عمل
(Muhammad Asif Mehmood, Karachi)
جب ہم محنت کی عظمت کی بات کرتے ہیں تو اس
کا تعلق عمل سے جوڑتے ہیں۔ فطرت نے انسان کو جن قوانین کے تحت اس دنیا سے
جوڑا ہے ان میں سے شائد سب سے موثر "عمل“ ہے۔
ارسطو نے غالبا کہا تھا کہ سیاست میں عملا ًاور بذاتِ خود حصہ نہ لینا اس
بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ آپ اپنے سے نااہل شخص کو خود پر سوار کرنے کا
موقع دے رہے ہیں۔ جب اس مقولے کو ہم تھوڑے سے وسیع تناظر میں دیکھتے ہیں تو
ہمیں محنت کی عظمت اور عمل کی کارفرمائیاں ہر طرف پھیلی نظر آتی ہیں۔اہل
سیاست میں ایسی روشن ہستیاں ہیں کہ جن کو دیکھ کر ہمیں اس بات پر یقین کیے
بغیر چارہ نہیں رہتا کہ واقعی ان لوگوں نے محنت کی ہے اور آج دنیا میں اپنا
مقام بنائے بیٹھے ہیں۔ آپ ان ہستیوں کی کامیابی پر کئی حوالوں سے سوالیہ
نشان اٹھانا چاہیں تو صد ہزار بار مگر آپ کے پاس اس حقیقت کا اعتراف کیے
بنا کوئی راستہ نہیں کہ ان لوگوں نے محنت کی ہے. میاں محمد نواز شریف صاحب
ملک کے تیسری بار وزیراعظم بنے ہیں۔ آپ ان کی زندگی کا مطالعہ کیجیے یہ آپ
کے سامنے ایک زندہ مثال ہیں جنہوں نے چند دہائیوں میں ملک کا سب سے بڑا
عہدہ تیسری بار حاصل کیا ہے۔سیاسی دنگل میں انھوں نے صفر سے ابتداء کی یہ
سب ان کی شبانہ روز محنت کا نتیجہ ہے۔ یہ گھر میں نہیں بیٹھے انھوں نے خواب
بُنے نہیں خواب پورے کیے ہیں۔ خواب بُننے والوں کے لیے راتیں چھوٹی مگر اُن
کے لیے دن چھوٹے تھے کیوں کہ یہ خوابوں کی تکمیل کے لیے عمل پر یقین رکھتے
تھے۔ ایک فیکٹری سے دوسری، ایک مل سے دوسرے مل، ایک انڈسٹری سے دوسری اور
تیسری اور پھر ایک طویل فہرست ہے ان کاروباروں کی, ان انڈسٹریز کی جو نواز
شریف صاحب کی انتھک کوششوں سے لاکھوں لوگوں کو روز گار دے رہی ہیں۔ آپ آصف
علی زرداری کو دیکھیے۔ یہ دنیا میں جس حوالے سےبھی مشہور ہوں مگر کوئی بھی
صاحب فہم اس بات سےانکار نہیں کر سکتا کہ انھوں نے بھی جو چاہا حاصل کیا
پاکستان کی تاریخ کے کامیاب ترین سیاستدان جنھوں نے پہلی بار اپنا دورہ
حکومت مکمل کیا یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ یہ سب محنت کا نتیجہ تھا۔ کارزارِ
سیاست میں عمل سے ثابت کیا کہ اگر کچھ حاصل کرنا ہو تو کام کرنا پڑتا ہے
خون بہانا پڑتا ہے، جیلیں کاٹنی پڑتی ہیں تب کامیابی کا راستہ متقل سے گزر
کر تخت تک لے کر جاتا ہے۔ آپ اپنے علاقے کے ممبر قومی اسمبلی کو دیکھیے ہوں
وہ شخص ایک جنرل کونسلر سے اٹھ کر آج ملک کی اسمبلی کا ممبر ہے۔ یہ سب
انتھک محنت کا نتیجہ ہے.
