بابا فرید کی شعری زبان کا' اردو کے تناظر میں لسانیاتی مطالعہ

بابا فرید صوفی ہی نہیں' خوش فکر' خوش بیان اور خوش زبان شاعر بھی تھے۔ ان کی سات صدیوں سے زیادہ پہلے کی زبان' آج بھی اتنی ہی' جابیت اور لسانیاتی چاشنی رکھتی ہے' جتنی اس دور میں رکھتی ہو گی۔ اس ناچیز تحریر میں' ان کی زبان کا' اردو کے لسانیاتی نظام کے تناظر میں' مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے' کہ بابا فرید کی شعری زبان' مقامی اور مہاجر الفاظ کے حوالہ سے' اس اور اس عہد کی بین الاقوامی زبان اردو سے' کس قدر قریب ہے۔

بابا صاحب کے کلام میں' بہت سے اشعار خفیف سی تبدیلی سے اردو کے حلقہ میں داخل ہو جاتے ہیں مٹلا
میں جانیا دکھ مجھی کو دکھ سبھائے جگ کو
اوپر چڑھ کے ویکھیا تاں گھر گھر ایہا اگ

میں جانیا دکھ مجھی کو دکھ سبھائے جگ کو
اچے چڑھ کے دیکھیا تو گھر گھر یہ ہی آگ
......
آپ سنواریں میں ملیں' میں ملیاں سکھ ہو
جے توں میرا ہو رہیں سبھ جگ تیرا ہو

آپ سنواریں میں ملیں' میں ملنے سے سکھ ہو
اگر تو میرا ہو رہیں سب جگ تیرا ہو
......

بعض مصرعے اردو والوں کے لیے اجنبی نہیں ہیں۔ مثلا
تپ تپ لوں لوں ہاتھ مروڑو
......
اٹھ فرید وضو ساز صبح نماز گزار
......
بےنمازا کتیا! ایہ نہ بھلی ریت
......
اپنے پریتم کے ہوں برہے جالی
......
اس اوپر ہے مارگ میرا
......
نہ کو ساتھی نہ کو بیلی
......

بعض مصرعوں کا غالب حصہ اردو سے متعلق ہے۔ مثلا

فریدا خالق خلق میں' خلق وسے رب مانہہ
......

صبر اندر صابری' تن ایویں جالیں
......

شیخ حیاتی جگ نہ کوئی تھر رہیا
......

بعض مصرعے' معمولی سی تبدیلی سے' اردو میں داخل ہو جاتے ہیں۔ مثلا
فریدا برے دا بھلا کر غصہ من نہ ہنڈھا

فریدا برے کا بھلا کر غصہ من نہ پال
......
جاگنا ای تاں جاگ فریدا' ہوئی آ ای پربھات

جاگنا ہے تو جاگ فریدا' ہو گئی ہے پربھات
......
پہلے پہر پھلڑا' پھل وی پچھا رات

پہلے پہر پھلڑا' پھل ہوا پچھلی رات
......
فریدا خالق خلق میں' خلق وسے رب مانہہ

فریدا خالق خلق میں' خلق بسے رب میں
......

بابا صاحب کے ہاں' مہاجر مستعمل الفاظ ہی نہیں' اردو کے مقامی الفاظ بھی بڑی روانی سے استعمال میں آئے ہیں۔ مثلا
آپ' اتار' اٹھائی' بیڑی' بھلی' پاس' پانی' پرائی' تن' تھوڑا' ٹھنڈا' جا' جگ' جو' جی' چھیڑی' دودھ ' دھن' رہی' سو' کوئی' کے' کھا' کبھی' گئی' گھر' لکھ' مت' میرا میری' میں' نہ

دیوناگری خط والوں کے بہت سے الفاظ بابا صاحب کے ہاں استعمال ہوئے ہیں اور یہ ہندو عقیدہ رکھنے والوں کے ہاں عام استعمال میں آتے ہیں تاہم اردو والوں کے لیے بھی اجنبی نہیں ہیں۔ مثلا
آسن' بھاگ' پربھات' پربھو' پریتم' پریت' چت' دھرم' سادھ ' سمھار' سوہاگنی' سہاگن' کالی' کرپا' مارگ' ماس' نانک

