خالق کون ومکان کا فرمان اہل ایمان کے نام

’’وَلَاتَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْھَبَ رِیْحُکُمْ‘‘ (پ۱۰۔ سورہِ انفال۔ آیت۴۶)
آپس میں لڑو بھڑو نہیں ورنہ کم ہمت ہوجاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔
جو حراء کے جاننے والے تھے صوفی ہوگئے
داستانِ بدر والے شیعہ سنی ہوگئے
ڈاکٹر مولانا محمد عبدالسمیع ندوی
]ایم اے(عربی، اردو، فارسی) ، بی ایڈ ، یو جی سی نیٹ ، پی ایچ ڈی[
لیکچرر شعبہ عربی ، ڈاکٹر رفیق زکریا کالج فار ویمن ، نوکھنڈہ اورنگ آباد


آج ہر کوئی اسلام دشمنی اور مسلمانوں کے ساتھ خصومت پر اتر آیا ہے۔ زندگی کے ہر شعبہ میں اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اُن کی جان ، مال ، آبرو یہاں تک کہ اُن کے دینی مدارس اور دین و مذہب میں دراندازی کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ہر شعبہ میں مسلمانوں کو ایذارسانیوں کا سامنا ہے۔انھیں ذہنی اور دماغی الجھنوں میں مبتلا کیا جارہا ہے۔ دخترانِ اسلام کو اسلام سے برگشتہ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور غلط سروے کے ذریعہ یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ مسلم خواتین ، مسلم پرسنل لاء سے بیزار ہیں اور اِس میں ترمیم کے خواہاں ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مردوں کی بہ نسبت خواتین کی اسلام کی خاطر ایثار و قربانی کی ایک تاریخ رہی ہے، کیونکہ اُن میں مردوں کے بہ نسبت اسلام کے تحفظ اور بقاء کے لئے جاں نثاری کا جذبہ زیادہ نمایاں نظر آتا ہے۔ اُن میں تقویٰ و طہارت کے ساتھ ساتھ اسلام پر مرمٹنے کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے اور وہ اپنی اولاد کو دین حنیفف پر ثابت قدم رکھنے کی نہ صرف تاکید کرتی ہیں بلکہ انھیں حق پر ڈٹے رہنے کی تلقین کرتی ہیں۔ ممکن ہے بعض نام نہاد خواتین اور عیش پرست ہوں گی جو دشمنان اسلام کے سازشوں کا آلۂ کار ہوگئی ہوں۔ اِس قسم کی خواتین سے نہ ہی اسلام کو نہ ہی دخترانِ اسلام کو اور نہ ہی مسلمانوں کو کچھ فرق پڑتا ہے۔ اُن کے ڈوب مرنے کے لئے چلو بھر پانی ہی کافی ہے ؂
آبرو باقی تیری ملت کی جمعیت سے تھی
جب یہ جمعیت گئی دنیا میں رسوا تو ہوا

