شہید ِ ناموسِ رسالت شیخ المشائخ حضرت خواجہ بابا عبدالرحمن چشتی
(Pir Mufti Taj Uddin Naeemi, )
شہید ِ ناموسِ رسالت شیخ المشائخ حضرت خواجہ بابا عبدالرحمن چشتی عرف لالہ فقیر شہید رحمۃ اﷲ علیہ |
|
انبیاء و مرسلین علیہم السّلام اور صحابۂ
کرام علیہم الرضوان کے بعد ہر دور میں اﷲ تعالیٰ کے خاص اور مقرّب بندے
گزرے ہیں اور تا قیامت پیدا ہوتے رہیں گے ۔ جو خلقِ خدا کی رہنمائی کرتے
رہے ہیں اور کرتے رہیں گے ۔ ان نفوسِ قدسیہ نے ہمیشہ اﷲ تعالیٰ کی بندگی
اور عشق و اطاعتِ رسول ﷺ کا درس دیا ہے اور ان کے مساعیٔ جمیلہ سے لوگ راہِ
ہدایت پر گامزن ہوئے ہیں برِ صغیر پاک و ہند میں بھی بے شمار بزرگانِ دین
گزرے ہیں جن کے دم قدم کی برکت سے لاکھوں سینے نورِ ایمان و عرفان سے روشن
ہوئے ہیں ۔ ان عظیم ہستیوں میں سے فقیر راقم الحروف کے والد ِ ماجد صوبہ
خیبر پختونخواہ جنوبی وزیرستان کے عظیم بزرگ عارفِ ربّانی شیخ المشائخ قطب
الارشاد شہید ِ ناموسِ رسالت حضرت خواجہ بابا عبدالرحمن چشتی عرف لالہ فقیر
شہید رحمۃ اﷲ علیہ کی ذاتِ بابرکات ہے ۔ غالبًا آپ کی پیدائش 1933ء کو
جنوبی وزیرستان میں ہوئی ہے آپ مادر زاد ولی اﷲ تھے ۔ پیدائش سے پہلے ہی آپ
کے والد ِ ماجد کو آپ کی پیدائش اور نام کی بشارت بذریعۂ خواب دی گئی تھی
روزِ ولادت سے ہی سعادت مندی کے اثرات آپ کی ذاتِ بابرکات میں نمایاں تھیں
تقریبًا پانچ سال کی عمر سے آپ سچے خواب و مبشّرات دیکھنے لگے آپ نے بچپن
میں ہی قرآنِ مجید اور ضروری دینی و دنیوی تعلیم حاصل کرلی تھی ۔ بعد ازاں
گھریلو غربت کی وجہ سے آپ 3 اپریل 1950 ء میں بارڈر فورس میں بھرتی ہوئے
اور ملک و قوم کی خدمات میں مصروف ہوئے ۔ یاد رہے کہ اس زمانے میں پاکستان
کی عمر تین سال سے بھی کم تھی قبائل علاقہ جات کے لوگ اس زمانے میں ایک
دینی ، ملّی ، قومی اور ملکی جذبے کے تحت سرکاری فورسز میں بھرتی ہوتے تھے
۔ کشمیر اور دیگر محاذوں میں یہی لوگ کام آتے اور پہلے مورچوں میں موجود
ہوتے تھے انہی جذبات کے ساتھ آپ بھی بھرتی ہوئے تھے ۔ اور یہی آپ کیلئے
مُرشد ِ کریم سے ظاہری ملاقات کا ذریعہ بنا آپ فرماتے تھے کہ بچپن سے ہی
میں اپنے مرشد پاک قطب الارشاد حضرت خواجہ سیّد محمّد سلیمان بابا دربار
شریف حضرت دکن بابا جی موراں والی خانقاہ سیالکوٹ کو خواب میں دیکھتا رہتا
تھا اور جس حسن و جمال اور آب و تاب کے ساتھ دیکھتا تھا اس کے سامنے سورج
کوئی معنی نہیں رکھتا اگست 1951ء میں آپ کے مرشد کے والد ِ ماجد غوثِ زمان
حضرت خواجہ سیّد محمّد حافظ بابا علیہ الرحمہ کا وصال ہوا اس کے چند مہینے
بعد آپ حاضرِ دربار ہوئے اور مرشد ِ پاک کی ظاہری زیارت کرکے شرفِ بیعت سے
مشرف ہوئے ۔ آپ اپنے مرشد کے صرف مُرید ہی نہیں بلکہ مراد ، بہت محبوب و
مطلوب اور راز دار و راز دان تھے آپ بھی اپنے مرشد اور پورے خاندانِ مرشد
پر بیحد فریفتہ تھے ۔ آپ کے مرشد نے بہت جلد آپ کی باطنی ، روحانی تربیت