بابا صاحب کے ہاں اردو مصادر کا استعمال ملاحظہ فرمائیں۔ مثلا
جاگنا: جاگنا ای تاں جاگ فریدا' ہوئی آ ای پربھات
جانا : جے جانا مر جایئے گھم نہ آئیے

بابا صاحب کے ہاں'اردو مصادر کی مختلف حالتیں' پڑھنے کو ملتی ہیں۔
اٹھانا: بنھ اٹھائی پوٹلی' کتھے ونجاں گھت
آنا' جانا: جے جانا مر جایئے گھم نہ آئیے
جانا: رہی سو بیڑی ہنگ دی' گئی کھتوری گندھ
کتی جوبن پریت بن سک گئے کملاء
رہنا: جے توں میرا ہو رہیں سبھ جگ تیرا ہو
کھانا: کاگا کرنگ ڈھنڈلیا سگلا کھایا ماس
سہنا: جالن گوراں نال اولاہمے جیا سہے
ہونا: بادل ہوئی سو شوہ لوڑو

اردو میں پکارنے یا مخاطب کرنے کے لیے' آخر میں الف ا بڑھا دیا جاتا ہے۔ بابا صاحب کے ہاں یہ ہی چلن پڑھنے کو ملتا ہے۔ مثلا
بےنمازا کتیا! ایہ نہ بھلی ریت

مترادف الفاظ کا استعمال ملاحظہ ہو. یہ مرکب اردو والوں کے لیے قابل تفہیم ہیں۔
اٹھ فرید وضو ساز صبح نماز گزار

وضو ساز
وضو سازنا' وضو بنانا کے مفہوم میں

نماز گزارنا: نماز ادا کرنا' پڑھنا کے مفہوم میں۔ نماز گزارنا اردو میں عام استعمال کا مہاورا ہے۔

وضوساجنا' وضو بنانا' وضو سجانا' وضو کرنا وغیرہ بھی اردو میں مستعمل ہیں۔

اسم اور صفتی سابقوں' جو باقاعدہ لفظ ہیں' سے ترکیب پانے والے یہ مرکبات' اردو والوں کے لیے ناقابل فہم نہیں ہیں۔
بھلی ریت: بےنمازا کتیا! ایہ نہ بھلی ریت
ٹھنڈا پانی: رکھی سکی کھاء کے ٹھنڈا پانی پی
پچھلی رات: پچھلی رات نہ جاگیوں جیوندڑو مویوں
دور گھر: گلیں چکڑ' دور گھر' نال پیارے نیہہ
کالی کوئل: کالی کوئل تو کت گن کالی
جھوٹی دنیا: جھوٹی دنیا لگ نہ آپ ونجائیے

اسم اور صفتی لاحقوں' جو باقاعدہ لفظ ہیں' سے ترکیب پانے والے یہ مرکبات' اردو والوں کے لیے ناقابل فہم نہیں ہیں۔
عقل لطیف: جے عقل لطیف کالے لکھ نہ لیکھ
در درویشی: در درویشی گا کھڑی' چلاں دنیا بھت

اب کچھ تشبہی مرکبات ملاحظہ فرمائیں۔ یہ اردو والوں کے لیے نئے نہیں ہیں۔
تن سمندر: تن سمندر' ار لہر' ار تارو تریں اینک
تن سکا پنجر: تن سکا پنجر تھیا تلیاں کونڈن کاگ
تن تپے تنور: تن تپے تنور جیوں بالن ہڈ بلن

اردو میں جمع بنانے کے لیے' زیادہ تر یں' یوں اور یوں کے لاحقے استعمال میں لائے جاتے ہیں۔ بابا صاحب کے ہاں بھی جمع بنانے کے لیے ان لاحقوں کا استعمال ہوا ہے۔ مثلا
یاں
بجلی سے بجلیاں: کنک کونجاں' چیت ڈوہنہہ' ساون بجلیاں
پنکھ سے پنکھیاں: ہوں بلہاری تنھاں پنکھیاں جنگل جنھاں واس
مٹھی سے مٹھیاں: سبھو وستو مٹھیاں' رب نہ پچن تدھ
ماڑی سے ماڑیاں: کوٹھ منڈپ ماڑیاں ایت نہ لائیں چت
محل ماڑیاں عام استعمال کا مرکب رہا ہے۔
یں
کجھور سے کجھوریں: رب کجھوریں پکیاں ماکھیا نئیں دہن
مسجد سے مسجدیں: امید مسجدیں ابو تھیاں' اکھاں رب سوار