حالیہ دور میں مسلم قوم جن حالات سے دوچار ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ عجیب ذہنی کشمکش ، دماغی تناؤ ، بے چینی و اضطرابی کیفیت میں مبتلا یہ قوم اپنے ہر شعبہ کے بڑوں کی طرف نظریں اٹھائی ہوئی ہے اور انہی کے احکامات پر عمل پیرا ہونے کے لئے بیقرار ہے جو بڑی خوش آئند بات ہے۔ مجلس مشاورت ، ملی کونسل ، جمعیت اہلحدیث ، جماعت اسلامی ہند، جمعیت علماءِ ہند محمود مدنی و ارشد مدنی کے علاوہ اور بھی مختلف بڑی بڑی تحریکیں و تنظیمیں امت کی خاطر تمام ہی مکاتب فکر اور مختلف مسالک کے حامل متحدہ پلیٹ فارم بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور یہ تمام ہی تنظیمیں و تحریکیں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کو اپنا مسلمہ مسلم نمائندہ بورڈ تصور کرتے ہیں ۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ حقیقت میں ہندوستانی سطح پر تمام مسلمانوں کا ہر طرح سے سیاسی ، سماجی ، عائلی ، دینی و مذہبی ہر اعتبار سے نمائندگی کرنے والا بورڈ ہے۔ جس کا حکم واجب العمل کا درجہ رکھتا ہے۔ دین و دستور بچاؤ تحریک اُس کی ایک بہترین کڑی ہے۔ (مگر کیا کیا جائے اُن چند مٹھی بھر مفاد پرستوں کے طرزعمل پر سوائے ماتم اور نوحہ کرنے کے ۔ جو میرجعفر ، میر صادق اور قارونی صفت کے حامل ہیں۔ قوم کے افراد کو چاہئے کہ وہ اس طرح کے مکاروں ، مفاد پرستوں ضمیرفروشوں ، زرخریدوں سے ہوشیار رہا جائے۔ اِس قسم کے نادانوں اور احمقوں کو اپنوں سے دور رکھا جائے۔ ضرورت پڑنے پر اِن بدقماشوں سے سماجی بائیکاٹ بھی کیا جائے۔ ) ان ناگفتہ بہ حالات میں یہ چند مٹھی بھر پیٹ بھرو …… اور جیب بھرو …… لوگوں کی وجہ سے دشمنانِ اسلام تمام مسلمانوں کو بنیانِ مرصوص( یعنی سیسہ پلائی ہوئی دیوار )مضبوط عمارت بننے میں رکاوٹ بنتے نظر آرہے ہیں۔ موجودہ حالات کے تناظر میں حضورﷺ کی محبت کے جذبہ سے سرشار اور حضورﷺ کی ذاتِ اقدس پر اپنی جان نچھاور کرنے کا جذبہ رکھنے والے اکابرین ملت ، اولیاءِ کرام اور بزرگانِ دین کے حکموں کی پاسداری کرنے والوں سے نہایت ہی مؤدبانہ التماس ہے کہ وہ اپنی دور رس نگاہوں ، دور اندیشی اور دوربینی سے کام لیتے ہوئے یہودی، عیسائی اور فسطائی طاقتوں کی سازشوں سے اپنی امت کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے اپنے تن من دھن ، دل و دماغ کو بروئے کار لائیں اور ہر معاملے میں میانہ روی اور اعتدال کی راہ اپنائیں اور اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کریں کہ دشمنان اسلام کے نزدیک ہر وہ شخص جو کلمہ پڑھتا ہو ، جس کا اﷲ ایک ہو ، رسول ایک ہو ، قبلہ ایک ہو ، اِن سب کو مسلمان سمجھتے ہیں۔ یہ اُن کی وسیع النظری ہے لیکن کیا کیا جائے ہماری تنگ نظری کو ، کوئی کہتا ہے وہ مسلمان نہیں ، کوئی کہتا ہے یہ مسلمان نہیں ۔ ایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتوے صادر کرتے ہیں۔ حالات جب خراب ہوتے ہیں اور دشمن مسلمانوں کو جب نشانہ بناتے ہیں وہ یہ نہیں دیکھتے کہ کون شیعہ ہے کون سنی۔ کون تبلیغی ہے کون جماعت اسلامی ، کون حنفی ہے کون شافعی، کون اہلحدیث ہے اور کون اہلسنت۔ واقعی ہم سب کو ہوش کے ناخن لینے کی سخت ضرورت ہے ۔ اﷲ ، رسول قرآن ،قبلہ اور کلمہ یہی چیزیں ہمارے اتحاد کا معیار ہونا چاہئے۔ دیگر جزوی اور فروعی مسائل میں نہ پڑتے ہوئے ہمیں اچھی طرح اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور قرآن کا یہ ازلی پیغام ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے۔ ’’وَلَاتَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْھَبَ رِیْحُکُمْ‘‘ آپس میں لڑو بھڑو نہیں ورنہ کم ہمت ہوجاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔
جو حراء کے جاننے والے تھے صوفی ہوگئے
داستانِ بدر والے شیعہ سنی ہوگئے

امت مسلمہ کو درپیش مسائل و حالات کا سرسری جائزہ ہمیں دعوت فکر دیتا ہے ۔ ان ناگفتہ بہ حالات میں ہمیں نہایت غوروفکر اور تدبر ، فہم و فراست اور ہوشیاری سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں آپسی ، جزوی ، فروعی اور مسلکی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے وسعت ذہنی اور وسعت نظری کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ کیونکہ آج الحادپرستی ، دہریت ، انکارِرسالت ، انکارآخرت ، عیسائیت ، سبائیت ، بہائیت ، قادیانیت ، اشتراکیت اور فسطائی طاقتیں اور نہ جانے کون کون سے فتنے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ریشہ دوانیوں میں مصروف عمل ہیں اور اسلام اور مسلمانوں کو کچلنے کے لئے پئے در پئے اقدامات کرتے جارہے ہیں۔ ان تمام فتنوں کی سرکوبی کے لئے ہمیں مکمل طور پر اتحادواتفاق کی شدید ضرورت ہے۔ ہر خوابیدہ مسلم کو جگانا ہے اور صلاح و فلاح کی شمع جلانا ہے۔ ہمیں اپنے نزاعی مسائل کو باہم رائے و مشوروں کے ذریعہ حل کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنے دینی و سیاسی معاملات میں سنجیدگی ، اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور یہ بات ہم جس طرح جانتے ہیں کہ ’’جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘ لیکن اگر دینی امور، امورِشریعت اور اسلامی معاملات میں سیاست آجائے تو پھر یقین جانئے ناکامی ، نامرادی اور کرب انگیزی یقینی ہے۔ اﷲ ہمیں ایسے مواقع پر خلوص و ﷲیت اور رضاالٰہی کی خاطر عمل پیراں ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
جو قوم اپنے دین و عقیدہ کی حفاظت نہیں کرتی ، اپنے دینی اخلاق و عادات کو نہیں اپناتی ، اُس کی بنیاد ہل جاتی ہے اور عزت و غلبہ خاک میں مل جاتا ہے ؂
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

