سکول کو تالا

بورے والا کے ایک گاؤں کے پرائمری سکول کی دواستانیاں آپس میں الجھ پڑیں، پہلے تُو تُو میں میں ہوئی، پھر بات طعن وتشنیع تک پہنچی اور آخر میں نوبت ہاتھا پائی تک آگئی۔ استانیوں نے یہ منظر بچیوں کے سامنے ہی پیش کیا، کیونکہ ان کے اکٹھے ہونے کا مقام یہی ایک سکول ہی تھا، ورنہ گھر وں میں ان کا اکٹھا ہونا مشکل تھا۔ بچیاں اس صورت حال کو دیکھ کر گھبر اگئیں، تاہم ان میں سے ایک نے بچیوں کو چھٹی کرکے گھر وں کو جانے کی رخصت بِلا درخواست عنایت فرما دی۔ ظاہر ہے دیہاتی سکول تھا، بچیاں خود ہی قرب وجوار میں واقع گھروں میں پہنچ گئیں۔ استانی صاحبہ نے سکول کو تالا لگایا اور وہ بھی گھروں کو چلی گئیں۔ اگلی صبح جب بچیاں سکول آئیں تو سکول کو تالا لگا دیکھ کر واپسی کے علاوہ ان کے پاس کوئی راستہ نہ تھا، تاہم تیسری استانی پہنچی (ظاہر ہے وہ تاخیر سے ہی آئی ہوگی) تو گیٹ پر لگے تالے نے اسے بھی پریشان کردیا، تاہم سرکاری ملازمت کے دباؤ کی وجہ سے موصوفہ نے ساتھ والے بوائز پرائمری سکول میں بیٹھ کر چھٹی کے وقت کا انتظار کیا۔ بتایا گیا ہے محکمہ تعلیم کے ضلعی افسران کو اس تالہ بندی کی اطلاع کردی گئی۔ وجہ اس تالا بندی کے پیچھے لڑائی کی یہ بتائی جارہی ہے کہ ان دو میں سے ایک استانی نے روزانہ دو بچیوں کی ذمہ داری لگا رکھی تھی کہ وہ باری بدل بدل کر استانی کے گھر کا کام کیا کریں۔ یہ سلسلہ جاری تھا، اس استانی کا دیگر کے ساتھ روزانہ ہی جھگڑا رہتا تھا۔ اگرچہ والدین پہلے ہی اس صورت حال سے پریشان تھے، مگر تالا لگنے پر انہوں نے بھی شدید غم وغصے کا اظہار کیا۔

یہ خبر اگرچہ بذاتِ خود بھی بہت اہم اور دلچسپ ہے، مگر ایسے وقت میں جب حقوق نسواں بل کو پنجاب اسمبلی سے پاس ہوئے ابھی تین روز بھی نہیں ہوئے، بلکہ گورنر صاحب نے آج ہی اس بل پر دستخط ثبت فرما کر اس کی حتمی منظوری دی ہے۔ ایسے میں دو خواتین کی لڑائی اور تالا بندی کے معاملات نے نئے سوالات کھڑے کردیئے ہیں۔ اگرچہ استانیوں کی یہ لڑائی کارِ سرکار میں مداخلت کے زمرے میں بھی آتی ہے، کیونکہ سرکاری عمارت کو تالا لگا دینابھی ایک جرم ہے، اس کی سزا جو بھی ہوگی وہ تو استانیاں بھگتیں گی، مگر قابلِ غور بات یہ ہے کہ آیا قوم کی یہ خواتین معمار پنجاب اسمبلی میں منظور ہوجانے والے بل کے کسی ضمن میں آتی ہیں یا نہیں؟ اگر ایک خاوند اپنی بیوی کو ڈانٹے، یا اس پر ہاتھ اٹھائے، یا اس کا معاشی استحصال کرے، تو اس کو عورت کی شکایت پر عدالت کے سامنے پیش ہونا پڑے گا، اگر وہ مندرجہ بالا جرائم میں سے کسی کا مرتکب ہوا ہے تو اسے گھر سے بے دخل کردیا جائے گا، (تاہم یہ کام عورت کے ساتھ نہیں ہوگا)مرد کو گھر سے نکالتے وقت اس کے ہاتھ کی کلائی میں ایک عدد ٹریکنگ کڑا بھی پہنایا جائے گا، تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ وہ گھر سے نکالے جانے کے بعد کہاں جاتا ہے، اس کی سرگرمیاں کیا ہیں، اور وہ کس سے مشاورت کرتا ہے جس کے نتیجے میں اپنی بیوی پر ظلم ڈھاتا ہے؟

اگرچہ یہاں بھی ’’نسواں‘‘ کے حقوق ہی مجروح ہوئے ہیں، ہاتھا پائی بھی خواتین میں ہی ہوئی ہے، مگر یہاں معاملہ مختلف ہے، کہ ستم ڈھانے والا مرد نہیں تھا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر مرد عورت پر ہاتھ اٹھائے تو قابلِ گرفت ہے، اور اگر عورت عورت پر ہاتھ اٹھائے تو اس سلسلے میں قانون خاموش ہے۔ امید ہے کہ اس واقعہ کے بعد پنجاب اسمبلی کے اگلے اجلاس میں حقوق نسواں بل میں مزید ترمیم کروا دی جائے گی۔ کام آسان اس لئے ہے کہ رہنمائی کے لئے ایک بل پہلے سے موجود ہے، اسی میں نام پتہ تبدیل کرکے اسے قابلِ عمل بنا دیا جائے گا، بس اضافہ اس قدر ہوگا کہ مرد کی بجائے اگر کوئی خاتون بھی دوسری پر تشدد کرے تو اسے بھی وہی سزا دلوائی جائے جو مردوں کو دی جانی ہے۔ یہ بھی کہ بس چند لاکھ روپے کے خرچ پر ایک روز کے لئے اجلاس بلایا جاسکتا ہے، کورم وغیرہ تو پہلے بھی کم ہی پورا ہوتا ہے۔ مگر اس میں ایک اور قباحت آجائے گی، وہ یہ کہ اگر کسی عورت کو سزا ہوگئی تو اس کے تحفظ کے لئے کونسا قانون سامنے آئے گا، خیر اس اہم معاملہ کے لئے بھی اسمبلی غور کرسکتی ہے، اور اسمبلی میں موجود خواتین سے مشورہ کرسکتی ہے کہ آیا خواتین کی آپس کی لڑائی میں قانون کو حرکت میں آنا چاہیے، یا خواتین کا احترام کرتے ہوئے برداشت سے ہی کام لینے کی ہدایت کردی جائے گی۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 429823 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.