بے' نفی کا سابقہ ہے اور اردو میں عام استعمال ہوتا ہے۔ بابا صاحب کے ہاں' اس سابقے کا استعمال اردو کا چلن رکھتا ہے۔
بےنمازا کتیا! ایہ نہ بھلی ریت
نانک سو سوہاگنی جو بھاوے بےپرواہ

اردو کا معروف لاحقہ گزار بابا صاحب کے ہاں کچھ اس طرح سے استعمال ہوا ہے۔
اٹھ فرید وضو ساز صبح نماز گزار
یہاں گزار' پڑھ کے معنوں میں استعمال ہوا

کیا خوب صورت مصرعے ہیں۔ فاعل اور فعل کا فطری استعمال' دیکھیے۔ اردو' عربی اور فارسی کا' یہ ہی چلن ہے۔
فریدا خالق خلق میں' خلق وسے رب مانہہ

فریدا خالق خلق میں' خلق بسے رب میں
......
صبر اندر صابری' تن ایویں جالیں

صبر اندر صابری' تن یوں ہی جالیں

بابا صاحب کا استعارتی طرز تکلم خوب ہے' اردو والوں کے غیرمانوس نہیں۔
فریدا من میدان کر ٹوئے ٹبے لاہ
اگے مول نہ آؤ سی دوزخ سندی بھا

بابا صاحب کے ہاں استعمال ہونے والی تلمیحات' زیادہ تر مہاجر اور اردو میں مستعمل الفاظ پر مشتمل ہوتی ہیں۔ مثلا
اٹھ فرید وضو ساز صبح نماز گزار
اگے مول نہ آؤ سی دوزخ سندی بھا
زمی پچھے اسمان فریدا' کھیوٹ کن گئے
جالن گوراں نال اولاہمے جیا سہے
تیں صاحب کی میں سار نہ جانی
بولیئے بیچ دھرم' جھوٹھ نہ بولیئے
شیخ حیاتی جگ نہ کوئی تھر رہیا
فریدا درویشی گا کھڑی' چوپڑی پریت
امید مسجدیں ابو تھیاں' اکھاں رب سوار

اردو میں مونث بنانے کے لیے' آخر میں چھوٹی یے ی کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ ہی طور' بابا صاحب کے کلام میں ملتا ہے۔
کمبلی: بھجو سجو کمبلی الله ورسو مینہ
کالی: کالی کوئل تو کت گن کالی
اکیلی: ودہن کھوہی مند اکیلی

اردو میں مذکر بنانے کے لیے' آخر میں الف ا کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ ہی طور' بابا صاحب کے کلام میں ملتا ہے۔
پھلڑا: پہلے پہر پھلڑا' پھل وی پچھا رات
جاگدا: تو ستا رب جاگدا تیری ڈاہڈے نال پریت

بابا صاحب کے ہاں تکرار لفظی و حرفی اردو سے الگ تر انداز و رویہ نہیں رکھتا۔ مثلا

فریدا خالق خلق میں' خلق وسے رب مانہہ

تپ تپ لوں لوں ہاتھ مروڑو

کالی کوئل تو کت گن کالی

جو جو ونجے ویڑا سو عمر ہتھ پون

آپ سنواریں میں ملیں' میں ملیاں سکھ ہو
......
جے عقل لطیف کالے لکھ نہ لیکھ

رکھی سکی کھاء کے ٹھنڈا پانی پی

نہاتی دھوتی سنبی' ستی آء نچند

کچے بھانڈے رکھیئے کچرک تائیں نیر

بابا صاحب کے کلام میں' ہم صوت الفاظ کا استعمال' کمال ہنرمندی سے ہوا ہے۔ یہ رویہ' اردو شعر وسخن میں بھی ملتا ہے۔
ودہن کھوہی مند اکیلی
نہ کو ساتھی نہ کو بیلی

بھجو سجو کمبلی الله ورسو مینہ

رکھی سکی کھاء کے ٹھنڈا پانی پی

نہاتی دھوتی سنبی' ستی آء نچند

ایک ہی مصرعے میں متضاد لفظوں کا استعمال ملاحظہ فرمائیں۔
فریدا برے دا بھلا کر غصہ من نہ ہنڈھا

