہین بچے کو صحبت زاغ
(Raja Muhammad Attique Afsar, Peshawar)
کارٹون اور ویڈیو گیمز کے پیچھے کارفرما اذھان کو بے نقاب کرتی تحریر |
|
سڑک پہ اکثر اوقات بچے کھیلتے ہیں اور کبھی
کبھار یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ کوئی شرارتی بچہ سڑک کے عین بیچ میں کھڑا ہو
جاتا ہے حالانکہ سڑک کے ایک جانب سے تیز رفتارگاڑی اس کی جانب بڑھ رہی ہوتی
ہے ۔بچہ کچھ عجیب و غریب زبان مین کچھ بول بولتا ہے اوراپنی ننھی ہتھیلی
گاڑی کی جانب کر لیتا ہے جیسے وہ اس ننھی ہتھیلی سے اس گاڑی کو روک دے
گا۔اس ڈر دے کہ کہیں وہ گاڑی کا نشانہ نہ بن جائے کوئی راہگیر اسے لپک کر
سڑک کے کنارے رکھ دیتا ہے ۔بچہ غصے سے اس بچانے والے کی طرف دیکھتا ہے ۔
اگر اسے اس طرح کرنے سے منع کیا جائے تو وہ کہتا ہے کہ میں تو کارٹون کی
طرح جادوئی الفاظ بول کر اس گاڑی کو روک لیتا۔ اگر دورِ جدید کے بچوں کو
بنظرِ غائر دیکھا جائے تو یہ المیہ ہر بچے کے ساتھ ہے ۔وہ کارٹون کی مانند
جادوئی طریقے سے ہوا میں معلق رہنے کی کوشش کرتے ہیں ۔اگر کوئی چیز چاہیے
تو کسی سے طلب کرنے کے بجائے چھو منتر کے ذریعے حاضر کرنے کی کوشش کرے گا۔
سکول جانے کا موڈ نہ ہو تو بیمار ہونے کا بہانہ نہیں کریں گے بلکہ اپنی
وردی(یونیفارم) کو گندا کر دینگے یا اپنا جوتا کہیں چھپا دیں گے ۔ کامیابی
کی صورت میں اس پہ ارائیں گے ۔ غرض ہر بچہ کسی مخفی و پوشیدہ طاقت کے ذریعے
اپنی خواہشات کے حصول کا متمنی ہے ۔ وہ محنت کے بجائے آسان راستے اور
چالبازی سے منزل تک پہنچنا چاہتے ہیں ۔ بقول اقبالؒ :
ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلند پروازی
خراب کر گئی شاہین بچے کو صحبت زاغ
دورِجدید میں جہاں سائنسی ایجادات نے انسانی زندگی میں سہولیات کی فراوانی
کی ہے وہیں علم اور معلومات تک رسائی بھی آسان کر دی ہے ۔ ریڈیو، ٹی وی ،
انٹرنٹ اور موبایئل جیسی سہولیات نے انسان کی رسائی کو آسان کر دیا ہے ۔ ان
تمام ایجادات کے ذریعے بچوں کو اپنی دلچسبی کے لیے جو سامان ملا ہے وہ ہے
کارٹون ۔ جدید دور کے بچوں کو تفریح اور کھیل تماشے کے لیے جو سب سے عزیز
تر چیز ملی ہے وہ ہے کارٹون۔کارٹون مکسر عکس ہے یعنی کسی بھی چیز کا ٹوٹا
پھوٹا عکس جو دیکھنے والے کو ہنسی پہ آمادہ کر دے ۔ دوسرے لفظوں میں ہم یہ
بھی کہہ سکتے ہیں کہ حیوانات اور جمادات کو انسانی روپ میں پیش کرنے کو
کارٹون کہتے ہیں ۔ یہ بنیادی طور پہ تصاویر ہوتی ہیں جو ایک مخصوص رفتارسے
حرکت دینے پہ چلتی پھرتی محسوس ہوتی ہیں ۔اسکے بعد انسانی آواز اس میں شامل
کی جاتی ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کارٹون کوئی زندہ مخلوق ہے جو ہماری