یہ وہ چند مثالیں ہیں جو ہمارے سامنے موجود ہیں.
مگر ہم ان مثالوں کو ماننے سے انکاری ہیں. اس لیے نہیں کہ ان لوگوں نے جس
محنت سے اور عزم و اسقلال سے آج کامیابی حاصل کی ہمیں اس پر ااعتراض ہے,
بلکہ محض اس لیے کہ ایسی کامیابی پر تنقید اور اعتراض ہمارا قومی وطیرہ بن
چکا. ہماری تربیت کی نہج دوسروں کے اعمال سے محض یہ نتیجہ اخذ کرنے کے قابل
رہ چکی کہ فلاں شخص کامیاب ہے مگر....اس نے غیراسلامی طریقے سے سب جمع کیا.
فلاں کے پاس بڑی کار ہے اور یہ حلال طریقے سے ممکن نہیں. حالانکہ فہم
وادراک کے حامل شخص کے لیے یہی کافی تھا کہ اس نے دن رات ایک کِیا. اپنی
صلاحیت کو استعمال کِیا. مگر ہم اسی نکتے کو ہمیشہ سے سمجھنے سے قاصر رہے
کہ کیا ہم ان منفی پہلووں میں بھی کچھ مثبت نکال سکتے ہیں؟ یقیناً نکال
سکتے ہیں. مگر اس کے لیے ایک بصیرت درکار ہے, ایک عزم درکار ہے.ایسا یقین
اور اپنی زات پراعتماد درکار ہے جس سے ہم عملی زندگی میں ان قوتوں کا
مقابلہ کرسکیں جو ہم پر مسلط ہیں. حضرت امام حسین یا حسن رضی اللہ فرماتے
ہیں کہ آپ برائی کے خلاف جتنا دیر سے اٹھیں گے اتنی ہی زیادہ محنت
درکارہوگی.
آج اُس منفی محنت کے مقابل ایسی ہی محنت درکار ہے. جو ہماری معاشرتی بقا کی
ضمانت بن سکے.
جس تیزی سے ہم سیاسی ماحول کو ایسے محنت کشوں کے ہاتھ دے رہےہیں کہ بعدمیں
کفِ افسوس ملنے کےبھی روادارنہ ہوں, یہ اس بات کی غمازی ہے کہ ہم معمولی
سطح پرآچکےہیں.
اللہ رب العزت نے حضرتِ انسان کو جو ارادہ و اختیار کی طاقت بخشی ہے یہ اس
کا اعجاز ہے کہ انسان چاہے تو منفی معاملات میں بھی اپنےکمال اور جوہر دکھا
سکتا ہے اور چاہے تو اپنی محنت اور ہمت سے معاشرے میں ایک نئی طرح ڈال دے.
سیاست اسی طرز کا نام ہے جو محنت کرتا ہے پا لیتا ہے.
مجھے بتایا جارہا ہے کہ بلاول بھی محنت کررہا ہے، حمزہ شہباز بھی دن رات
ایک کر کے اس ملک کی باگ دوڑ اپنے ہاتھوں میں لینے کی کوشش میں ہے۔مریم
صفدر، مونس الہی ،گیلانی وغیرہ سب کتنے محنتی ہیں اس ملک کی تقدیر بدلنے
کو۔ تاریخ میں اپنا نام لکھوانے کو۔ اس دوڑ میں بس ایک طبقہ شامل نہیں اور
وہ عوام ہے.
سہل پسندی, حالات کی سختی سے نبرزآزمائی اور مشکل وقت میں کھڑے ہونے کی
روائت ہمارے رویوں سے مفقود ہوتی جارہی ہے. یہ اب محض اہلِ سیاست کا خاصہ
رہ چکی ہے کہ انھوں نے اپنے خواب پورے کرنے ہیں, اور خواب پورے کرنے والوں
کے لیے دن چھوٹے ہیں اور دیکھنے والوں کے لیے رات. |
|