افسانہ زندگی کا

ڈاکٹر صاحب میں رونا چاہتی ہوں بہت سارا چیخ چیخ کر دھاڑیں مار مار کر آپ تو اتنے بڑے ڈاکٹر ہیں میری مدد کیجئے ماہر نفسیات ہیں آپ؟
رونے کی وجہ بھی تو ہو گی؟
وجہ نہیں بہت ساری وجوہات ہیں۔
تو کہہ ڈالئے میں سن رہا ہوں ، بلکہ ہمہ تن گوش ہوں۔
شکریہ ڈاکٹرصاحب
میرے گھر جو ماسی کام کرنے آتی ہے بہت بوڑھی ، کمزور اور بیمار ہے آنکھوں سے بھی کم دکھائی دیتا ہے مگر کام کرنے پر مصروف رہتی ہے حالانکہ اس سے کام ہوتا نہیں ہے گھسیٹ گھسیٹ کر کرتی ہے ایک دن کہنے لگی باجی مجھے اس وقت تک کام کرنا ہے جب تک میرے دونوں بیٹے رہائی نہیں پا لیتے کہاں ہیں تمہارے بیٹے؟ کیا کیاہے انہوں نے؟
کچھ بھی نہیں کیا بس ان کے باپ نے زمیندار سے کچھ رقم ادھار لی تھی جو ادا کرنے سے پہلے مر گیا بس زمیندار نے میرے دونوں بیٹوں کو اپنے پاس رکھ لیا دن بھر ان سے بے تحاشا کام لیتا ہے اور رات کو انہیں چارپائی کے ساتھ زنجیرو ں سے باندھ کر رکھتا ہے تاکہ بھاگ نہ جائیں اب تک کتنی ہی رقم بھیج چکی ہوں مگر انہیں رہائی نہیں ملتی پتہ نہیں کیوں؟
انہیں اب رہائی نہیں ملے گی ماسی تمہاری بھیجی ہوئی رقم کا حساب نہیں رکھتا وہ زمیندار بس یہ سمجھ لو کہ تمہارے شوہر نے جو رقم ادھار لی تھی اس کے عوض میں اس نے ان دونوں کو خرید لیا ہے۔کون کہتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کہ اس زمانے میں انسانوں کی خرید و فروحت نہیں ہوتی اور انسان غلام نہیں بنائے جاتے بنگلہ دیش سے اب بھی کتنی عورتیں فروخت ہو کر یہاں آتی ہیں کیوں آخر کیوں ان کی محنت ان کی عزت سب بیچی جاتی ہیں اس بات پر رویا نہ جائے تو کیا کیاجائے۔
اچھا اور؟
ایک دن درزن کے پاس گئی کپڑے سلوانے تو یونہی برسبیل تذکرہ کہہ دیا شمیم تم نے آج کا اخبار پڑھا ہے؟
میں باجی کہاں پڑھ سکتی ہو ں میں نے اردو لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا اگر پڑھ سکتی تو قرآن کا ترجمہ ضرور پڑھتی یقین جانئے مجھے قرآن کا ترجمہ پڑھنے کا بہت شوق ہے آپ کے گھر میں جب درس قرآن ہوتا ہے تو میں سوچتی ہو ں اگر میں نے اردو پڑھی ہوتی تو مجھے بھی قرآن سے اتنی اچھی اچھی باتیں معلوم ہوتیں۔
مگر کیوں نہیں پڑھ سکیں بھئی آج کے دور میں اتنا تو ہر شخص پڑھ لیتا ہے کہ اخبار وغیرہ پڑھ سکے میں نے انتہائی حیرت اور افسوس سے کہا۔
باجی جب میرے پڑھنے کی عمر تھی تو میں اپنے والدین سے بچھڑ گئی بنگلہ دیش بنا تھا اور ہم جیسے ہزاروں بچے اپنے والدین سے بچھڑ گئے لوگوں کے گھروں میں کام کرکے اپنا پیٹ پالتے رہے تمہیں پڑھاتا لکھاتا کون ؟ پھر انہیں لوگوں نے میری شادی مجھ جیسے اَن پڑھ مزدور سے کر دی جو لوگوں کے گھر وں میں رنگ روغن کر کے گزارا کرتا ہے تو ڈاکٹر صاحب ملک کو دو لخت کرنے والوں نے یہ سوچا کہ اس اقدام سے لوگوں پر کیا کچھ گزر جائے گی کیا یہ رونے والی بات نہیں ہے؟
اچھا اور؟
کہتی جائیے میں سن رہا ہوں
پچھلے دنوں ہمارے علاقے میں ڈکیتی کی واردات ہوئی چار ڈاکو سویرے ایک گھر میں گھسے اور انہو ں نے اہل خانہ سے کہا کہ انہیں ناشتہ کروایاجائے رات بھر سے وہ اسی کام میں مصروف ہیں اور بھوکے ہیں۔ڈٹ کر ناشتہ کرنے کے بعد انہو ں نے نقدی اور زیورات قبضے میں کئے اور یہ کہہ کر روانہ ہو گئے کہ ہم سب تعلیم یافتہ ہیں ایم اے، بی اے ہیں نوکری نہیں ملتی اس لئے یہ کام کرتے ہیں۔تو ڈاکٹر صاحب! جس ملک میں تعلیم یافتہ لوگ ڈاکے ڈالنے لگیں اس ملک کی قسمت پر رونا نہیں چاہئے؟
