الله تعالیٰ کو جس ہستی سے محبت
میں کوتاہی برداشت نہ ہو۔ اس ہستی سے محبت میں دنیا اور اس کا مال و متاع
رکاوٹ بن جائے یا کمی کا باعث بن رہا ہو تو ایسا شخص اپنے آپ کو مسلمان
کہلانے کا مستحق نہیں‘ بلکہ وہ الله تعالیٰ کی طرف سے گرفت اور ایسے مواخذہ
کا حقدار ہے جو آخرت سے پہلے دنیا میں بھی بعض اوقات گھیر سکتا ہے۔ مگر
افسوس کہ اس وقت دنیا کے نقشے سے جہاں مسلمانوں کے وجود کو ختم کرنے کی
سفاکانہ و بہیمانہ کوششیں ہو رہی ہیں وہاں مسلمانوں کا ایمانی وجود بھی کڑے
امتحان میں ہے۔ اور ایک عرصہ سے مسلمانوں پر امتحانات پر امتحانات آ رہے
ہیں کبھی امت مسلمہ پر آگ و بارود کی بارش کر کے مسلمانوں کا امتحان لیا
جاتا ہے کبھی شعائر اسلام اور مقدس مقامات کے خلاف ہر زہ سرائی کر کے
مسلمانوں کی دینی حیمت اور اسلامی غیرت کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ ان تمام
مراحل میں امت مسلمہ کو خوابیدہ پا کر دشمنان اسلام اور شیطان لعین کی
روحانی ذریت رسول عربی و رحمت دو عالم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے نام
لیواؤں پر مسلسل حملے کر رہی ہے۔
رسول عربی و رحمت دو عالم صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے عقیدت و محبت رکھنا
ہر مسلمان پر لازم ہے۔ اور محبت بھی ایسی کہ جس کے سامنے دنیا کی ہر عزیز
اور محبوب چیز ہیچ ہو‘ اگر رحمت دو عالم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی محبت
سے بڑھ کر مسلمانوں کی محبت‘ مادیت اور دنا کی چیزوں سے غالب رہی تو یہ
اسلام کی راہ شمار نہ ہو گی‘ بلکہ ہلاکت کا راستہ ہو گا۔ (اعاذناالله من
ذلک)
رسول عربی و رحمت دو عالم صلی الله علیہ وآلہ وسلم
اور آپ کے اصحابہ کرام نے محبوب الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی شان میں
دریدہدہنی کرنے والوں کے خلاف منشاء رب العالمین (محبت رسول) کو کیسے پورا
کیا؟ چنانچہ علماء دین حق فرماتے ہیں کہ یوں تو پورا قرآن کریم حرمت رسول
صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا بیان ہے‘ کیونکہ آپ صلی الله علیہ وآئہ وسلم کی
حرمت و تقدس کے بغیر قرآن کریم کی حرمت و تقدس کا تصور قائم نہیں ہو سکتا‘
جبکہ قرآن کریم میں بطور خاص دو درجن سے زائد آیات مبارکہ ایسی وارد ہوئی
ہیں جن میں رحمت دو عالم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی حرمت وتقدس کو بطور
خاص موضوع بنایا گیا ہے۔ اور آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی بے ادبی‘
گستاخی اور ایزاء رسائی کو حرام قرار دیا ہے۔ ذخیرہ احادیث میں اس باب کی
احادیث لا تعداد و بے شمار ہیں‘ یہاں پر اسلامی تاریخ کی چند اہم اہم
واقعات کی طرف اشارہ مقصود ہے۔ جن میں مسلمانوں نے گستاخ رسول صلی الله
علیہ وآلہ وسلم کو اس کے حقیقی انجام تک پہنچایا۔
دور نبوت میں گستاخی رسول صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے چند واقعات رونما
ہوئے تھے۔ جن مں کعب بن اشرف‘ عبدالله بن ابی الحقیق‘ ابو عفک یہودی‘ نضر
بن الحارث‘ عقبہ بن ابی معیط‘ حورت بن قصید‘ حارث بن طلا طلا اور ان کے
علاوہ کئی مردوں اور عورتوں کو اس بنیاد پر واصل جہنم کرنے کا حکم دیا گا
کہ یہ لوگ رحمت دو عالم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی‘ بے
ادبی اور توہین و تنقیص کے ارتکاب کی وجہ سے خالق کائنات اور مقصود کائنات
صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے ناقابل معافی مجرم قرار پائے تھے۔ اسی طرح
مسلیمہ کذاب‘ جس کو رسول صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت پر حملہ کیا
تھا اس کے جرم اور سزا کے متعلق تمام صحابہ اکرام کا اجماع ہوا اور اس اپنے
ہم نواؤں سمیت الله کی ننگی تلوار (خالد بن ولید رضی الله عنہ) نے گاجر
مولی کی طرح کاٹ کر جہنم کا ایندھن بنا دیا۔
اے غلا مان مصطفی صلی الله علیہ وآلہ وسلم! اگر ہم ایمان کی سلامتی‘
کامیابی دنیا کی ذلتوں و رسوائیوں سے نجات اور آخرت کے عذاب سے حفاظت چاہتے
ہیں تو ہمیں اتباع رسول صلی الله علیہ وآلہ وسلم اور محبت مصطفی صلی الله
