ایم کیو ایم کے سابق مرکزی رہنماء اور
کراچی کے سابق ناظم مصطفے کمال کی جانب سے جمعرات کو ہونے والی پریس
کانفرنس اِس تناظر میں ایک اہم پیش رفت ہے کہ الطاف حسین کی جانب سے جس طرح
پاکستان اور پاکستانی فوج کے خلاف انتہائی نفرت انگیز گفتگو ہوتی رہی ۔پھر
تاریخ میں پہلی مرتبہ الطاف حسین کی تقاریر پر پابندی حتیٰ کہ اُن کی پرنٹ
میڈیا پر اشاعت پر بھی پابندی لگ گئی۔ اور پھر یوں مصطفی کمال کی جانب سے
رو رو کر وہی باتیں کیے جانا جس کو ساری دُنیا برسوں سے جانتی ہے اور
پاکستان کے پرچم کو لہر ا کر یہ کہنا کہ یہ ہمارا پرچم ہے اور یہ پرچم
ہماری پارٹی کا بھی ہے۔ اِس سے یہ بات ظاہر ہورہی ہے کہ قومی سیاسی منظر
نامہ تبدیل ہونے کی طرف جار ہا ہے۔افتخار چوہدری کے بعد اب مصطفے کمال کی
جانب سے صدارتی نظام کی حمایت کا مطلب یہ ہی ہے کہ مقتدری قوتیں اب پی ایم
ایل این اور پی ٹی آئی سے راضی نہیں ہیں اور پاکستانیات کا نام لے کر ایک
نیا قومی منظر نامہ تشکیل دیا جارہا ہے۔جس انداز میں الطاف حسین نے کراچی
میں دہشت پھیلا رکھی ہے اِن حالات میں مصطفی کمال کا کراچی آکر بیٹھ جانا ۔مطلب
یہ ہی کہ الطاف کا سورج غروب ہونے کو ہے۔ اور ایک نئی ایم کیو ایم تشکیل
پائی جانے کو ہے ۔ اب ہر روز مصطفی کمال کوئی نہ کوئی نیا بیان دیں گے اور
آہستہ آہستہ پارٹی کے مزید لوگ بھی اِن کے ساتھ ملتے چلے جائیں گے۔مصطفےٰ
کمال کی اِس پریس کانفرنس کو اِس تناظر میں دیکھنا چاہیے کہ خطے میں چین کی
موجودگی اور امریکی بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ کے حوالے سے پاکستان کے مقتدرہ
حلقے اِس وقت جنگ عضب کی تکمیل میں مصروف ہیں۔ راہداری منصوبہ، کراچی میں
امن اِس وقت پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔ممتاز قادری کی
شہادت نے ملک میں بہت زیادہ بے چینی پیدا کردی ہے۔ اِس وقت جنگ عضب آخری
مراحل میں تھی۔اِس کیس کو دوسرئے کیسوں کی طرح التوا میں ڈال دیا جاتا ہے
تو کون سی قیامت آجاتی ہے۔حکومت کی گرفت پہلے ہی حالات پر کمزور ہے۔ جنرل
راحیل شریف کی موجودگی میں پاکستان کے حالات بہت بہتر ہوتے جارہے ہیں۔ ایم
کیو ایم کے کسی بھی لیڈر کی جانب سے اِس طرح نئی پارٹی بنانے کی بات سے
لگتا یہ ہی ہے کہ الطاف حسین اب پاکستانی سیاست سے فارغ ہیں۔ اُن کی ذہنی
حالت بھی ایسی ہے کہ اُن کو فارغ ہوجانا چاہیے اور کراچی کے حالات کو
پُرامن روش پہ ڈال دینا جنرل راحیل شریف کی بہت بڑی حکمت عملی ہے۔اب آتے
ہیں مصطفےٰ کمال کے الفاظ کی طرف۔،مصطفی کمال نے اس موقع پر اپنی نئی سیاسی
پارٹی بنانے کا اعلان کیا اور پاکستانی پرچم کو ہی پارٹی پرچم قرار دیتے
ہوئے کہا کہ ہم ٹکڑوں میں بٹے پاکستان کو جوڑنے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ
پاکستان بہت ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا ہے میں پاکستان کے پرچم کے رنگ نکال کر اس
جھنڈے کو مدھم نہیں کرنا چاہتا اس جھنڈے کو ماننے والا ایک ایک انسان چاہے
وہ کسی مذہب یا مسلک یا پارٹی کا فرد ہو اس کو ماننا ہمارا فرض ہوگا۔
پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں بھی ہم بٹے ہوئے ہیں اور مملکت کے
سربراہ کہیں بھی بیرون ملک جاتے ہیں تو پاکستانیوں سے نہیں بلکہ اپنی پارٹی
کے لوگوں سے مل کر آجاتے ہیں ہم یہاں بیٹھ کر انڈیا سے مذاکرات کرنے کیلئے
پوری دنیا میں لابنگ کرتے ہیں لیکن اپنے ملک میں ہم ایک دوسرے سے بات نہیں
کرتے، ایک پارٹی دوسری پارٹی سے ایک مسلک دوسرے مسلک سے بات نہیں کرتا ہم
توڑنے نہیں جوڑنے آئے ہیں،۔ایک لحاظ سے یہ مصطفےٰ کمال کی یہ بات واضح کرتی
ہے کہ پاکستان کے مقتدرہ حلقے اب ملک کے خلاف ہونے والی الطاف حسین کی
بکواس کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اِس لیے وطن سے محبت کو ایک اہم
عنصر کے طور پر مصطفےٰ کمال کی پریس کانفرنس میں پیش کیا گیا ہے۔ یقینی طور
پر جنرل راحیل شریف ایک عظیم سپاہی ہیں۔اِن کے دور میں ملک کو نئی زندگی
ملی ہے۔ یوں ملک کے حالات معاشی سماجی طور پر بہت بہتری کی طرف آئندہ دس
سالوں تک ہوں جائیں گے۔ اِس کے لیے جنرل شریف کو اﷲ پاک نے یہ رستہ دیکھا
یا ہے کہ وہ ملک کو گدھ کی طرح نوچنے والے مافیاز سے نجات دلوائیں۔ |