طرح چلتی پھرتی ، کھاتی پیتی اور بولتی ہے ۔ لیکن کارٹوں کی سب سے بڑی
خاصیت یہ ہے کہ وہ کچھ غیر مرئی اور طلسماتی خوبیوں کے حامل ہوتے ہیں ۔ ایک
کارٹون سویں منزل سے گرتا ہے اور صرف اسکے سر کے گرد کچھ ستا رے گردش کرتے
ہیں ۔دوڑتے بھاگتے وہ ہوا میں معلق بھی ہو جاتا ہے اور جاب اسے پتہ چلتا ہے
تب وہ نیچے گرتا ہے ۔یہ ما فوق العادت خصوصیات دیکھ کر بچے اسکو عملی نمونہ
سمجھ بیٹھے ہیں اور اس کی نقل اتارنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
کارٹون محض متحرک تصاویر ہوتی ہیں ان میں یہ طلسماتی قوت کہاں سے در آتی ہے
؟ اصل میںیہ طلسماتی قوتیں اس ذہن کی پیداوار ہیں جو ان کارٹون کے پیچھے
کارفرما ہے ۔یہ کارٹون کو متحرک کرنے والے کا تخیل ہے جو پردۂ دورنما(ٹیلی
ویژن کی سکرین ) پہ حقیقت کا روپ دھارتے نظر آتا ہے اور دیکھنے والے کی
آنکھ کو خیرہ کر دیتا ہے اور اسکے ذہن کو گرویدہ کرلیتا ہے۔ اور بچے معصوم
ہونے کی وجہ سے اس کے سب سے زیادہ گرویدہ ہیں ۔ کارٹون کو موجودہ شکل میں
منظر عام پہ لانے والا والٹ ڈزنی ہے جو امریکی شہری تھا۔ والٹ ڈزنی ایک
مقبول فلمساز، کامیاب تاجر ، مقبول عام کارٹون کا موجد، ڈزنی لینڈ تھیم
پارک کا موجد اور دنیا پہ سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والے شخص کی حیثیت سے
دنیا بھر میں جانا جاتا ہے ۔ والٹ ڈزنی نے امریکی اور غیر امریکی اذھان کو
اپنی فکر سے بے حد متاثر کیا ہے ۔پہلی جنگ عظیم میں وہ کم عمری کی وجہ سے
شرکت نہ کر سکا مگر وہ ایک خدمتگار کی حیثیت سے جنگ کا حصہ رہا ۔والٹ ڈزنی
نے اپنی فلموں کے ذریعے امریکی افواج کے لیے رائے عامہ ہموار کی اور فوج کے
مورال کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔والٹ ڈزنی اور اسکی کمپنی نے کارٹون
فلموں کی صنعت کے ذریعے لوگوں کے اذہاں پہ گہرے اثرات مرتب کیے۔ والٹ ڈزنی
نے اپنے کارٹون کے حوالے سے تھیم پارک بھی قائم کیا ۔ اس کا مقصد کارٹون کو
تصورات سے نکال کر ٹھوس شکل میں لایاجائے ۔ اس پارک میں والٹ ڈزنی کے بنائے
کارٹون ٹھوس شکل میں موجود ہیں اسکے علاوہ اس پارک کے جھولوں میں بل کھاتی
ریلیں اور الٹی لٹکتی گاڑیاں ہیں جن پہ سوار ہو کر طلسماتی دنیا کی طرح
الٹا لٹک کر سفر کیا جا سکتا ہے ہوا میں معلق ہونے کا لطف اٹھایا جا سکتا
ہے وغیرہ ۔
موجودہ دور کے کارٹون کا موازنہ اگر خلافت عباسیہ کے آخری ایام میں باطنی
فرقے کی جانب سے قائم کی گئی فردوسِ بریں سے کریں تو یہ بے جا نہ ہو گا ۔
یہ ایک جنت تھی جو فرقہ باطنیہ نے قائم کی تھی ، یہ پہاڑی سلسلے کے بیچ میں
