وقت بھی دو دھاری تلوار ہے۔۔۔۔۔۔
کبھی محبت سے کاٹتا ہے تو کبھی نفرت سے۔۔۔۔۔ وقت محبت کا ہو یا نفرت کا بہر
صورت کاٹتا ہی چلا جاتا ہے اور کٹتا ہی جاتا ہے۔۔۔۔۔
آسمان پر چھائے بادلوں کے ننھے ننھے سیاہ ٹکڑے کسی آندھی، طوفان یا شدید
بارش کی پیشن گوئی کر رہے تھے مگر نہ بارش ہوئی نہ طوفان آیا بس تیز ہوا
چلی اور من کے اندر ساون برسنے لگا، یاد ماضی سے من کا گُلستان مہکنے
لگا۔۔۔۔۔
یاد ماضی بھی سزا ہے یا رب
یا مجھ سے حافظہ چھین لے یا اُسے میرا بنا دے
موسم خزاں ہو یا سرد برفیلے دن و رات یا کُہر زدہ شامیں نہ جانے کیوں یہ
انسان کے پُرانے زخموں کو ہرا کر دیتے ہیں۔ ہر دُکھ اور بھُول جانے والے
لوگ یاد آنے لگتے ہیں۔۔۔۔۔ شاید یہ انسان کے اندر کا نفسیاتی انسان ہے اور
کمزرو عقیدہ ایمان جو انسان کا تنہائی و مایوسی کی جانب میلان بڑھ جاتا
ہے۔۔۔۔۔
چُھٹی کا وقت ہو رہا تھا اُس نے ذہن کو حال میں جھٹکا دیا اور گھر کی راہ
لی۔ سوچیں تھیں کہ بس جیسے سمندر میں اٰٹھتی ٹکراتی پلٹتی کبھی نہ ختم ہونے
والی لہریں۔۔۔۔۔
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
کبھی کبھی تو راستے وہم و گمان سے بھی زیادہ طویل اور پتھریلے ہو جاتے ہیں،
پاؤں اتنے بوجھل کہ ہر قدم اُٹھانا بھی دو بھر لگتا ہے۔ دل کی ویرانی اور
موسم کی اداؤں کی وجہ سے دل چاہ رہا تھا کہ پیدل ہی گھر کا راستہ طے کر لوں
یا پھر ذہن کی خواہش تھی کہ سوچ رُکنے نہ پائے ماضی کا عکس دُھندلا نہ پڑ
جائے چنانچہ پیدل ہی گھر کا رُخ کیا۔ سڑک پر گاڑیوں کے بے ہنگم شور شرابے
سے دُور پرے اپنی ہی سوچ کی دُنیا میں مگن چلی جا رہی تھی۔۔۔۔۔۔
بے سبب ہی دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر ١٠منٹ کا راستہ مختلف سڑکیں، گلیاں اور
موڑ مُرتے تقریبا گھنٹے میں طے کیا۔ کہیں دو چار عورتیں جاتی نظر آئیں تو
کہیں مردوں کا جھمگٹا، کہیں بچوں کا غول کھیل کُود میں اُدھم مچاتے دکھائی
دیا بچوں کو دیکھ کر اپنا بچپن یاد کر کے سرد آہ بھری۔۔۔۔۔ ایک موڑ مُڑتے
ہی قریبی دُکان والے کی ٹیپ کسی گانے کا راگ آلاپ رہی تھی۔۔۔۔۔
کدی آ مل سانول یار وے
میرے لُوں لُوں چیخ پکار دے
کدی آ مل سانول یار وے
گانے کے بول نے مزید دل کے تار چھیڑ دیے اور دو منٹ کو قدم رُک گئے، دُکان
دار نے جب گھورکے دیکھا تو حال میں واپسی کے ساتھ ہی جلدی جلدی قدموں کے ڈگ
بھرنے لگی، دُکان دار کی کراہت بھری مُسکراہٹ اور نظر نے شرمندگی کا احساس
دلا دیا۔۔۔۔۔ گھر قریب آ رہا تھا چہرے پہ تھوڑی سی بشاشت لانے کی ناکام
کوشش کی اب یہ خوف تھا کہ اماں ڈانٹے گی اور فکر مند بھی ہونگی کہ آج اتنی
دیر کیوں۔۔۔۔۔
گھر کی چوکھٹ پر قدم رکھتے ہی سلام لینے کے بعد نہ کوئی سوال پوچھا گیا نہ
جواب دیا گیا۔۔۔ شکست زدہ چال، متورم آنکھیں، بُجھا چہرہ سب عیاں کرنے کے
لیے کافی تھے کہ کوئی بُھولا بھٹکا تھکا ماندہ مسافر لوٹ کے آیا ہے۔۔۔۔۔
کمرے میں جانے لگی تو پیچھے سے آواز آئی “ تھوڑا آرام کرلو پھر کھانا کھا
لینا “ دل تھا کہ گڑھوں من پانی میں مارے شرمندگی کے ڈوب گیا ۔۔۔۔۔ من جو
پہلے ہی بھرا بیٹھا تھا ٹوٹ کے برس گیا، آئینے میں خود کو دیکھا تو واقعی
ایسے لگا جیسے کوئی برسوں کی مریضہ ہوں، ندامت کے آنسو ؤں کا طوفان برپا
تھا اُسی وقت اُٹھی وضو کیا اورخدا کے حضور سجدہ ریز ہوئی۔۔۔۔۔
بے شک خدا “غفور الرحیم“ ہے جو اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے بھی زیادہ محبت
کرتا ھے انہیں کسی بھی حال میں اکیلا نہیں چھوڑتا۔۔۔۔۔ اور ماں وہ واحد ایک
ایسا رشتہ ہے جو آپ کے اندر کی ٹوٹ پھوٹ کو بے آواز بھی سُن لیتی ہے چہرہ
پڑھ لیتی ہے اور محبت و شفقت دیتی ہے۔۔۔۔۔ |