فرما کر اور اعلیٰ مقام پر پہنچا کر مکمل اجازت و خلافت سے نوازامرشد ِ پاک
ہمیشہ آپ پرفخر فرمایا کرتے تھے ۔ اور آپ سے فرمایا تھا کہ لالہ تم ہی میری
سوانح حیات ہو آپ نے رخصت پر عمل کی بجائے پوری زندگی عزیمت کے عمل میں
گزاری ہے آپ فرماتے تھے کہ مجھے مسکین فقیر کا لقب ملا ہے اور واقعی آپ نے
پوری زندگی فقر ، غربت و مسکینی میں گزاری اور اولاد و مریدین کو بھی
فرماتے تھے کہ میری زندگی میں دنیا و دولت کی دعا کیلئے مجھ سے مت کہنا اور
فقر و غربت کی فضیلتیں بیان فرماتے تھے ۔ آپ نے بیعت کے تھوڑے عرصے بعد
سرکاری نوکری ، کاروبار و تجارت اور جائیدادوں کو خیرباد کہا اور وزیرستان
میں مسندِ ارشاد پر بیٹھ کر فقر کی زندگی گزارنے لگے اور خلقِ خدا کو فیض
دیتے رہے ۔ 1965ء کی جنگ کے دنوں میں آپ وزیرستان سے سیالکوٹ مرشد کے
دربار میں حاضر ہوئے جبکہ سیالکوٹ میں جنگ زوروں پر تھی پنجاب اور خاص کر
سیالکوٹ کے لوگ نقلِ علاقہ کر چکے تھے ۔ افواجِ پاکستان کے علاوہ لوگ گھروں
کو خالی کرچکے تھے ان دنوں میں آپ حاضرِ دربار ہوئے جنگ کے پورے دنوں میں
وہیں پر تھے 1965کی جنگ میں جہاں دیگر محبوبانِ خدا کی کرامات اور مدد کے
واقعات مشہور ہیں وہاں اس دربار شریف کے بزرگوں اور حضرت لالہ فقیر کی
کرامات و مدد کے بھی بہت سارے واقعات ہیں ۔ جنگ کے ختم ہوتے ہی آپ پر جذب و
جنون اور استغراق و سکر و فنائیت کا عالم طاری ہوا تقریبًا سات سال تک اسی
فنائیت کے عالم میں رہے اس دوران آپ سمیت فقیر کی والدہ ماجدہ اور خاندان
کے دیگر بزرگوں کو بے حد مشکلات اور آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ بعض
اوقات آپ کو ہتھکڑیاں پہنا دی جاتیں اور کمرے میں بند کر دیئے جاتے ۔ ڈیرہ
اسماعیل خان جیل کے پاگل خانے میں بھی کچھ عرصہ رہے ہیں مگر وہاں جب آپ کی
کرامات کا ظہور ہونے لگا تو بہت جلد رہا کر دیئے گئے اس عرصے میں آپ کی بہت
ساری کرامات کا ظہور ہوا ۔ جس سے عوام و خواص آپ کی شان کو سمجھ گئے کہ یہ
عام پاگل نہیں بلکہ معرفت کے دریاؤں میں غوطہ ظن ہیں ۔ 1971ء کی جنگ کے
بعد آپ دوبارہ عالمِ سلوک اور صحوو ہوش میں آئے اور پھر سے فیضِ عام جاری
ہوا ۔ آپ کی پوری زندگی انتھک محنت ،جہد مسلسل ، زہدو تقویٰ عبادت و ریاضت،
دینی ،ملّی ، ملکی اور قومی خدمات ،تبلیغِ دین ، احقاقِ حق و ابطالِ باطل ،
حب و معرفتِ خدا عزّوجلّ اور عشقِ مصطفی ﷺ کے درس دینے میں گزری ہے ۔ آپ
عشقِ رسول کے پیکر تھے شانِ رسالت میں ذرہ سی گستاخی سن کر آپ برداشت سے
باہر ہو جاتے اور اس کے خلاف آواز اٹھاتے اور برملا فرماتے کہ گستاخِ رسول
واجب القتل ہے ۔ اور پوری زندگی ناموسِ رسالت کی قلمی اور زبانی جنگ لڑی
ہے۔ حالیہ دہشت گردی جس نے پورے عالمِ اسلام کو لپیٹ میں لے لیا ہے اس کے
خلاف ملکی سطح پر سب سے پہلے آپ نے ہی صدائے حق بلند کی جبکہ اُس زمانے میں
ہمارے علماء و مشائخ ، دینی و سیاسی قائدین اور افواجِ پاکستان سمیت سرکاری
لوگ بھی اس طرف متوجہ نہیں تھے ۔ آپ کو قومی جرگہ پر بھی پورا عبور حاصل
