’مسجد تو بنا لی شب بھر میں‘
(Shamim Iqbal Khan, India)
ہندی کویؤں کے لیے کہا گیا ہے
’جہا ں نہ پہنچے رَوِی وہاں پہنچے کَوِی‘یعنی جہاں سورج کی روشنی نہیں پہنچ
سکتی ہے وہاں شاعروں کے خیالات پہنچتے ہیں۔اسی طرح کے ایک شاعر نے اپنی
دماغی گھوڑے دوڑا کر یہ شعر کہہ دیا
دل خوش ہوا اک مسجدِ ویران دیکھ کر
میری طرح خدا کا بھی خانہ خراب ہے
ہو سکتا ہے آبادی سے دور کسی سُن سا ن جگہ پرغیر آباد مسجد کو دیکھ کراس کے
ذہن سے یہ شعر کُلبلا کے نکلا ہو۔ایک شاعر صاحب کے گھر سے مسجد بہت دور
تھی، اس لیے انہوں نے مسجد جانے کے بجائے ’بچوں کو ہنسانے‘ کا کام شروع
کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ان کو شاید یہ نہیں معلوم کہ نماز پڑھنا حقوق اﷲ کی
ادائگی ہوتی ہے اور بچوں کو ہنسانا یعنی ان کی تعلیم اور تربیت پر توجہ
دیناحقوق العباد میں آتا ہے اور مسلمان پریہ دونوں فرض ہیں۔ایک شاعر پرست
صاحب نے کہا کہ فلاں شاعر نے ماں کی عظمت پر بے شمار اشعار کہہ کر اپنی
مغفرت کا راستہ آسان کر لیا۔اﷲ تو بڑاکریم ہے، پتہ نہیں کس کی کون سی ادا
پسند آجائے اور مغفرت کر دے اور نماز، روزہ ،حج و زکوۃ رکھے رہ جائیں۔
حالانکہ اسلامی عبادات ( نماز، روزہ ،حج و زکوۃ) میں نماز کو مرکزی حیثیت
حاصل ہے۔توحید کا کلمہ پڑھنے کے بعد نماز قائم کرنے کا ہی حکم ہے۔اکثریت
میں مسلمان نماز کی فرضیت اور اہمیت سے پرہیزکرتے ہوئے صرف جاننے کی حد تک
مسلمان ہیں۔بہر حال یہ بات اطمینان بخش ہے کہ نئی مساجدبن رہی ہیں اور آباد
بھی ہو رہی ہیں۔اﷲ تعالی کے نزدیک روئے زمین کا سب سے زیادہ محبوب و متبرک
حصہ مساجد ہی ہیں جن کو اﷲ کا گھر کہا جاتا ہے۔’یہ سراپاخیر و برکت کا باعث
ہیں، لوگوں کی بقاء و استحکام کے اسباب ہیں اور رشد و ہدایت کے مراکز ہیں
نیز امن و امان کا گہوارہ، سکون و اطمینان کا آماجگاہ ہیں،اسلامی زندگی کے
لوازم ہیں، مسلمانوں کے دینی و روحانی مراکز ہیں۔ان کے لیے’ اﷲ تعالیٰ نے
حکم دیا ہے کہ ان(مساجد) کا ادب کیا جائے‘۔
مساجد کی پاکی اور صفائی کے سلسلہ میں ایک حدیث میں حضور اقدسؐ کا ارشاد ہے
کہ ’جولہسن ، پیاز وغیرہ کھائے تو وہ مجھ سے دور رہے اور ہماری اس مسجد سے
دور رہے بلکہ اپنے گھر میں بیٹھا رہے‘‘۔(مسلم) اور حضرت عمر فاروقؓ سے مروی
حدیث میں ہے کہ میں نے دیکھا کہ جب آپ ؐ مسجد میں موجود کسی آدمی میں پیاز
لہسن کی بو محسوس فرماتے تو آپؐ اُس کے سلسلہ میں(باہر نکالنے کا) حکم
فرماتے پس اُسے مسجد سے باہر بقیعّ(قبرستان) میں نکال دیا جاتا
‘‘۔(مسلم،بحوالہ اسلامی زندگی)۔
طہارت و صفائی کے سلسلہ میں ارشاد خداوندی ہے کہ ’’اس (مسجد قبا ء) میں
ایسے (نمازی) بندے ہیں جو خود پاک و صاف ہونے کوپسند کرتے ہیں اور اﷲ
تعالیٰ خوب پاک و صاف ہونے والوں کو پسند فرماتا ہے(سورہ توبہ: ۱۰۸)۔ایک
جگہ اور ارشاد خدا وندی ہے کہ ’’اور ہم نے حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسمٰعیل
ؑ کے طرف حکم بھیجا کہ تم دونوں میرے گھر کو پاک صاف رکھو‘‘۔(سورہ بقرہ:
۱۲۵) ۔
مولانا خالد فیصل ندوی اپنی کتاب’اسلامی زندگی‘ میں تحریر فرماتے ہیں
