شرک اکبر

بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

شرک اکبر

اس موضوع پر زیادہ تر دلائل کو شرک اکبر کے عنوان سے شائع شدہ پمفلٹ سے آخذ کیا گیا ہے، اللہ ان دلائل کو پمفلٹ کی صورت میں جمع کرنے والے احباب کو جزاۓ خیر دے، آمین.

شرک کیا ہے؟ شرک یہ ہے کہ اللہ کی ذات اور اللہ کے ناموں اور صفاۃ میں کسی غیر کو شریک کرنا یا پھر اللہ کی عبادت میں کسی غیر کو شریک کرنا یا پھر اللہ کے ساتھ کسی اور کو پکارنا،یا پھر اللہ سے دعا مانگنا مگر کسی غیر کو اللہ سے دعا مانگنے میں شریک کرنا یہ سب شرک کی مختلف اقسام ہیں، اللہ ہمیں شرک کی ان قبیح اقسام سے محفوظ رکھے.

شرک کی ایک اور قسم کو شرک اصغر کہتے ہیں، یعنی اس سے انسان اگرچہ دائرہ اسلام سے تو باہر نہیں نکلتا مگر یہ ایک خطرناک عمل ہے. اس سے مراد ہے کہ عبادت میں اخلاص کے لیے دکھلاوہ یا ریا کاری کرنا، مثلا اپنے آپ کو لوگوں کے سامنے حاجی صاحب کھلوانا یا کسی کے سامنے نماز کو خوبصورت اور لمبا کرنا، نظر بد سے بچنے کے لیے تعویز گنڈہ کرنا وغیرہ. اللہ ہمیں شرک اکبر تک پہنچنے کے اسباب یعنی شرک اصغر سے بچاۓ، آمین.

شرک اکبر جس سے انسان دائرہ اسلام سے باہر نکل جاتا ہے اسکی چند مثالیں:

دعا: اللہ نے فرمایا:
وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّـهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّـهِ أَحَدًا

ترجمہ و مفہوم: اور یہ مسجدیں صرف اللہ ہی کے لیے خاص ہیں. پس اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو
(سورۃ الجن 18)

اللہ تعالی کو کسی مخلوق کے وسیلے اور واسطے کی ضرورت نہیں. سورۃ بقرۃ آیت 186 میں فرمایا، مفہوما ترجمہ ہے کہ اللہ ہر پکارنے والے کی پکار کو سنتا ہے اور قبول کرتا ہے(یعنی اسکی دعا)

یہاں یاد رہے کہ اگرچہ اللہ عزوجل کو کسی مخلوق کے وسیلے اور واسطہ کی ضرورت نہیں مگر شریعت اسلام میں دو طرح کا وسیلہ ہے. شرعی وسیلہ اور غیر شرعی وسیلہ. شرعی وسیلہ جائز ہے اس میں تین کیفیات ہیں جو قرآن والسنۃ میں آئ ہیں.

1. کسی مشکل میں اللہ کے حضور اپنے چھپے ہوۓ نیک اعمال پیش کرنا.
2. اللہ کے پاک ناموں اور صفاۃ کا وسیلہ پیش کرنا
3. کسی زندہ اور صالح انسان سے دعا کرانا. یہ تینوں جائز صورتیں ہیں

جس کی تفصیل کو ابن جلال الدین کے اس تحقیقی مقالہ کی صورت میں یہاں ضرور پڑھیں:
https://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=70960

وسیلے کی جائز صورتیں جو پہلے عرض کی گئیں ان کے علاوہ سب ناجائز وبدعی صورتیں ہیں. مثلا کسی قبر پر جاکر صاحب قبر کو یہ کہنا کہ آپ میرے حق میں دعا اور سفارش کریں. صحابہ کرام میں سے کسی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں یا آپ کی وفات کے بعد آپ کی ذات تک کا وسیلہ بھی پیش نہیں کیا. اور ایسا عمل کسی صحیح یا حسن روایت سے ثابت نہیں. حتی کے سلف الصالحین اور ائمہ محدثین سے بھی صحیح یا حسن درجہ سے ثابت نہیں.