ایک وسیع و عریض باغ تھا جس میں جنت کی خوبیوں کی طرح دودھ کی نہریں تھیں
خوبصورت عورتیں تھیں ، روشنیاں تھیں ۔ یہاں افراد کو ہپناٹائز کر کے اور
حشیش پلا کر لایا جاتا اور اس جنت کی سیر کرائی جاتی ۔ اسکے بعد ان افراد
سے اپنی مرضی کے کام کرائے جاتے جن میں علمائے حق کا قتل بھی شامل ہے۔والٹ
ڈزنی نے بھی کارٹون فلمیں بنائیں اور پھر تھیم پارک تخلیق کیا ۔ مقصد یہ
تھا کہ دیکھنے والوں کو یہ باور کرایا جائے کہ کارٹون محض تصویروں کی حرکت
کا نام نہیں بلکہ اسکی ٹھوس عملی شکل موجود ہے ۔جدید سائنس جادوئی قوتوں کی
موجودگی کا انکار کرتی ہے جن کے ذریعے انسان طاقت اور غلبہ حاصل کر سکتا ہے
لیکن والٹ ڈزنی اسی سائنس کے ایجادکردہ کارٹون کے ذریعے ایسی پوشیدہ قوتوں
کی موجودگی اور برحق ہونے کے لیے ذ ہن سازی کر رہے ہیں ۔
مغرب میں خصوصا امریکہ میں کسی بھی کامیاب شخص یا ادارے کو لازمی طور پہ
کسی خفیہ تنظیم کا رکن سمجھا جاتا ہے ۔ والٹ ڈزنی کے بارے میں بھی یہی خیال
ظاہر کیا جاتا ہے ۔ عموما اس طرح کے کامیاب لوگ فری میسن تنظیم کے رکن ہوتے
ہیں لیکن چونکہ یہ تنظیم خفیہ ہے اس لیے اس کی رکنیت کے بارے میں کچھ نہیں
کیا جا سکتا ۔فری میسن تنظیم یہود کی حمایت کرتی ہے جبکہ والٹ ڈزنی یہود
مخالف یا سامی مخالف مہم (Anti Semantic) کا حصہ رہا ہے اور دوسری جنگ عظیم
میں یہود کے خلاف کیے گئے ہٹلر اور نازیوں کے اقدامات کی حمایت کرتا رہا ہے
۔ البتہ فری میسن کی طرز کی ایک اورخفیہ تنظیم یا گروہ روزا کروسس (Rosae
Crucis)بھی موجود ہے جو قدیم جادو کو سینہ بہ سینیہ آگے بڑھانے کا ایک
سلسلہ ہے ۔اسکا اصل نام قدیم سلسلۂ طلسم روزاکروسس (Antient Mystical Order
Rosae Crusis) ہے جسکا مخفف(AMORC) ہے اور یہ تنظیم قدیم علم جادو اور
الکیمے کے ساتھ مخصوص ہے ۔یہ تنظیم بھی فر می میسن کی طرح خفیہ ہے ۔ ان
دونوں تنظیموں می۹ں فرق یہ ہے کہ فری میسن مادی طریقے سے اقتدار کی کوشش
کرتی ہے جبکہ AMORC روحانی طور پہ پوشیدہ قوتوں کے ذریعے اسی اقتدار کی
خواہاں ہے ۔ یہ وہی جادوئی قوتیں تھیں جن کے ذریعے قدیم مصر میں خوارق کا
ظہور کیا جاتا اور لوگوں کو فراعنہ کی عبادت پہ لگایا جاتا۔ بعدمیں جب
عیسائیت نے اس علاقے پہ اپنا تسلظ قائم کیا تو جادوگری ممنوع قرار پائی ۔
اس علم کے حامل لوگوں نے خود کویہودی ، عیسائی اور بعد ازاں مسلم صوفیہ اور
زہاد کے روپ میں پردہ نشین کر لیااور سترھویں صدی میں دوبارہ منظر عام پہ
آئے ۔جبکہ الکیمے بھی قدیم فلسفے پہ مبنی گروہ ہے جو اس بات پہ یقین رکھتے
ہیں کہ جادوئی طاقت کے ذریعے کسی بھی عنصر خاص کر دھات کو سونے میں بدلا جا
