انسانیت کی معکوس ترقی ۔ ہائے احساسِ زیاں نہ رہا

انسان کے وجود سے آنے لے کر اب تک خالقِ کائنات نے جس طرح انسان کو ہمیشہ رفعتوں سے نوازا ہے اور جس طرح اُسے نعمتوں سے مالا مال کیا ہے۔وہ ایک ایسی انمٹ حقیقت ہے جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا ۔انسان نے سماجی رویوں کے مختلف اداور طے کر کے اوجِ ثریا تک رسائی حاصل کی۔کائنات کی تخلیق کاسبب بھی افضل البشر نبی پاکﷺ کی ہستی ہے۔ خالق نے فرمادیا کہ اگر میں اپنے محبوب کو پیدا نہ کرتا تو کائنات پیدا نہ کرتا حتیٰ کہ اپنے رب ہونے کا اظہار نہ کرتا۔تیری پہچان اگر ہے تو میرئے نام سے ہے تو بھی مٹ جائے اگر مجھ کو مٹایا جائے۔گویا رب کی پہچان بھی نبی پاکﷺ سے ہے۔غزوہ بدر میں مُٹھی بھر ساتھیوں کے ساتھ میدان بدر میں وجہ تخلیق کائنات نبی اعظم ﷺ نے اپنے خالق سے التجا کی کہ ائے میرئے رب اگر آج یہ مُٹھی بھر تیرئے بندئے فتحیاب نہ ہوئے تو قیامت تک تیرا نام لینے والا کوئی نہ ہوگا۔اﷲ پاک نے اپنے رب ہونے کا اظہار بھی نبی پاکﷺ کی تخلیق سے مشروط فرمادیا اور ساتھ ہی یہ امر بھی فرمادیا کہ آدم کی تخلیق سے پہلے ہی محمد ﷺ کو نبوت سے سرفراز فرمادیا۔ رب کو جب جب اپنی پہچان کروانا مقصود ٹھرا تب تب نبی پاکﷺ کی ناموس کو اُمت کے لیے لازم ٹھرایا۔ کبھی منع فرمادیا کہ اپنی آوازوں کو نبی پاکﷺ کی آوازوں سے اونچا نہ کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ تمھارئے اعمال ضائع کردئیے جائیں اور تمھیں پتہ بھی نہ چلے۔کسی جگہ یہ فرمادیا کہ ائے نبی ﷺ جس نے میری اطاعت کی اُس نے آپﷺ کی عطا فرمائی۔بلال حبشیؓ کا عشق ، اویس قرنی ؓکا عشق، ابوبکر صدیق ؓ کا جذبہ یہ سب کچھ تو اِسی لیے عشق کی تمازتیں بکھیررہا ہے کہ محبانِ نبیﷺ خود کو عشق ِ رسولﷺ سے بہرہ مند فرمالیں۔ نبی پاکﷺ کی محبت کا فیضان ہے کہ آپ ﷺکی محبت کے طفیل پوری دنیا میں امن وآشتی کو فروغ نصیب ہوا۔عشقِ رسولﷺکا اعجاز ہی ہے کہ کہ پوری کائنات کا نظام آپ ﷺکے دم سے ہے۔ درویش شاعر مشرق اقبالؒ نے فرمایا تھا کہ یہ فاقہ کش جو ڈرتا نہیں ذرا روح محمدﷺ اِس کے جسم سے نکال دو۔ اِسی لیے جب بھی مقصود یہود نصاریٰ کو یہ ہو کہ مسلمانوں کو تنگ کرنا ہے اُن کو تکلیف میں ڈالنا ہے تو شان نبیﷺ میں گستاخی کے مرتکب ہوتے ہیں۔انسانی جذبوں میں محبت کاعمل دخل ہی انسان کو جینے کی اُمنگ دئیے رکھتا ہے۔دنیا سے محبت نہ کرنے سے مراد مادیےت سے ماورا ہونا ہے۔اِسی لیے خالق کا ابدی ہونا اور بندئے کا اِس جہاں میں فانی ہونا اور عالمِ برزخ میں پھر ہمیشہ کے لیے غیر فانی ہوجانا۔اِس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بندئے کا اس جہاں میں فانی ہونا اور پھر اگلے جہاں میں غیر فانی ہوجانا یقینی طور پر اِس دنیا کی حقیقت کے حوالے سے جس کسوٹی کو سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہی ہے کہ یہاں عارضی قیام اور وہاں ہمیش۔ بندہ مومن کا جب اپنے رب سے ملاقات ہونے کا سبب بننے والی موت سے سامنا ہوتا ہے تو بندہ مومن کے لیے اُس کے رب کی جانب سے وہ موت تحفہ کا درجہ حاصل کر لیتی ہے۔ جتنی مرضی تدبیریں کر لیں آخر رخصت ہونا ہی ہے ۔ اِس لیے اِس دنیا کی محبت کو مردار سے تشبہ دی گئی ہے۔امام عالیٰ مقام حضرت امام حسینؓ کا اپنا سر کٹوانا قبول کر لینا۔اپنے خاندان کو اپنے سامنے شہید ہوتا دیکھنا منطور کر لینا۔حالانکہ جان بچانا تو لازمی امر ہے ۔لیکن جان کے بدلے میں سچائی کا ساتھ چھوڑنا حق نہیں ہے حق وہی ہے جو خالق کی رضا ہے۔ تو گویا اصل حقیقت گوشت پوست کی نہیں بلکہ روح کی ہے۔موت انسانی زندگی کے خاتمے کا نام نہیں بلکہ یہ تو انسانی زندگی کے اگلے دور کا نام ہے۔موت کے دروازئے سے گزر کر انسان اگلے دور میں داخل ہو جاتا ہے۔موت کا ذائقہ ہر کسی نے چھکنا ہے۔ذائقہ ایک کیفیت کا نام ہوتا ہے اِس کا وجود مستقل نہیں ہوتا۔جیسے اگر کوئی مشروب پیا جائے تو اُس کا ذائقہ کچھ دیر تک رہتا ہے لیکن اُس کے بعد اُس مشروب کے ذائقے والی کیفیت ختم ہوجاتی ہے ۔ یہی حال موت کا ہے کہ انسان نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے ، مرنا نہیں ہے۔چونکہ ذائقہ ایک بے حقیقت شے ہے ۔ ایک دن میں کئی مرتبہ ذائقہ آتا ہے اور ختم ہوجاتا ہے۔اِس لیے تو موت ذائقہ بن کر آتی ہے اور چلی جاتی ہے۔ اِس ذائقہ موت کی کیا مجال کہ وہ انسان کی حقیقت کو ختم کر سکے۔حضرت عمرؓ کا فرمان َ عالیشان ہے کہ لوگو: تم جب ایک مرتبہ پیدا ہوگئے تو پھر مستقل پیدا ہو گئے اب منتقل ہوتے رہو گے۔پیدائش زندگی کا آغا ز ہے۔آسمان پر کمندیں ڈالنے کے باوجود، کائنات کی کامل ترین ہستی نبی پاکﷺ کی رہنمائی کے باوجود اگر انسان خسارئے کا سود کر رہا ہے تو یہ تو پھر اُسکی جبلت میں ہے کہ وہ ہمیشہ خسارئے میں رہنے کا سودا کرلیتا ہے ۔لیکن وہ جن کا نبی پاکﷺ پر اور خالق کائنات پر کامل ایمان ہو اُنکو کوئی ڈر خوف نہیں اُنکی جلوت اُن کی خلوت سب کچھ کچھ تو رب کی رضا کے مطابق ہوتی ہے۔ ہائے انسان کو اپنے آپ کو سنوارانا کیوں نہیں آیا۔انسان موجودہ ترقی یافتہ ترین انٹرنیٹ کے دور میں بھی اخلاقی گرواٹ کا شکار کیوں ہے۔ہائے احساسِ زیاں جاتا رہا۔
MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE
About the Author: MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE Read More Articles by MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE: 453 Articles with 430591 views MIAN MUHAMMAD ASHRAF ASMI
ADVOCATE HIGH COURT
Suit No.1, Shah Chiragh Chamber, Aiwan–e-Auqaf, Lahore
Ph: 92-42-37355171, Cell: 03224482940
E.Mail:
.. View More