لہٰذا دین کی کماحقہ قدر کرنا ، اس کے شعائر کا ادب و احترام کرنا ، اس کے ارکان و احکام کا معلوم کرنا اور اس کی ساری تعلیمات پر عمل پیراں ہونا ضروری ہے ؂
کبھی نظامِ خلافت پہ غور کر نہ سکا
دماغ و روح کی نسبت پہ غور کرنہ سکا

یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ دین اسلام اخلاق کریمانہ کی تعلیم دیتا ہے ۔ رذائل اور پستی کی باتوں سے روکتا ہے ، ایسے اخلاق کی تعلیم دیتا ہے جن کے اپنانے سے انسان ، مجسم اخلاق ، پیکر شرافت اور انسانیت کا اعلیٰ نمونہ بن جاتا ہے ؂
تو نظر آئے مسلماں ،اپنے ہر کردار سے
وضع سے ، اخلاق سے ، رفتار سے ، گفتارسے

عدل و انصاف دین کا اہم ستون ہے۔ اسلام لطف و مہربانی ، ہمدردی و انسانیت ، احسان و خوش اخلاقی ، پڑوسیوں اور رشتہ داروں کے ساتھ اچھے سلوک کی تعلیم دیتا ہے۔ ادائیگی نماز و زکوۃ کا حکم کرتا ہے ، باہم اچھے اخلاق اور اچھی عادات اپنانے اور آپس میں نفاق و انتشار سے بالکلیہ منع کرتا ہے۔ پریشان حالوں ، فقراء و مساکین کے حالات پر نظرکرم کا حکم دیتا ہے۔ قتل و خونریزی ، شراب نوشی و عیاشی ، چوری لوٹ مار ، دھوکہ دہی اور جوے بازی ، یتیم کا مال ناحق کھانے ، کسی کا حق زبردستی دبانے اور لوگوں پر ظلم و زیادتی سے شدت سے روکتا ہے ؂
ایک دم نہ ہوسکی ہم سے کبھی طاعتِ حق
ایسا پابند ہمیں حرص و ہوا نے رکھا

ا سی کے ساتھ ساتھ دشمنوں سے ڈراتا اور ہوشیار بھی کرتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ ان کے مقابلے میں تیار رہنے کا حکم بھی دیتاہے۔ ارشاد خداوندی ہے : وَاَعِدُّوا لَھُمْ مَااسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّۃٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُوْنَ بِہِ عَدُوْا اللّٰہِ وَ عَدُوَّکُمْ مطلب اس آیت کا یہ ہے کہ ’’جہاں تک ہوسکے طاقت و قوت سے اور گھوڑوں کو تیار رکھنے سے اُن (دشمنوں) کے مقابلے کے لئے تیار رہو۔‘‘

اس آیت میں تیاری کا حکم اس لئے دیا کہ دشمنوں پر قوت و غلبہ حاصل ہو ، ان کی دشمنی او رعداوت کی آگ کو بجھایا اور قوت و شوکت کو توڑا جاسکے۔ حضورﷺ کا فرمان ہے : ألْمُوْمِنُ الْقَوِیُّ خَیْرٌمِنَ الْمُوْمِنِ الْضَّعِیْفِ ’’طاقتور مومن ، کمزور مومن سے بہتر ہوتا ہے۔‘‘ فرمان رسولﷺ کی روشنی میں دین و مذہب کے نام پر مارے جانے والا ، عزت و ناموس کی حفاظت میں مارا جانے والا ، اپنے مال و دولت کی حفاظت میں مارا جانے والا ، یہ سب اﷲ کی راہ میں شہید کہلاتے ہیں ؂
کتابِ ملتِ بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے
یہ شاخ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بار پیدا