سکتا ہے ۔والٹ ڈزنی بھی اسی سلسلے کا رکن ہے ۔اور ان تصورات کو کارٹون کی
شکل میں عام کرتا رہا ہے ۔اور کارٹون کے پیچھے کار فرما جادوئی قوت کاتخیل
اس کی توثیق کرتا ہے کہ والٹ ڈزنی کا تعلق اسی خفیہ گروہ سے تھا اور وہ
اسکے خیالات و نظریات کی ترویج کرتا رہا ہے ۔اس سلسلے سے تعلق رکھنے والے
افراد کے ذہن میں ایک نئی دنیا آباد ہوتی ہے اور وہ دنیا کے رازوں کو جاننے
کے درپہ ہوتے ہیں ۔وہ انہی خیالات کو عملی جامہ پہنانے کی سعی بھی کرتے
ہیں۔ والٹ ڈزنی نے پہلے کارٹون فلمیں تخلیق کیں پھر اس نے تھیم پارک تخلیق
کیا اور بعدازاں یہی تھیم پارک ویڈیو گیمز کی شکل میں منتقل ہو گیا ۔ والٹ
ڈزنی کی یہ تخلیقات تعمیر سے زیادہ تخریب کا باعث بنی ہیں ۔ اس نے انسانی
معاشروں کو بری طرح متاثرکیا ہے۔اس کا ہدف خصوصی طور پہ بچے بنے ہیں اسکی
وجہ یہ ہے کہ بچہ تعمیر شخصیت کے انتہائی اہم مرحلے میں ہوتا ہے ۔ انسانی
زندگی کے ابتدائی پانچ برس میں 80% شخصیت مکمل ہو جاتی ہے ۔ اس عمر میں
بچوں کو تخیل کی دنیا میں لے جانے سے وہ ہمیشہ کے لیے انہی تخیلات کے اثیر
ہو جاتے ہیں ۔والٹ ڈزنی کی مصنوعات بچوں کے ناپختہ ذہن میں اپنی تصاویر نقش
کر دیتی ہیں جو بعد میں اسکی شخصیت کی بنیاد کا جزو لاینفعک بن کر رہ جاتی
ہیں ۔والٹ ڈزنی کی مصنوعات مندرجہ ذیل طریقے سے بچوں کے اذھان کو پراگندہ
کرتی ہیں۔
۱) انسان کو اللہ نے فرشتوں پہ فضیلت علم کی بنیاد پہ دی اور یہ علم اسماء
الاشیاء ہے یعنی چیزوں کے نام ۔والٹ ڈزنی کی مصنوعات ایسی چیزوں کے نام بچے
کے ذہن میں انڈیل دیتی ہیں جن کا وجود ہی نہیں ۔ اس کے ذہن میں ایک فرضی
لغت پروان چڑھتی ہے ۔یہ وہ چیزیں ہوتی ہیں جو اسکی آنکھیں دیکھتی تو ہیں
مگر ان کا وجود نہیں ہوتا۔جو کچھ وہ دیکھ چکا ہوتا ہے وہ اسکے ایمان کا حصہ
بن جاتا ہے جبکہ اسے جو بعد میں سکھایا جاتا ہے وہ اسکی عقل قبول نہیں کر
رہی ہوتی ۔اس علم کی بنیاد پہ جو شخصیت تعمیر ہوتی ہے وہ عمل کے لحاظ سے
مطلوبہ انسان بننے میں مانع ہوتی ہے۔
۲)انسان اپنے گرد و پیش سے سیکھتا ہے ۔ وہ اپنے والدین کی طرز معاشرت
اختیار کرتا ہے ، اپنے گھر کی بولی بولتا ہے ۔رہن سہن ، بودوباش، تہوار ،
کھیل ، زندگی اور موت کے ڈھنگ وہ اپنے معاشرے سے سیکھتا ہے لیکن یہ کارٹون
اورویڈیو گیمز اسے ایک اجنبی ثقافت سے آشنا کر دیتے ہیں اور مغرب کی چکا
چوندکو اس کے ذہن پہ نقش کر دیتے ہیں ۔ وہ بچپن سے ہی مغرب کا اثیر ہو جاتا
ہے۔وہ کارٹون اور ویڈیو گیمز کے گرداروں کو اپنے لیے عملی نمونہ بنا دیتا
ہے اور اس طرح کا بننے کی کوشش کرتا ہے ۔وہ ویلنٹائن ڈے، کرسمس اور اس طرح