ناجائز اور شرکی یا بدعی وسیلہ کی چند مثالیں:

یہ کہنا کہ یا علی مشکل کشاء میری مدد کر اور میری مشکل آسان کر یا پھر: یا رسول میری مدد کر (نقل کفر،کفر نہ باشد)

یہ سب ناجائز اور شرکی وسیلہ ہے کیونکہ اس میں اللہ کا حق دوسروں کو دے دیا گیا. یہ کہنا کہ اے اللہ تو نبی کے صدقہ مجھے کامیاب کر. یہ بدعی وسیلہ ہے مگر شرکی نہیں کیونکہ اللہ کا حق اللہ کو دیا گیا یعنی دعا اللہ سے مانگی گئ مگر یہ بدعی اسلیے ہے کیونکہ قرآن والسنۃ سے کسی صحیح یا حسن درجہ کی کسی روایت سے ثابت نہیں.

https://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=49843
(وسیلہ وشفاعت)

جائز اور نا جائز وسیلہ کو سمجھنے کے بعد شرک اکبر کی چند اور مثالیں:
تعظیمی قیام: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَتَمَثَّلَ لَهُ الرِّجَالُ قِيَامًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ

ترجمہ مفہوم: جسے یہ بات پسند ہو کہ لوگ اسکے لیے با ادب کھڑے رہیں تو اسے چاہیے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں پکڑ لے
(حوالہ:سنن الترمذی رقم الحدیث: 2755 امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس روایت کو حسن کہا، الشیخ ناصر الدین البانی اور حافظ زبیر علی زئ رحمہما اللہ دونوں نے اپنی اپنی تحقیق میں اسکو صحیح یا حسن کہا.)

جس کے لیے با ادب کھڑا ہوا جاۓ تو وہ دل میں عظمت و بڑائ محسوس کرتا ہے جب کہ عظمت اور بڑائ تو صرف اللہ کے لیے ہے. اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا:
حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وَقُومُوا لِلَّـهِ قَانِتِينَ

ترجمہ و مفہوم: نمازوں کی حفاظت کرو، بالخصوص درمیان والی نماز کی اور اللہ تعالی کے لیے با ادب کھڑے رہا کرو
(حوالہ:سورۃ البقرۃ آیت: 238)

گویا تعظیم کے لیے دور سے کسی کے لیے کھڑا ہو جانا جیسے شادی وغیرہ کی دعوت میں ہوجاتا ہے ایک باطل و شرکیہ عمل ہے اسلیے اس سے بچنا چاہیے.

روایت ہے:
فَقَالَ مُعَاوِيَةُ لاِبْنِ عَامِرٍ اجْلِسْ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ: ‏ "‏ مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَمْثُلَ لَهُ الرِّجَالُ قِيَامًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ

ترجمہ ومفہوم:
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ابن عامر رضی اللہ عنہ سے کہا: بیٹھ جائیں، اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ فرماتے تھے: جو شخص یہ پسند کرتا ہو کہ لوگ اس کے لیے کھڑے رہیں تو اسے چاہیے کہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے
‏(سنن ابی داؤد، رقم الحدیث: 5229، وسندہ حسن، الشیخ البانی نے صحیح اور حافظ زبیر نے اپنی تحقیق میں حسن کہا)

البتہ اگر کوئ شخص آپ کے پاس آجاۓ اور آپ اس سے ملاقات کے لیے محبت سے مصافحہ و معانقہ کے لیے کھڑے ہوجائیں تو ایسا عمل شرک نہ ہوگا اور جائز ہوگا جس کا ثبوت یہ ہے:

سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کو بلوایا، وہ ایک سفید گدھے پر سوار ہوکر آۓ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: اپنے سردار کی طرف یا اپنے افضل کی طرف بڑھو. تو وہ (سعد) آۓ حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ گۓ.
‏(سنن ابی داؤد، رقم: 5215، اخرجہ البخاری، رقم: 6262)

قوموا کے لفظی معنی "کھڑے ہو" ہیں لیکن یہاں سیاق کے اعتبار سے اسکے معنی ہیں "آگے بڑھو". بنا بریں اپنے سردار اور بڑے کی تعظیم بجا لانا شرعی حق ہے.