اور کچھ؟
اور بھی بہت کچھ ہے مگر آپ کا وقت انتہائی قیمتی ہے آپ کے ہاتھ میں اﷲ نے اتنی شفاء دی ہے اس سے اور بہت سے لوگوں کو فائدہ اٹھانا چاہئے جس خلوص اور لگن سے آپ علاج کرتے ہیں جتنی زیادہ توجہ اور محنت اپنے مریضوں پر آپ کرتے ہیں اتنا تو ہزاروں روپے فیس لے کر بھی دوسرے ڈاکٹر نہیں کرتے باہر اور بھی مریض ہیں اب مجھے چلنا چاہئے۔
وہ تو ٹھیک ہے مگر اب آپ کیا چاہتی ہیں،
رونا چاہتی ہوں ڈھیر سارا
پھر وہی رونا ارے بھئی رونے سے کیا ہو گا؟
میرا دل ہلکا ہو جائے گا، ڈاکٹر صاحب برسوں سے اس دل پر غم و اندوہ کے بادل چھائے ہوئے ہیں اور روز بروز ان میں اضافہ اور گھٹن میں زیادہ ہو رہی ہے پہلے میں رو کر دل کا بجھ ہلکا کر لیتی تھی مگر اب……اب مجھ سے رویا بھی نہیں جاتا کیوں آخر کیوں؟
جی ہاں اب آپ سے رویا نہیں جائے گا او رنہ ہی دل ہلکا ہو گا اس لئے کہہ پہلے آپ کا شعور پختہ نہیں تھا ہر پریشانی پر رو کر آٖپ سمجھتی تھیں کہ مسئلہ حل ہو گیا دوسرے لفظوں میں ہر مسئلے کا حل آپ رولینا سمجھتی تھیں مگر اب آپ کا شعور پختہ ہو گیا ہے دواؤں نے آپ کوڈپریشن اور خیالات کے تسلط سے نکال لیا ہے اب آپ بات بات پر رونے والی بچی نہیں ہیں بڑی ہو گئی ہیں۔
جی ہاں میں بڑی ہو گئی ہوں چالیس سال کی باشعور خاتون جس کے ساتھ ساتھ غم بھی بڑے ہو گئے ہیں وہ جو کسی نے کہا ہے کہ جھوٹے غم واویلا کرتے ہیں اور بڑے غم خاموش رہتے ہیں تو اب میں بھی خاموش رہوں گی۔
نہیں آپ خاموش نہیں رہیں گی بلکہ بڑے غم مٹانے کے لئے بڑے بڑے کام کریں گی آپ جوایک عضو معطل بن چکی تھیں پچھلے دو سال کی کوششوں سے ہم نے آپ کا رابطہ معاشرے کے ساتھ بحال کر دیا ہے اﷲ کے فضل و کرم سے اور ہماری محنت سے آپ کو مفید اور کارآمد شہری اس لئے تو نہیں بنایا کہ آپ ہاتھ پر ہاتھ دھر کے بیٹھ رہیں ۔ آسیہ صاحبہ آپ اور آپ جیسی تمام حساس اور درد مند دل رکھنے والی خواتین کو میرا مشورہ ہے کہ تعمیری سرگرمیوں میں مصروف ہو جائیں اس ان پڑھ خاتون کو تعلیم دیں اور لکھنا پڑھنا سکھائیں میرے خیال میں آپ بہت بہتر طریقے سے یہ کام کر سکتی تھیں اور نظام کی تبدیلی کا بیڑا اٹھا ہے ان کا ساتھ دیجئے ۔ دامے درمے سخنے قلمے ان کی مدد کیجئے زیادہ سے زیادہ افراد سے رابطہ کر کے ان کا شعور بیدار کیجئے احتجاج کیجئے مظاہرے جلسے جلوس اور دھرنے دینے والوں میں شامل ہو کر وقت کی آوازیں بن جائیے اور یہ کام آخر دم تک جاری رکھئے اسلام آباد جانا ہو تو ضرور جائیے آپ کے پاس وقت بھی ہے اور آسانیاں بھی جب آپ ہمہ تن مصروف ہو جائیں گی تب رونے کی ضرورت ہو گی نہ مذمت صرف ایک معاملے میں رونے کی اجازت ہے وہ کب؟
انسان خطا کا پتلا ہے اپنی خطاؤں پر اپنے رب کے حضور رونا واقعی فائدہ مند ہے مجھے امید ہے کہ آپ میرے مشوروں پر پہلے کی طرح عمل اب بھی کریں گی۔
کیوں نہیں ضرور ڈاکٹر صاحب اﷲ آپ کو عمر خضر عطا فرمائے۔
Aasia Abdullah
About the Author: Aasia Abdullah Read More Articles by Aasia Abdullah: 23 Articles with 20472 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.