کے مغربی تہوارون سے تو آشنا ہوتے ہیں لیکن اپنے ایام اور تہواروں سے بے
خبر ۔
۳)کارٹون اور ویڈیو گیمز سے متاثر ہونے والے بچے اخلاقیات سے عاری ہو جاتے
ہیں وہ احترام ، ایثار اور باہمی امداد کے فلسفے سے دور ہوتے ہیں اور اپنے
فائدے کے لیے ہر حربہ استعمال کرنے کی سوچ کا اپنا لیتے ہیں۔وہ مغرب کی اس
سوچ کے اسیر ہو جاتے ہیں کہ ’’محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے‘‘ ۔ اس طرح
بطے شازشی ذہنیت کے مالک ہو جاتے ہیں۔
۴) انسان کوجانور سے ممتاز کرنے والی صفت حیا ء ہے اور یہ دین کا ایک شعبہ
ہے ۔یہ جب تک انسان کا خاصہ ہے وہ جانور سے ممتازہے اور جب اس سے حیا ء ختم
ہو جائے تو انسان ایک جانور رہ جاتا ہے ۔ مغرب نے انسان کو جانور کی جدید
شکل قرار دیا ہے یا پھر اسے معاشرتی حیوان یا عقلمند حیوان گردانا ہے ۔
جبکہ تمام مذاہب اسے ایک مستقل اور جدا مخلوق قرار دیتے ہیں ۔ جدید مغربی
تہذیب حیاء سے عاری ہے اور اسکے پیش کردہ کارٹون بھی حیا ء سے کوسوں دور
ہیں ۔ وہ جنسی خواہشات اور جذبات کا کھل کر اظہار کرتے ہیں ۔ایسے تمام
مناظر جو جنسی جذبات کو برانگیختہ کرتے ہوں فحاشی کے زمرے میں آتے ہیں ۔اور
پھر بچوں کے پروگرامات میں ان کو شامل کرنا ان کی ذہنیت کو بے حیائی سے
لتھڑنے کرنے کے مترادف ہے ۔ بچوں کو جنسی جذبات کی طرف مائل کرنا انتہائی
سنگین اخلاقی جرم ہے اوربچوں کی اخلاقیات پہ کھلا ڈاکا۔یہ صریحا مشرقی
خصوصاًمسلم معاشروں کو جنسی بے راہ روی کا شکار کرنے کی مذموم کوشش ہے ۔
۵)بچے اپنے قومی ابطال (National Heroes) سے بے خبر ہو جاتے ہیں اور ان کے
ذہن میں کارٹون شکل کے ہیرو سما جاتے ہیں۔وہ احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں
اور ذہنی غلامی کا دروازہ کھلتا ہے۔وہ دوسری تہذیب میں ہی فلاح اور کامیابی
تلاش کرتے ہیں اور اپنے گرد و پیش کوفرسودہ اور بیہودہ خیال کرتے ہیں ۔
۶) کارٹون کے ذریعے بڑے سرمایہ دار اپنی تشہیری مہم چلاتے ہیں ۔ ان کی
کمپنیوں کی اشیاء بچوں کے ذہنون میں انڈیل دی جاتی ہیں ۔ یہ بچے ذہنی طور
پہ اس کمپنی کے اسیر ہو جاتے ہیں اور اسی کے صارف بن کے رہتے ہیں ۔
۷)کارٹوں اور ویڈیو گیم انسان کو جانور کی شکل میں پیش کرتے ہیں ۔ اس سے
تمسخر بھی کیا جاتا ہے ۔جو بچے کارٹون دیکھتے ہیں ان کے لیے یہ کوئی بڑی
بات نہیں کہ کسی کا کارٹوں بنا دیا جائے ۔ بلکہ وہ اسے تفریح کا ساماں
سمجھتے ہیں۔ حالانکہ مغرب نے دنیا کی بڑی بڑی شخصیات کی تصاویر کو مسخ کرنے
کے لیے انکے کارٹون بنائے ہیں ۔ یہاں تک کہ انہوں نے عالی مرتبتُ یغمبروں
کو بھی نہیں بخشا۔ یہ ستم ظریفی ہے کہ ہمارے اکابریں کا تمسخر اڑایا جاتا