زمی پچھے اسمان فریدا' کھیوٹ کن گئے

بابا صاحب کی زبان کا مہاورہ ملاحظہ ہو:
پوٹلی اٹھانا: بنھ اٹھائی پوٹلی' کتھے ونجاں گھت
مان کرنا: جے جاناں شوہ نڈھڑا تھوڑا مان کریں

دوسری زبان کا لفظ' اپنا کرنے کے حوالہ سے' زبانوں میں آوازوں کا تبادل بڑی عام سی بات ہے۔ یہ معاملہ بول چال اور عمومی لہجہ اور چلن سے تعلق کرتا ہے۔ بابا صاحب کے ہاں' اس کی مثالیں ملتی ہیں۔ مثلا آواز ب کی متبادل آواز و ہے جیسے بےچارہ' .... پرانی تحریر میں بیچارہ.... سے وچارہ' بردان سے وردان' بدوا سے ودوا وغیرہ۔ بابا فرید صاحب کے ہاں یہ تبادل پڑھنے کو ملتا ہے۔
گریباں سے گریواں
گریواں: اپنے گریواں میں سر نیواں کر ویکھ

راجھستانی اور میواتی میں ا اور ہ کو و میں بدلنے کا چلن ملتا ہے۔ حالاں کہ ان میں الف موجود ہے ہاں حائے مقصورہ ہ نہیں جس کا تبادل واؤ و استعمال ہوتا آ رہا ہے جیسے
انڈا سے انڈو یا حوصلہ سے ہونسلو
بابا صاحب کے ہاں بھی یہ طور ملتا ہے۔

بھجو سجو کمبلی الله ورسو مینہ
برس سے ورس

ورسو: برسایا

بے ب کا واؤ و میں تبادل ملاحظہ ہو

ہوں بلہاری تنھاں پنکھیاں جنگل جنھاں واس
باس سے واس
جنگل باس سے جنگل واس
جنگل باسی سے جنگل واسی

دال د کا تبادل و
اجے سو رب نہ بوہڑیو ویکھ بندے کے بھاگ
دیکھ سے ویکھ

دال د کا تبادل ت
تو ستا رب جاگدا تیری ڈاہڈے نال پرییت
جاگتا سے جاگدا

آ کا تبادل ا: زمی پچھے اسمان فریدا' کھیوٹ کن گئے
آسمان سے اسمان

زبانوں میں آوازیں گرانا اور بڑھانا' عام سی بات ہے۔ مثلا واؤ کی آواز گرا کر' لفظ کا استعمال ملاحظہ ہو۔
رکھی سکی کھاء کے ٹھنڈا پانی پی
معمولی سی تبدیلی سے یہ مصرع اردو میں ڈھل سکتا ہے۔
روکھی سوکھی کھا کر ٹھنڈا پانی پی

رکھی سکی کھا کے ٹھنڈا پانی پی
بھی اجنبی نہیں

واؤ کی آواز گرا کر' لفظ کا استعمال ملاحظہ ہو
جاں کواری تاں چاؤ وداہی تا ماملے
ن کی آواز گرائی گئی ہے
کنواری سے کواری
ع کی آواز گرائی گئی ہے
معاملے سے ماملے

وہ سماج سے گہرا رشتہ رکھتے ہیں' تبھی ان کے قلم سے اس نہج کے شعر نکلتے ہیں۔ یہ شعر فصاحت و بلاغت کا عمدہ نمونہ ہی نہیں' اس کا مزاج بھی اردو کے قریب تر ہے۔
میں جانیا دکھ مجھی کو دکھ سبھائے جگ کو
اچے چڑھ کے ویکھیا تاں گھر گھر ایہا اگ

عقیدہ وحدت الوجود سے متعلق' اس شعر کو دیکھیں اور خواجہ درد صاحب کے شعری اسلوب کا' مطالعہ فرمائیں۔
آپ سنواریں میں ملیں' میں ملیاں سکھ ہو
جے توں میرا ہو رہیں سبھ جگ تیرا ہو

شخص اپنا مقدر خود بناتا ہے' اس نظریے کے تحت' یہ شعر قابل توجہ ہے۔ اس شعر کا شعری اسلوب و مزاج' اردو کے قریب تر ہے۔
جے عقل لطیف کالے لکھ نہ لیکھ
maqsood hasni
About the Author: maqsood hasni Read More Articles by maqsood hasni: 184 Articles with 211056 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.