لیکن عجمی انداز میں تعظیم کرنا کہ کوئ بڑا آۓ اور بیٹھے ہوۓ لوگ اپنی اپنی جگہ کھڑے ہو جائیں، پھر جب وہ اجازت دے یا بیٹھ جاۓ تو دوسرے لوگ بیٹھیں، سرا سر ناجائز ہے. سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے لیے جو فرمایا گیا تو وہ آگے بڑھ کر استقبال کرنا اور انہیں سواری سے اترنے میں مدد دینا تھا. جیسے مسند احمد کی روایت میں ہے کہ قوموا الی سیدکم فانزلوہ رواہ مسند احمد جلد: 6 صفحہ: 142. اس خاص روایت کی اسنادی حیثیت کو میں ذاتی طور پر جنہیں جانتا کہ محدثین کا اس پر کیا حکم ہے، واللہ اعلم.

نذر و نیاز: اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا:
ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَ‌هُمْ

ترجمہ و مفہوم: پھر وہ حجاج اپنا میل کچیل دور کریں اور (اللہ تعالی کے لیے) اپنی نذریں پوری کریں
(سورۃ الحج آیت: 29)

اس سے معلوم ہوا کہ نذر و نیاز عبادت کا جز ہے اور تمام نذریں اور نیازیں صرف اللہ کریم کے لیے ہے اور غیر اللہ کے لیے نذر و نیاز ماننا شرک اکبر ہے جو ایک انسان کو دائرہ اسلام سے باہر کرنے کا باعث بن جاتا ہے، اسلیے اس عمل سے بچنا چاہیے.

طواف: اسی طرح اللہ نے قرآن مجید میں فرمایا:
وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ

ترجمہ و مفہوم: "... اللہ کے قدیم گھر کا طواف کریں
(سورۃ الحج آیت: 29)

یعنی اس سے معلوم ہوا کہ طواف کعبہ بھی ایک عبادت ہے جو صرف اللہ کریم کے لیے ہے اور غیر اللہ کے لیے کرنا شرک اکبر ہے. اس لیے بعض لوگ جہالت یا کم علمی میں قبروں کے طواف کرتے ہیں جو شرک اکبر عمل ہے اور دائرہ اسلام سے خارج کرنے کا باعث ہے. اللہ مسلمانوں کو اس عمل سے بچاۓ، آمین.

اعتکاف: اعتکاف بھی ایک عبادت ہے.اللہ کریم نے قرآن میں فرمایا:
أَن طَهِّرَ‌ا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّ‌كَّعِ السُّجُودِ

ترجمہ و مفہوم: میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھو
(البقرۃ آیت 125)

گویا معلوم ہوا کہ اعتکاف اللہ تعالی کی عبادت میں سے ہے اور اسکے مشابہ مزار و بت خانے میں مجاور بن کر بیٹھنا شرک ہے

قربانی: اللہ نے قرآن میں فرمایا:
فَصَلِّ لِرَ‌بِّكَ وَانْحَرْ

ترجمہ و مفہوم: پس تو اپنے رب کے لیے نماز پڑھ اور قربانی کر
(سورۃ الکوثر آیت: 2)

اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَعَنَ اللَّهُ مَنْ ذَبَحَ لِغَيْرِ اللَّهِ

ترجمہ و مفہوم: اللہ تعالی کی لعنت ہو اس پر جو غیر اللہ کے لیے ذبح کرے
(صحیح مسلم رقم الحدیث: 1978)