ہے اور ہم اسے محض تفریح کا نام دے دیتے ہیں ۔
۸) سب سے زیادہ اہم یہ ہے کہ کارٹون اور ویڈیو گیمز ان بچوں کے ذہنوں سے
رحم کا مادہ ختم کر دیتے ہیں ۔ ہمدردی اور رحم انسان کا خاصہ ہے لیکن ایک
کارٹون اتنا بے رحم ہوتا ہے کہ اپنے علاوہ وہ دوسروں کو اپنی گاڑی سے کچل
دیتا ہے کسی کو بھی فائر کرکے مار دیتا ہے پھر بھی وہ ہیرو بن جاتا ہے ۔
یہی ذہنیت بچوں میں منتقل ہو رہی ہے اور وہ انتہاء پسند اور شدت پسند ہوتے
جا رہے ۔ اگر ان بچوں کی مناسب تربیت نہ کی جائے تو یہ مستقبل میں با آسانی
دہشت گرد بن جاتے ہیں ۔
یہاں سے اہل مغرب کا دوہرا کردار سامنے آتا ہے ۔ایک طرف تو انسانی آزادی
اور انسانی حقوق کے راگ الاپتے ہیں دوسری جانب وہ اپنی پوشیدہ اور سازشی
ذہنیت کے ساتھ دنیا کو ذہنی غلام بنانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں ۔ مغربی
سرمایہ دار لالچ اور حرص میں اس حد تک اندھے ہوچکے ہیں کہ وہ تمام دنیا کے
بچوں سے سوچنے ، پرکھنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت تک کو ضبط کر لینا چاہتے
ہیں ۔ایک طرف بچوں کے حقوق کا نعرہ لگاتے ہیں تو دوسری طرف آزادئ اظہار کا
۔ جبکہ فی الحقیقت آزادئ رائے کے مورچے سے ایسا مواد نشر کرتے ہیں جو بچوں
کو ان کا ذہنی غلام بنا دے ۔ آج سے بیس یا پچیس برس پیچھے لوٹ جائیں تو
اساتذہ کرام ویڈیو گیم اور کارٹون دیکھنے کے بجائے ورزش، کھیلوں ، مطالعہ
کتب، تعمیری مشاغل اوردیگر ہم نصابی سرگرمیوں کی ترغیب دیتے جبکہ آج کے
اساتذہ بچوں کو ویڈیو گیم اور کارٹون کا مشورہ دیتے نظر آتے ہیں ۔ منطق یہ
پیش کی جاتی ہے کہ بچوں کا ذہن تیز ہوتا ہے حالانکہ وہ بدتمیزی کا مظاہرہ
کر رہے ہوتے ہیں ۔اگر ان کارٹون اور ویڈیو گیمز کا سلسلہ اسی طرح چلتا رہا
تو ایک ایسی نسل پروان چڑھے گی جو اخلاقیات سے بالکل ناآشنا ہو گی۔ انسان
تہذیب کو چھوڑ کر درندگی کی زندگی اختیار کر لے گا ۔ہر شخص مشین کی طرح ایک
ہی سسٹم سے ایک ہی جگہ سے کنٹرول ہوگا اور یہی دراصل شیطانی اور دجّالی
قوتوں کا ایجنڈا ہے۔ یہ خفیہ تنظیمیں دراصل دجال کے لیے راہ ہموار کر رہی
ہیں ۔
اس طوفان بدتمیزی سے نمٹنے کے لیے ہمارے ارباب اختیار نے کوئی کوشش نہیں کی
۔ اگر یہ کہا جائے کہ ارباب اختیار اب تک بے خبر ہیں تو یہ بے جا نہ ہو
گا۔زیادہ سے زیادہ میڈیا مالکان نے یہ کیا ہے کہ دیہاتی بچوں کو انگریزی
سمجھ نہیں آتی اس لئے ان پروگرامات کو اردو میں ڈب کر کے پیش کیا جائے ۔
لیکن انہیں خود ترجمہ کرنے کے بجائے انہوں نے پڑوسی ملک کو یہ فریضہ سونپ
دیا ہے اور پڑوسی ملک کی ہندی زبان میں وہی کارٹون اور بچوم کے پروگرامات