علیہ وآلہ وسلم کا سچا و پکا راستہ وہی ہوگا جو منشاء الہی کے مطابق رسول
صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے طرز عمل اور آپ کے دین کی عملی تصویر صحابہ
کرام رضوان الله علیہم اجمعین سے میل و مناسبت گستاخ رسول صلی الله علیہ
وآلہ وسلم کو سزائے موت کا مجرم و مستحق تسلم کرانے کی یہ قرارداد ٢ جون
١٩٩٢ کو پہلی مرتبہ قوی اسمبلی نے متفقہ طور پر منظور کی۔ یہ بات بطور خاص
ذہن نشین ہونی چاہئے کہ گستاخی رسول صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا مرتکب شخص
اور اس میں شامل کذاب کے کارندے الله‘ رسول صلی الله علیہ وآلہ وسلم‘ پوری
امت مسلمہ اور ہمارے آئین و قانون کا ایسا مجرم ہے جس کے جرم کے بعد معذرت
و معافی و توبہ کی قطعاً کو گنجائش نہیں‘ ایسے لعین مجرم کے ناسوری جسم سے
الله کی دھرتی کو پاک کیا جائے اور اسے واصل جہنم کر دیا جائے۔
علماء نے پوری صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ گبیرہ گناہوں اور جرام میں سب سے
بڑا گناہ الله تعالیٰ کی ذات اقدس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھرانا ہے۔ اگر کوئی
انسان شرک جیسے عظیم گناہ سے توبہ کرتے ہوئے رحمت الہی کی سائے میں آنا
چاہے تو رحیم ذات اپنے عفو در گزر سے نواز دیتی ہے۔ مگر محقق علماء شریعت
کے بقول رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی گستاخی( جو بالا جماع کفر
ہے) کے بعد “توبہ“ کی کوئی صورت نہیں یعنی گستاخ رسول صلی الله علیہ وآلہ
وسلم کی توبہ قبول ہی نہیں اس کے ساتھ ہی ساتھ اس کے ہم نواؤں کی بھی توبہ
کی کوئی صورت نہیں۔ کیونکہ رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی گستاخی کے
جرم کا تعلق جہاں الله تعالیٰ سے ہے۔ وہاں رسول الله صلی الله علیہ وآلہ
وسلم کی ذات سے بھی ہے “توبہ“ کرنے والے سے “حق الله“ تو معاف ہو سکتا ہے
لیکن رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی ایذاء توہین و تنقیص کی وجہ سے
جو حق تلفی ہوئی ہے۔ اس کی معافی کی دنیا میں رسول الله صلی الله علیہ وآلہ
وسلم کی طرف سے کوئی ظاہری صورت نہیں اور جب تک رسول الله صلی الله علیہ
وآلہ وسلم گستاخی کے مجرم کو اپنا حق معاف نہ کردیں تو قانون الہی میں اس
مجرم کی “توبہ“ “توبہ“ ہی شمار نہیں ہو سکتی‘ چہ جائے کہ قبول بھی ہو‘ اس
تفصیل سے یہ بات ثابت ہوا کہ رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی گستاخی
کے مرتکب کے لئے سزائے موت متعین ہے۔ اس سلسلے میں کسی قسم کی نرمی اختیار
کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا‘ اسی لئے امت مسلمہ کی نمائندگی کرتے ہوئے اور
پاکستانی قوم کی ترجمانی کرتے ہوئے گستاخ رسول الله صلی الله علیہ وآلہ
وسلم کے مجرموں کو اور ان کے ہم نواؤں کو سزائے موت دے۔
اگر اسلام کے نظریاتی قلعہ پاکستان کی دھرتی پر کوئی مسلم یا غیر مسلم ازلی
بدبختی کا مظاہرہ کرتے ہوئے رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم یا کسی بھی
نبی مکرم کی شان میں۔ العیاذالله۔ گستاخی کا مرتکب ہو تو اس کا جرم ثابت
ہونے پر اسے بلاتاخیر اسلامی اور ملکی آئین کے مطابق سرعام سزائے موت دی
جائے۔ اس سلسے میں کسی قسم کی نرمی معافی یا اپیل کی گنجائش ہرگز نہ رکھی
جائے اور قانون سازی کے ذریعہ گستاخ رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی
سزائے موت کو ہمیشہ کے لئے ہر قسم کی ترمیم و تخفیف سے بالا تر قرار دیا
جائے۔ اس لیے کہ پوری دنیا کا نقشہ مٹ جانا ناموس رسالت کے سامنے ذرا بھر
حیثیت نہیں رکھتا‘ ایک پاکستان نہیں اگر پوری دنیا تحفظ ناموس رسالت کے
مقابلہ میں داؤ پر لگ جائے تو کوئی بڑی بات نہیں‘ کیونکہ ساری کائنات آپ ہی
کے لئے تو سجائی گئی تھی۔
الله رب العزت امت مسلمہ کو خاتم النبین صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا حقیقی
عشق ومحبت نصیب فرمائے اور ایسے مسلمان بھائیوں کو جو گستاخ رسول الله صلی
الله علیہ وآلہ وسلم اور اس کے ہم نواؤں کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہوں کو
ہدایت کاملہ سے نوازے آمین( یا رب العالمین )-
کی سزا صرف “موت“ |