یعنی اس سے پتا چلا کہ رسول اللہ نے غیر اللہ کے لیے قربانی کو لعنت کا باعث قرار دیا. اور چونکہ قربانی عبادت ہے اسلیے غیر اللہ کے لیے قربانی شرک ہے. اسی طرح غیر اللہ کے نام پر جانور وقف کر دینا بھی شرک ہے کیونکہ اللہ نے فرمایا:
إِنَّمَا حَرَّ‌مَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِيرِ‌ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ‌ اللَّـهِ.."
ترجمہ ومفہوم:
تم پر مرده اور (بہا ہوا) خون اور سور کا گوشت اور ہر وه چیز جس پر اللہ کے سوا دوسروں کا نام پکارا گیا ہو حرام ہے.."
‏(سورۃ بقرۃ: 2 آیت: 173)

اس سے معلوم ہوا کہ غیر اللہ کے لیے قربانی کرنا یا صرف جانور غیر اللہ کے لیے وقف کر دینا دونوں شرک ہیں، اللہ ہمیں ان اعمال سے بچاۓ، آمین.

استعانت یعنی مدد طلب کرنا: اللہ عزوجل نے فرمایا:
إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ

ترجمہ و مفہوم: ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں.
(سورۃ الفاتحہ: 4)

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نصیحت کرتے ہوا فرمایا، اس روایت کا ایک جز:
وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ

ترجمہ و مفہوم: جب مدد طلب کرو تو اللہ ہی سے مدد طلب کرو
(سنن الترمذی،رقم: 2156، دوسرا نسخہ:2516)

اس کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے حسن صحیح کہا. دارالسلام میں اس پر حسن کا حکم ہے، محدث کبیر الشیخ البانی رحمہ اللہ اور محدث العصر حافظ زبیر رحمہ اللہ دونوں کی راۓ میں بھی یہ صحیح یا حسن ہے.

یہاں پر یہ بات ذہن میں رہے کہ زندہ اور موجود شخص سے ایسی مدد مانگنا جس پر شرعی طور پر وہ قادر بھی ہے اور وہ مدد ناجائز یا حرام بھی نہیں تو ایسی مدد طلب کرنا جائز ہے. مثلا ایک شخص کو پانچ سو رپے کی ضرورت ہو اور وہ کسی دوسرے سے مدد طلب کرے جو یہ پانچ سو روپے دینے پر قادر بھی ہو تو یہ جائز ہے لیکن اگر کسی سے ایسی مدد طلب کی گئ جس پر وہ قادر نہیں تو یہ شرک ہو جاۓ گا مثلا کسی مردہ سے یا قبر سے استعانت یا مدد طلب کرنا شرک ہے. وغیرہ

استعاذہ یعنی پناہ طلب کرنا:
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا:
قُلْ أَعُوذُ بِرَ‌بِّ النَّاسِ ﴿١﴾ مَلِكِ النَّاسِ ﴿٢﴾ إِلَـٰهِ النَّاسِ

،ترجمہ و مفہوم: کہو کہ میں پناہ طلب کرتا ہوں لوگوں کے رب کی، ان کے مالک اور ان کے معبود اللہ تعالی کی
(حوالہ: سورۃ الناس آیت 1 تا 3)

گویا معلوم ہوا کہ پناہ صرف اللہ کی طلب کی جاسکتی ہے اور غیر اللہ کی پناہ طلب کرنا شرک ہوگا. کسی مشکل میں کہیں چھپنا جائز ہے جیسا کہ نبی کریم نے تین سال تک شعب ابی طالب میں گزارے مگر پناہ صرف اللہ کی طلب کی جاۓ گی.

