ممتاز حسین قادری
(Shahzad Saleem Abbasi, )
ہر طرف ہو کا عالم تھا ، سناٹا ہر سو چھایا
تھا، کسی کو پولیس کا خوف تو کسی کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کا رعب،
کوئی میڈیا سے خوف زدہ تو کوئی باس کی سبکی سے پریشان، کوئی گوں مگوں کی
کیفیت میں تو کوئی غم سے نڈھال ، کوئی دیوانہ وار نعرہ تکبیر بلند کررہا
تھا تو کوئی پشیمانی سے سر جھکائے کھڑا تھا،میڈیا کے کچھ لوگ تائب تھے اور
رجوع الیٰ اﷲ نظر آرہے تھے لیکن کچھ کم بخت شاید پھربھی اپنے اسلام دشمن
موقف پہ کاربند تھے۔ معاملہ شہید کربلا کا نہیں تھا ، طائف کی وادیوں میں
پتھر کھانے والا کا قصہ نہیں تھا، انبیاء کرام کو آروں سے چیرنے کا نہیں
تھا،غازی علم الدین کا قصہ نہیں تھا نہ ہی کسی فلسطینی، عراقی، کشمیری شہید
کی خبر تھی ، کسی سیاسی و دینی شخصیت کی میت پہ نوحہ کناہی نہیں تھی بلکہ
بریکنگ نیوز پروانہ مصطفیٰ محمد عربی ﷺ کے شیر کی شہادت کی نوید تھی جس نے
اسلام کے نام پر اٹھنے والی ہر آواز کو دباتے ہوئے جان کا نظرانہ پیش کیا
تھا ، شانِ رسالت پر مر مٹنے والے اور بغیر کسی ڈر اور خوف کے شہادت کو گلے
لگانے والے کاذکر تھا، اپنے ایک بھائی، بوڑھے والد ، ننھے بیٹے اور بیگم کے
درد کو ایک طرف رکھ کر محمد کے نام پر جان کی بازی لگانے والے کاذکر تھا،
ذکر تھا تو کروڑوں دلوں کی دھڑکن ممتاز قادری شہیدؒ کی شہادت کا ذکر تھا ۔
دینی جما عتوں کے لوگ بھی ایک صفحہ پر نظر آرہے تھے۔ امیر جماعت اسلامی
سراج الحق سمیت دینی و مذہبی جماعتو ں کے اکابرین جمع تھے، ہر طبقہ فکر ،
ہر مکتب فکر اور مسلک والا عشقِ رسول سے سرشار ممتاز قادری شہیدؒ کا جنازہ
پڑھنے کے لیے بیتاب تھا۔ نمازی صبح کی نماز پڑھ کر عید جیسی تیاریوں میں
مصروف اور کمربستہ تھے،جو بے نمازی تھے وہ بھی ایک جذبہ اپنے اندر موجزن
کیے بیٹھے تھے، گھر کی عورتیں ، مائیں ، بہنیں ، بیٹیاں سب کی ایک ہی خواہش
تھی کہ شہیدِ اڈیالہ جیل کا جنازہ میں شرکت کی جائے! کیا یہ جسارت جذ بے سے
پھرپور جسارت نہیں!
دوسری جانب حکومتی اقدامات نے رات بھر سے ہی پنڈی اسلام آباد کے اندونی و
بیرونی راستے سیل کر دیے ، تمام راستوں ، چوکوں ، چوراہوں اور لیاقت باغ
اور ممتاز حسین قادریؒ کے گھر جانے والی ہر سڑک اور گلی کو کو کنٹینرز ،
ٹرکوں اور ٹرالوں کی مدد سے بند کر دیا گیا،پولیس کے چاق وچوبند دستے جنازہ
گاہ کی طرف روانہ تھے، مختلف عمارتوں پر سکیورٹی اہلکار تعینات کیے جاچکے
تھے ، ہیلی کاپٹرز گشتی عمل میں مصروف تھے ۔ہر شاہراہ اور محلہ خوشبوؤں سے
مہک رہا تھا، عاشقانِ مصطفیٰ ہر لمحہ و لحظہ درود شریف پڑھ رہے تھے ، نعتوں
کا سلسلہ جاری و ساری تھا اور ممتاز قادری تیرے جانثار بے شماربے شمار کے
فلک بوس نعرے گونج گونج کر اسے سلام عقیدت پیش کر رہے تھے، ہر آنکھ اشکبار
اور ہر دل لہو لہو، ہر چہرہ اداس اور ہر شخص عجیب کیفیت سے دوچار تھا کہ
آخر ممتاز قادریؒ کا قصور کیا تھا، انکو پھانسی کیوں کر دی گئی!حکومت نے
ایک غلطی تو یہ کی ممتاز قادریؒ کو بلا وجہ اور بے وقت پھانسی دی جبکہ
اسلام آباد ہائیکورٹ نے ممتاز قادری پر سے دہشت گردی کی دفعات ختم کر دیں
تھیں اور سپریم کورٹ نے بھی تو اسے قانون کی سزاقرادیا تھا اور کہا تھا کہ
شریعت کی روشنی میں تویہ قتل کی سزا نہیں بنتی ! بہرحال حکومت گناہوں کی
گنگا میں مسلسل غوطے مار مار کے نہا رہی ہے ۔ اور وزیر اطلاعات و نشریات کا
اس نازک موڑ پہ بیان دینا کہ" ممتاز قادری کو سزا عدلیہ نے دی اور یہی
قانون کی پاسداری ہے" وقت کی نزاکت نہیں تھی۔ اس موقع پر لوگوں کا سوال بہت
معنی خیز ہے کہ لگتا ہے کہ پاکستانی عدلیہ کا نظام بے معنیٰ ہو کر رہ گیا
ہے کہاگرکسی قاتل کو معاف کرانا ہو ! کسی پہ قتل کا جھوٹا مدعا ڈالنا ہو!