کہ’’حضرت ابراہیمؑ کی پیدائش سے دو ہزار سال پہلے، دنیا میں اﷲ تعالیٰ نے
اپنے محترم گھر ’کعبہ‘ کی بنیاد فرشتوں کے ذریعہ پانی پرقائم فرمایا،
چنانچہ حضرت ابو ہریرہؓکی روایت ہے کہ زمین کی پیدائش سے قبل اسے (کعبہ کو)
پانی پر رکھا گیا۔ اور دوسری مرتبہ اس کی تعمیر حضرت آدم ؑ نے کی اور اس کا
طواف فرمایا‘‘۔
آج بھی مساجد اﷲ کا گھرکہی جاتی ہیں جو نماز کے اصل مراکز ہیں کیوں کہ آپؐ
ایمان لانے والوں کو پہلا حکم اپنے علاقوں اور قبیلوں میں مساجد بنانے کا
ہی دیتے تھے اور الحمد اﷲ آج مساجد کا شمارممکن نہیں ہو رہا ہے۔شاید یہی
وجہ ہے کہ اس کی کثرت نے ہمارے دلوں سے مساجد کا احترام نکال دیا ہے اور ہم
مساجد کی بد نظمی کا بہانہ لیکردوسرے کے گریبان پر ہاتھ ڈالنے کی فکر میں
لگے رہتے ہیں۔ابھی بہت پرانی بات نہیں ہے ، لکھنؤ کے ایک قریبی ضلع کی جامع
مسجد میں،پرانی کمیٹی پر الزام و بہتان لگا تے ہوئے ایک نئی انتظامیہ
کمیٹی(عموماً انگوٹھا چھاپ لوگوں کی) بن گئی۔اس مسجد میں کئی دوکانیں ہیں
جو ذمہ داری کے ساتھ اچھا خاصہ کرایہ ہر ماہ ادا کرتے ہیں۔انہوں نے اپنے
’منی فیسٹو‘ میں بات رکھی کہ ہماری کمیٹی دوکانوں کا کرایہ کم کر دے گی اور
نتیجہ یہ ہو ا کہ ناخواندہ نئی کمیٹی کے ممبران کو لوگوں نے دوڑالیا۔
جس طرح مندروں اورمٹھوں کے پجاری،پروہت لوگ چڑھاوے کے مالک ہو تے ہیں اسی
طرح نادان،کام چور لوگوں کی نظرمساجد واوقاف کی جائداد اور آمد نی پر رہتی
ہے اس لیے موجودہ کمیٹی کی کارکردگی پرانگلی اٹھانا،بد عنوانی کی باتیں کر
کے لوگوں کو ہم خیال بنانے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ اپنے خیالات کے لوگوں
کو جمع بھی کر لیتے ہیں مسجد کے اندر باہرلڑائی جھگڑے کا ماحول بنانا شروع
کر دیتے ہیں۔ ان کو نہ تو اﷲ کا خوف ستاتا ہو اور نہ سماج کا ڈر۔ یہ لوگ ان
خیالات کے ہوتے ہیں کہ ’دو چار جوتوں میں عزت جاتی نہیں ہے اور ہزار پانچ
سومارنے کون آتا ہے‘۔بہر حال بد عنوان لوگ بہت زیادہ ٹکاؤ نہیں ہوتے،پول
کھلتے ہی نکال باہر کر دیے جاتے ہیں۔
مساجدکی کمیٹیوں کا مقصد ہو تا ہے ان کی دیکھ ریکھ اور نمازیوں کو سہولت کے
کام کرنا ،مشورے اور غور فکر کرتے رہنا۔آمد و خرچ کا حساب رکھنا،ملّت کے
پیسے کو بہت سوچ سمجھ کر خرچ کرنا۔کیونکہ ملّت بھی حساب پوچھ سکتی ہے اور
اﷲ کو تودینا ہے ہی۔مساجد کے انتظامیہ کی ذمہ داری بہت ہیں ، کسی بھی حالت
میں اسے سرسری طور پر نہ لیناچاہئے۔ انتظامیہ کو اس بات کی بھی فکر کرنا ہے
کہ مسجد میں کوئی ائسی چیزتعمیر نہ ہویا خریدی نہ جائے جو نمازیوں کے فایدے
یا استعمال میں نہ آئے۔مساجد کو شرر پسندوں سے حفاظت کا بندوبست کرنا۔ مسجد
سے جو شخص بھی جڑا ہے چاہے وہ نمازی ہو یا منتظمین ، ہر کوئی مسجد کا خادم
ہے۔
لہسن ، پیاز کھا کر مسجد میں آنے کی پابندی ہے،اگر بتّی یا موم بتّی جلانے
کے لیے ماچس جلانے کی بھی پابندی ہے لیکن ہم لوگ کرتے کیا ہیں؟مسجد کے
دروازے پر کھڑے ہو کر بیڑی کے دو تین لنبے لنبے کش لے کر ،تھوڑا گھوم کر