تھا اور بغیر کسی اجرت اور دنیوی اغراض و مقاصد کے اخلاص و للّٰہیّت کے
ساتھ شریعت کے تناظر میں فریقین کے تنازعات میں صلح کرایا کرتے تھے ۔ قبائل
کے سخت ترین جھگڑے جو سالہا سال سے چلتے خواہ ان میں کئی اموات ہوتیں علاقے
کے نامور لوگ لاکھوں روپیہ اجرت لے کر اور ہفتوں مہینوں تک فریقین پر بکرے
، دنبے ذبح کروا کر اور بوجھ بن کر بھی فیصلہ کرنے میں ناکام ہو جاتے ۔ آپ
تشریف لے جاتے تو بغیر کسی معاوضے کے چند گھنٹوں میں فیصلہ کر کے دعائے خیر
فرما دیتے ۔ آپ کے اس عملِ خیر اسی طرح آپ کے ہاتھ سے شفائے امراض ، آپ کی
دعا کی قبولیت ، اخلاقِ حسنہ ، حق گوئی ، عاجزی و انکساری اور حسنِ صورت و
سیرت کے آپ کے مسلکی مخالفین بھی گواہی دیتے تھے اور بدل و جان تسلیم کرتے
تھے ۔تاریخ گواہ ہے کہ اہلِ حق کی یہی پہچان رہی ہے ۔ اہل اﷲ اور اہل حق سے
ہر زمانے میں اہل باطل خائف رہتے ہیں اور ان کو اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل
میں رکاوٹ سمجھتے ہیں تو ان کو راستے سے ہٹانے میں اپنی عافیت سمجھتے ہیں
آپ کے ساتھ بھی یہی ہوا جس طرح پورا عالمِ اسلام آج دہشت گردی کی لپیٹ میں
ہے اسی دہشتگردی کے غالبًا سب سے پہلے آپ کے مریدین اور پھر آپ نشانہ بنے ۔
آپ مسلمانوں کے عقائد و اعمال کی اصلاح ، عظمت و شانِ رسالت کے ترانے
پڑھنے، ناموسِ رسالت کا پہرہ دینے، اس پر دلائل قائم کرنے اور ظلم کو ظلم
کہنے میں ہمیشہ مصروفِ عمل رہتے تھے ۔ آپ فرماتے تھے کہ جو ظالم بادشاہ کے
سامنے حق نہ بول سکے حدیث کے رو سے وہ گونگا شیطان ہے ۔ اسی حق گوئی پر آپ
روزِ شہادت تک قائم اور ثابت قدم رہے بس یہی آپ کا قصور تھا جس کے پاداش
میں آخر کار وہ دن آیا جس کی آپ کو بشارتیں ہوئی تھیں اور آپ اسی کی دعا و
تمنا کیا کرتے تھے یعنی جمعہ کا دن ہو اور شہادت کی موت ہو۔ چنانچہ 3جمادی
الثانی 1427ھ بمطابق 30 جون 2006ء بروزِ جمعۃ المبارک آپ اپنی اہلیہ (
راقم کی والدہ ماجدہ ) اور ایک عزیز کے ساتھ اپنی گاڑی میں ایک تعزیت پر
تشریف لے گئے تھے جبکہ آپ کے فرزند ( راقم کے بھائی ) عبدالمصطفیٰ امان اﷲ
چشتی گاڑی چلا رہے تھے ۔ یاد رہے کہ تعزیت کے موقعہ پر بھی موافقین و
مخالفین سینکڑوں لوگوں کے سامنے ظلم و جبر اور مسلمانوں کے قتلِ عام کے
خلاف کلمۂ حق بلند فرمایا الغرض اُس تعزیت سے واپسی پر راستے میں ہی سفاک
قاتلوں نے اپنی گاڑی آپ کی گاڑی سے آگے کرکے آپ پر اندھا دھند فائرنگ کی جس
کے نتیجے میں آپ اور آپ کے فرزند عبدالمصطفیٰ شہید، جبکہ راقم کی والدہ اور
دوسرے ساتھی زخمی ہوئے۔ گاڑی کے اگلے ٹائر قبلہ رخ کھڈے میں گرے اور آگے کی
طرف جھک گئی جبکہ حضرت صاحب نے گولی لگتے ہی سرِ انور آگے کو جھکا کر
پیشانی اور دونوں ہاتھ باڈی پر رکھ کر سجدے کی حالت میں داعیٔ اجل کو لبّیک
کہا اور جامِ شہادت نوش فرمایا ۔
(ع ) بنا کر دند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن ۔ خدا رحمت کند ایں عاشقانِ
پاک طینت را |
|