ڈر و خوف: اللہ نے قرآن میں فرمایا:
إِنَّمَا ذَٰلِكُمُ الشَّيْطَانُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَاءَهُ فَلَا تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ

ترجمہ و،مفہوم: یہ خبر دینے واﻻ صرف شیطان ہی ہے جو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے تم ان کافروں سے نہ ڈرو اور میرا خوف رکھو، اگر تم مومن ہو
(حوالہ: سورۃ آل عمران آیت: 175)

اس سے ہمیں پتا لگا کہ خوف بھی ایک عبادت ہے جو صرف اللہ کے لیے ہے اور غیر اللہ سے خوف کھانا شرک ہوگا.مگر ما تحت الاسباب خوف شرک نہیں مثلا ایک شخص آپ کے سامنے ایک دم کلشن کوف مشین نکال لے یا زلزلہ آجاۓ تو ایسی صورت میں ایسا خوف شرک نہ ہوگا بلکہ ما تحت الاسباب ہوگا

امید: اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں فرمایا:
أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَىٰ رَ‌بِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَ‌بُ وَيَرْ‌جُونَ رَ‌حْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ

ترجمہ و مفہوم: جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں خود وہ اپنے رب کے تقرب کی جستجو میں رہتے ہیں کہ ان میں سے کون زیادہ نزدیک ہو جاۓ وہ خود اس کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوفزدہ رہتے ہیں
(حوالہ: سورۃ الاسرآء سورۃ نمبر:17 آیت:57)

اس سے معلوم ہوا کہ امید بھی ایسا جز ہے جو صرف اللہ تعالی سے ہی کرنی چاہیے اور غیر اللہ سے امید رکھنا بھی ایسا ہے جیسے کہ شرک. البتہ اگر ایک شخص کوئ ایسی امید کسی دوسرے شخص سے رکھے جس پر وہ قادر بھی ہے اور وہ ناجائز یا حرام بھی نہیں تو ایسی امید رکھنا شرک نہیں، واللہ اعلم. مگر ذہن میں رہے کہ استعانت یعنی مدد طلب کرنا. استعاذہ یعنی پناہ طلب کرنا، ڈر اور خوف، استغاثہ یعنی فریاد کرنا صرف اللہ عزوجل سے ہی ہے

توکل: اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا:
وَعَلَى اللَّـهِ فَتَوَكَّلُوا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ

مفہوم: اور اللہ تعالی ہی پر توکل کرو اگر تم مؤمن ہو
(سورۃ المائدۃ 23)

گویا اس آیت سے معلوم ہوا کہ توکل بھی عبادت کا ایک جز ہے جو صرف اللہ عزوجل ہی پر کرنا چاہیے اور امید اور ڈر و خوف اور استعانت اور استعاذہ کی طرح صرف اللہ رب العزت ہی پر توکل رکھنا چاہیے کیونکہ صرف وہ ہی تمام مشکلیں دور کرنے اور تمام حاجات پوری کرنے پر قادر ہے

استغاثہ یعنی فریاد کرنا: اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا:
إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَ‌بَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ

مفہوم: اس وقت کو یاد کرو جب کہ تم اپنے رب سے فریاد کررہے تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے تمہاری سن لی
(سورۃ الانفال آیت:9

قرآن کی اس خوبصورت آیت میں اس بات کی نشانی ہے کہ فریاد کرنا یا استغاثہ بھی اللہ کریم سے ہے گویا یہ بھی عبادت کا ایک جز ہے بلکہ اس عمل کو بھی صرف اللہ ہی سے کرنا چاہیے کیونکہ تمام خواہشات پوری کرنے والا اور مشکلات دور کرنے والا اللہ ہی ہے.