نشر ہوتے ہیں ۔ پہلے تو صرف اخلاقی تباہی تھی اب دشمن ملک کی زبان کو بھی
بچوں کے ذہن میں انڈیلا جا رہا ہے ۔ غرض اصلاح کے بجائے مزید تخریب کا
سامان اکٹھا کیا جا رہا ہے۔اس ضمن میں ترکی اور عرب ممالک نے اپنی زبانوں
میں کارٹون بنائے ہیں جو اخلاقیات پہ مبنی ہیں لیکن ہماری حکومتیں اور
میڈیا شاید اصلاح کا ارادہ ہی نہیں رکھتے۔وطن عزیز کی کچھ تنظیموں اور
اداروں نے اردو میں اخلاقی کارٹون پیش کیے ہیں ۔ جن میں اپنے سائنسدانوں،
مصلحین ، فاتحین اور انصاف پسند حکمرانوں کے کارنامے بیان کیے جاتے ہیں ۔
یہ ایک اچھی کاوش ہے اور تربیت کے لیے بہتر مواد بھی فراہم ہوتا ہے۔لیکن یہ
اخلاق پہ مبنی کارٹون اور گیمیں یا تو دکانوں سے خریدنے پڑتے ہیں یا
انٹرنیٹ پہ ہی دیکھے جا سکتے ہیں ۔اسی لیے تو اقبال ؒ نے فرمایا تھا
شکایت ہے مجھے یارب! خداوندان مکتب سے
سبق شاہین بچوں کودے رہے ہیں خاکبازی کا
والٹ ڈزنی اور اس کے پیش رؤوں نے جو جنگ ہم پہ مسلط کی ہے اس کا دائرہ کار
بہت وسیع ہے ۔ اس جنگ میں حتمی فتح کے لیے بہت بڑے منصوبہ عمل کی ضرورت ہے
۔ محض کارٹون اور ویڈیو گیم کو اسلامانہ بھی اسکا حل نہیں ۔غیراخلاقی و غیر
اسلامی کارٹون کا مقابلہ کرنے کے لیے اخلاقی بنیادوں پہ بنائے گئے کارٹوں
کافی نہیں ۔ اس سے بہرحال کاڑتوں کی اہمیت ختم نہیں ہوتی بلکہ جڑ پکڑتی ہے
۔ کسی ایسی ایجاد کی ضرورت ہے جو بچون اور نوجوانوں کی توجہ اللہ اور اسکے
رسول ﷺ کی جانب پھیر دے۔ اس حولے سے ہمارے اہل ذکر و فکر اور اہل ہنر ، اہل
قلم ، اہل منبر و محراب اور اہل سیاست افراد کو اس کے توڑ کے لیے کوشش کرنا
ہوگی ۔ مسلم حکومتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو تباہی کی نذر ہونے سے
بچانے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں ۔ایسے اقدامات کریں جس کی بدولت ایسی نسل
تیار ہو جو اس عالمی فتنے کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکے ۔ والدین اور اساتذہ کو
چاہیے کہ بچوں کو کارٹون ، ویڈیو گیم اور دیگر پروگرامات دیکھنے میں
رہنمائی فراہم کریں اور اخلاقیات سے بھرپور مواد تک ان کی رسائی کو یقینی
بنائیں ۔ بچوں اور نوجوانوں کو قرآن اور سنت سے مزیّن کریں ۔ نبی آخر
الزماں ﷺ نے اپنے آخری خطبے میں فرمایا تھا کہ’’ میں تم میں دو چیزیں چھوڑے
جا رہا ہوں جب تک ان سے جڑے رہو گے کبھی گمراہ نہ ہوگے۔ایک اللہ کی کتاب
اور دوسری میری سنت۔‘‘ اللہ تعالی ہماری کوتاہیوں سے درگزر فرما کر ہمیں
قران و سنت کے مطابق تعمیر انسانیت کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین۔ |
|