آئینی شکنی یا پچیدہ قانونی مسئلے کا کوئی دو نمبر حل نکالنا ہوتو فٹ سے حل
نکلتا ہے۔ سوال ہے کہ سول عدالتوں میں سزاؤں پہ عمل درآمد نہ ہونے کیوجہ سے
ممتاز قادری کا کیس فوجی عدالتوں میں ریفر کیا گیا اور سزا ممکن ہوئی تو
پھر ہزاروں قتل وغارت گری، ملک سے غداری سمیت دیگر جرائم میں ملوث مجرموں
کا ٹرائل بھی تو فوجی عدالتوں میں ہونا چاہیے،جیسے شاہ زیب خان کے قاتل
شارخ جتوئی کا کیس، زین قتل پر مصطفٰی کانجو کا کیس، قصور میں دو سو بچوں
سے بدفعلی کرنے والے ایم پی اے کا کیس، 11 فروری والا کیس، کراچی بلدیہ
فیکٹری والاکیس، الطاف حسین کے خلاف ملک دشمنی کا کیس !! اگر یہ سب مقدمے
اور کیسز ٹرائل نہیں ہو سکے تو ممتاز قادریؒ کا کسی اتنا جلدی کیسے ٹرائل
ہوا!! کیا یہ سوال کرنا عوامی کچہری کی کھلم کھلا جسارت نہیں!
مسئلہ یہ نہیں کہ ممتاز قادری ؒ کی پھانسی رک جاتی تو شاید عالمِ اسلام کی
بقاء ممکن ہو جاتی! کفر کا چہرہ مٹی میں مل جاتا ! اسلام کا نفاذ ہو جاتا
!دین محمد پہ عمل ہو جاتا!تمام گستاخانِ رسول واصلِ جہنم ہو جاتے!اتحاد امت
بین المسلمین قائم ہو جاتا!اسلام کے چاہنے والے کروڑوں اربوں دیوانے ایک ہو
جاتے!اسلامی طاقتیں اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرلیتں!محمدﷺکے اقوال و
افعال، عادات و اطوار، اخلاقیات و طریقت پر عمل ہو جاتا!ہم عالم اسلام کے
سب سے بڑے دشمن اور ناسور کو شکستِ فاش سے دوچار کر لیتے!ہاں اسلام کی
روشنی سکھاتی ہے کہ گستاخ رسول ﷺ کو سزائے موت دو لیکن کیا گستاخِ رسول کو
سزا ینا کافی ہے!کیا نبی مہربانﷺ نے امت کو اتحاد کا درس نہیں دیا! کیا
نبیﷺنے اخلاقیات کی تعلیم نہیں دی!کیا بنیﷺ نے چھوٹے سے شفقت اور بڑے کے
احترام کی تلقین نہیں کی! نبی مہربان نے اسلام کو مشعلِ راہ بنانے کا حکم
نہیں دیا! ممتاز قادریؒ کے جنازے میں نبی ﷺ سے محبت کرنے والے ہزاروں
لاکھوں فرزندان ِ اسلام نے شرکت کی اور اس جنازے میں پاکستان بھر سے رنگ
برنگے گروہوں، مختلف ذاتوں اور مختلف مکتبوں سے تعلق رکھنے والوں نے شرکت
کی ، زیادہ کا تعلق بریلوی مکتبِ فکر سے تھا ، نقشبندی، عطاری، قادری،
چشتی، سہروردی ، غرض ہر طرح کے لباس اور جبوں قبوں والوں نے شرکت کی لیکن
ان لوگوں سے پوچھئے کہ کیا کبھی اسلام کی حقیقی آواز کی خاطر سڑکوں پر
آئے۔دیوبند حضرات نے ممتاز قادریؒ کے معاملے پر انکا ساتھ نہیں دیا بلکل
اسی طرح جس طرح بریلوی حضرات کے کسی ایک عالم دین نے بھی لال مسجد آپریشن
میں دیوبند کا ساتھ نہیں دیا۔ یہی مسئلہ دیوبندی حضرات کے ساتھ ہے وہ بھی
ایک خاص مقصد کئے لیے نعرہ بازی کرتے ہیں اور بس دو چار سیٹیں ملنے پر
خاموش ہو جاتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے اپنے مسلک ، مسجد اور مکتب کے پجاری لوگ
ہیں جنہیں بس اپنی مسجد، مدرسہ اور اسکے انتظام و انصرام سے غرض ہے۔ اس سے
اوپر کا سوچنا ان مسلکوں کے بس کی بات نہیں۔کیا مسالک کو بالائے طاق رکھ کر
سوچنے کی جسارت کرنا ان مولانا حضرات اور اسلام کے چاہنے والوں کا کام
نہیں!!
یہ سڑکوں پر نعرے لگانے والی عوام بھولی بھالی ہے اور تین دن کے بعد ویسے
ہی اس مسئلے کو بھول جائے گی ، لہذا سراج الحق اپنی کرپشن فری مہم کی طرف
توجہ دیں ، باقی اس بے حس قوم کا اﷲ حافظ و ناصر |
|