جادوگری: اللہ نے قرآن میں فرمایا:
وَمَا كَفَرَ‌ سُلَيْمَانُ وَلَـٰكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُ‌وا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ‌

ترجمہ و مفہوم: سلیمان علیہ السلام نے کفر نہیں کیا تھا بلکہ شیاطین نے کفر کیا تھا لوگوں کو جادو سکھا کر
(البقرۃ آیت: 102)

خاوند اور بیوی میں محبت کے ٹوٹکے تعویز اور گنڈے جسکو عربی میں تولة کہتے ہیں وہ بھی شرک ہے.
إِنَّ الرُّقَى وَالتَّمَائِمَ وَالتِّوَلَةَ شِرْكٌ ‏

سنن ابی داؤد، رقم: 3883 اس روایت کو شیخ البانی نے صحیح کہا. اور حافظ زبیر نے اسکو اعمش کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف کہا. البتہ مستدرک میں اس سے منسلک ایک صحیح روایت موجود ہے

تبرک: بعض نو مسلم صحابہ رضی اللہ عنھم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بطور تبرک ایک بیری کا درخت مقرر کرنے کو کہا کیونکہ مشرکین بھی بطور تبرک اپنے ہتھیار ایک بیری کے درخت پر لٹکاتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکے اس مطالبہ کو شرک قرار دیا. جیسا کہ اس روایت میں دیکھا جاسکتا ہے:

فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ اجْعَلْ لَنَا ذَاتَ أَنْوَاطٍ كَمَا لَهُمْ ذَاتُ أَنْوَاطٍ ‏.‏ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ سُبْحَانَ اللَّهِ هَذَا كَمَا قَالَ قَوْمُ مُوسَى ‏:‏ ‏(‏اجْعَلْ لَنَا إِلَهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ ‏)‏ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَتَرْكَبُنَّ سُنَّةَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ

ترجمہ و مفہوم:
یا رسول اللہ مقرر کر دیں ہمارے لیے بھی ایک ذات انواط جیسا کہ مشرکوں کا ایک ذات انواط ہے سو فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے: یہ تو ویسی ہی بات ہوئ جیسے موسی علیہ السلام کی قوم نے کہا اجعل لنا الھا کما لھم الھۃ یعنی بنا دے ہمارے لیے ایک معبود قسم ہے اس پروردگار کی کہ میری جان اس کے ہاتھ میں ہے تم مرتکب ہوگے اپنے اگلوں کے فعل کے.

ترمذی رقم الحدیث: 2180 اس روایت کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے حسن صحیح قرار دیا، دارالسلام کے نسخہ میں اس پر صحیح کا حکم درج ہے. شیخ البانی اور حافظ زبیر رحمہما اللہ دونوں نے صحیح یا حسن کہا.

ایسے تبرکات جن کا تعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے ہے وہ انکی زندگی یا ان کے بعد بھی جائز تھے اور مسلمانوں کے لیے تبرک تھے. لیکن اب کوئ یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ فلاں تبرک واقعتا نبی اکرم سے تعلق رکھتا ہے اس لیے ایسا تبرک اب جائز نہیں ہوگا. تبرک کی مثال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے، انکے وضو کا پانی، خوراک کھانا پینا، ان کے بال، ان کا لعاب مبارک وغیرہ تھے.

لیکن یاد رہے کہ کوئ تبرک جو اللہ تعالی کی ربوبیت یا الوہیت و عبادت یا اسماء والصفات میں شرک کا باعث بنے وہ جائز نہیں مثلا پہلی مثال میں بیری کے درخت پر تلوار کو لٹکانے کے عمل کو یا تبرک کرنے کو شرک قرار دیا گیا کیوں کہ توکل عبادت ہے جو اللہ پر ہے نہ کہ غیر اللہ پر اور نہ ہی کسی فنا ہونے والی مادی اشیا پر.جبکہ تابعین نے بھی ایسا قول فرمایا کہ کاش نبی اکرم کی کوئ اشیاء تبرک کے لیے ہوتیں.