بیڑی کا ٹُرّاپھینک کر مسجد میں داخل ہو گئے، وضوکر کے نماز میں مشغول ہو
گئے۔یہ صاحب اس خیال سے بالکل بے فکر ہیں ان کے منھ سے نکلنے والی بد بو
کااثر،پاس میں کھڑے لوگوپر کیسا پڑ رہا ہوگا اور فرشتوں کاجو حال ہو گاوہ
اﷲ ہی جانے۔
گھر سے وضو کر کے مسجد جانے میں بڑا اجر و ثواب ہے لیکن لوگ اس بات پر
زیادہ یقین رکھتے ہیں کہ مسجد میں ہی اگر وضو کیا جائے تو تازہ وضو زیادہ
کارآمد ہو سکتا ہے۔گھر میں لوٹے یا مگّے سے وضو کرنا پڑیگا،لوٹے سے بار بار
پانی لینا پڑتا ہے، مسجد میں ٹوٹی کھول دیا اور مسواک کرنا شروع کر دیا(یہ
آسانی گھر پر کہاں؟)۔اگر کسی نے غلطی سے ٹوک دیا تو اس کی ایسی حالت کر دیں
گے کہ وہ آئیندہ کسی کو ٹوکنے کے لائق رہ ہی نہ جائے۔جس طرح ہمارے ہم وطن
آر․ایس․ایس․والے جو دِل چاہتا ہیں کہتے ہیں اور کرتے ہیں کیونکہ اس سلسلہ
میں ان لوگوں نے اپناذہن بالکل ساف کر رکھا ہے کہ مرنے کے بعد ان لوگوں کو
اپنے کرموں کا کسی طرح کا حساب بھی دینا ہے۔لیکن مسلمانوں کو ہر چیز کا
حساب دینا چاہے پانی ہویا بیڑی و کپڑے کی بدبو۔
ترمذی شریف کی ایک حدیث ہے کہ ’’تم جب کسی کو مسجد کی خدمت کرتے دیکھو تو
اس کے ایمان دار ہونے کی گواہی دو‘‘۔سو رہ توبہ آیت ۱۸ کا خلاصہ کرتے ہوئے
حضرت مولانا خالد فیصل ندی اپنی کتاب ’اسلامی زندگی‘ میں لکھتے ہیں کہ’خانہ
کعبہ، مسجد حرام اور دیگر تمام مساجد الٰہی کے اصل متولی اور منتظم وہ
افراد ہو سکتے ہیں جو دل سے اﷲ تعالی اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہوں،
نماز کو قائم کرتے ہوں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہوں(دینی امور کے انجام دینے
میں) صرف اﷲ تعالیٰ سے ڈرتے ہوں اور شرک سے بالکل دور رہتے ہوں، ان قرآنی
صفات کریمانہ سے متصف لوگ ہر زمانہ اور ہر علاقہ میں واقع مساجد کے متولی
اور منتظم بن سکتے ہیں کیوں کہ ان صفات کے حامل متولی اور منتظم مساجد کی
جملہ(داخلی و خارجی) خدمات بحسن خوبی انجام دے سکتے ہیں‘۔
عورتوں کا مسجد میں نماز پڑھنے کے سلسلہ میں ارشاد نبویؐ ہے کہ’’عورتوں کا
کوٹھری میں نماز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ وہ دالان میں نماز پڑھیں اور دالان
میں نماز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ وہ صحن میں نماز پڑھیں۔البتہ عورتوں کو
مسجد کی ضروریات پوری کرنے کی امکان بھر کوشش کرنا چاہئے۔پانی کا انتظام،
چٹائی کا انتظام اور خوشبو وغیر کا سامان بھیجیں اور مسجد سے دِلی تعلق
قائم رکھیں(’آدابِ زندگی‘ محمد یوسف اصلاحی)
اﷲ تعالیٰ کا گھر یعنی مساجد ہم خوب بنائیں اور خوب خدمت کریں کیونکہ اﷲ رب
العزت نے مساجد بنانے والوں کی اور خدمت کرنے والوں کی بڑی توقیر کی
ہے،انعامات کے بڑے وعدے فرمائے ہیں۔ہم ان انعامات کو حاصل کرنے کا کوئی بھی
موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ہم نے جو مساجد بنائی ہیں وہ چاہے شب بھر میں
ہوں یا کئی سال لگ گئے ہوں ان کو پورا احترام کرنا ہے۔ہم اﷲ سے دعا کریں کہ
وہ ہمیں مساجد کی خدمت اور احترام کرنے والا بنا دے۔ |
|