گویا معلوم ہوا کہ تابعین اس بات کے قائل تھے کہ انکی زندگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کوئ تبرک موجود نہیں رہا ورنہ شائد وہ اپنی دنیا کی ساری خواہشات اس کو حاصل کرنے کے لیے لٹا دیتے. اسی طرح کچھ لوگ یا فرقہ کہ جن کا دین ایمان ہی تبرک پر قائم ہے اور اس بر انہوں نے کتابیں بھی لکھیں اسکی شریعت میں کوئ حیثیت نہیں کیونکہ دین قرآن والسنۃ کا نام ہے.

اسی طرح کچھ لوگوں نے اپنی کتابوں میں تبرک کی کچھ ایسی اقسام ذکر کیں ہیں جو صحیح روایت میں موجود نہیں ہیں مثلا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کا تبرک. یہ عمل جائز نہ ہوگا کیونکہ یہ کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں یا پھر صرف ضعیف و من گھڑت روایات سے ثابت ہیں. امام نووی اور کئ دیگر کبار اماموں نے بھی اس عمل کو جائز نہیں کہا. اسکے مزید دلائل موجود ہیں جسکا فی الوقت موقع نہیں. البتہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر سے منسلک تبرک کی چند روایات کی تحقیق یہاں پر ضرور پڑھیں:

https://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=72409
(قبر نبوی سے توسل والی روایات کا تجزیہ)

https://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=71543
سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ اور قبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے
تبرک

https://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=71765
دور فاروقي ميں ايك شخص كا قبر نبي سے تبرك

https://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=71545
امام شافعی رحمہ اللہ کی طرف منسوب روایت

موجودہ دور کے وہ احباب جو کلمہ تو ادا کرتے ہیں مگر ان میں شرک موجود ہے. ان کا شرک سابقہ دور کے مشرکین سے بدتر ہے. اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے دور کے مشرکین صرف نیک اولیاء و صالحین کو پکارتے تھے مگر موجودہ دور کے شرک میں ملوث لوگ ایسوں کو بھی پکارتے ہیں جو بے دین، بے نمازی، قبر پرست، منشیات کے عادی، بدکار، پاگل بھی ہیں جن کی گواہی یہ خود بھی دیتے ہیں

پہلے دور کے مشرکین صرف خوشحالی کی حالت میں شرک کیا کرتے تھے مصیت میں خالص اللہ کو پکارتے تھے.اللہ نے فرمایا:
جَاءَتْهَا رِ‌يحٌ عَاصِفٌ وَجَاءَهُمُ الْمَوْجُ مِن كُلِّ مَكَانٍ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ أُحِيطَ بِهِمْ ۙ دَعَوُا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ

ترجمہ و مفہوم:
اور ان پر جھونکا سخت ہوا کا آتا ہے اور ان پر ہر طرف سے موجیں اٹھتی ہیں تو سب خالص اعتقاد کر کے اللہ کو ہی پکارتے
(سورۃ یونس: 22)

لیکن موجودہ دور کے شرک میں مبتلا لوگ خوشحالی اور تکلیف دونوں صورتوں میں غیر اللہ سے استعانت اور استعاذہ اور استغاثہ وغیرہ کا شرک کرتے ہیں.

اب تک ہم نے جو چیز سمجھی وہ شرک اکبر کی اقسام تھیں کہ اللہ کی ذات میں شرک، اللہ کے رب ہونے خالق، مالک، رازق، مشکل کشاء، حاجت رواء اور مشکل کشا اور تدبیر کرنے میں یکتا ہونے میں شرک، اسی طرح دعا، وسیلۃ میں شرک، رکوع وسجدہ میں شرک، تعظیمی قیام، نذر ونیاز وطواف میں شرک، اعتکاف و قربانی میں شرک، استعانت و استعاذہ و استغاثہ میں شرک، جادوگری و تبرک کا شرک وغیرہ. اللہ ہمیں ان اور دیگر شرک کی اقسام سے محفوظ رکھے، آمین
manhaj-as-salaf
About the Author: manhaj-as-salaf Read More Articles by manhaj-as-salaf: 291 Articles with 449079 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.