یہ حقیقت تسلیم شدہ ہے کہ مذہب اسلام عزت و سربلندی کی زندگی کا دین ہے۔ ا س نے ہم پر بے شمار فضائل و خوبیوں کا سایہ ڈال رکھا ہے۔ اگر ہم ان خوبیوں کو اپنائیں تو کبھی شکست نہیں کھا سکتے۔ مگر ہائے افسوس ! ان اعلیٰ خوبیوں کو چھوڑ کر ہم ہر چیز میں غیروں کی تقلید کرتے ہیں۔ ہم یورپین تہذیب کے دلدادہ ہیں۔ ماڈرن اور فیشن ایبل لوگوں کی مدح سرائی میں ہم رطب اللسان ہیں۔ ہم حالاتِ زمانہ سے مرعوب ہیں۔ اہل زمانہ کے رسوم و خرافات سے مجبور و متاثر ہیں، ہم میں بعض وہ بھی ہیں جنھیں اپنے باپ داداؤں کے عقائد ، رسوم و رواج و خرافات کی تو پرواہ ہے مگر اپنے برگزیدہ پیغمبر حضرت محمد ﷺ کے طریقے کی پرواہ نہیں۔ غیروں کی تقلید میں اتنے بہک گئے ہیں کہ لباس میں ،کھانے پینے میں ،ظاہری وضع قطع میں ہم مغربی تہذیب و تمدن کے شکار ہیں۔ شاید اسی تبدیلی حالت کو دیکھ کر شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا ؂
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کر شرمائیں یہود

آج معاشرے پر ، سرسری نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ وہ کون سی برائی ہے جو ہمارے معاشرہ میں نہیں ہے۔ شراب نوشی ، رشوت و سودخوری ، جوا و سٹہ بازی اور اس جیسی بے شمار برائیاں ہیں۔ حد یہ ہے کہ ہم اﷲ کی کتاب کو پس پشت ڈال کر شیطان کے چیلوں سے قانون بنواتے ہیں جو سراسر خلافِ شریعت ہوتے ہیں۔ امورشریعت میں شروع میں امارت شرعیہ سے رجوع ہوتے ہیں ، اگر فیصلہ ہماری مرضی کے مطابق ہوا تو ٹھیک ورنہ ہم سرکاری عدالتوں کا رخ کرتے ہیں اور اس کے بعد ہم غلط راستے پر چلتے ہیں اور ایسے قوانین کو مانتے اور تسلیم کرتے ہیں جن کو غلط لوگوں نے بنایا ہے اور قوانین کے نتائج ہمارے لئے خطرناک ہوتے ہیں۔

اگر ہم غیروں کی نقل و تقلید کرنے کے لئے مجبور ہی ہیں تو محنت و جدوجہد میں غیروں کی نقل کیو ں نہیں کرتے۔ ملکی مفادات کی خاطر راتوں کی نیند حرام کیوں نہیں کرتے۔ صنعت و حرفت ، زراعت وغیرہ میں ان کی تقلید کیوں نہیں کرتے، ان کے مفید علوم کو کیوں نہیں سیکھتے، جب کہ ہم اپنے اسلاف اور بزرگانِ دین کی زندگیوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے خداکی رسی کو مضبوطی سے تھاما اور استقامت کے ساتھ رسول اکرم صلعم کی اتباع اور پیروی میں تمام مفید علوم کو حاصل کیا اور دنیا و آخرت دونوں خوبیوں کے جامع بنے۔ بڑی بڑی حکومتیں قائم کیں اور دنیا والوں کے نورنظر بنے۔ ہم بھی عزت و سربلندی کے خواہشمند ہیں۔ سطوت و غلبہ کی تمنا رکھتے ہیں، غیروں کو ان کا مقام معلوم کرانا چاہتے ہیں اور اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے اسلاف کے طریقے کو اپنا نا ہوگا۔ اپنے اندر خوداعتمادی پیدا کرنا ہوگی۔ اپنے باہمی معاملات کو رفع دفع کرنا ہوگا۔ اﷲ اور رسولؐ کی اطاعت کو اپنا شعار بنانا ہوگا کہ یہی مومن کی شان ہے اور اسی سے مسلمان ، مسلمان ہے اور اسی میں اس کی عزت و سربلندی کا راز پوشیدہ ہے ؂
شب گریزاں ہوگی آخر جلوۂ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے
وقت فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نورِ توحیدکا اتمام ابھی باقی ہے
٭٭٭
syed farooq ahmed
About the Author: syed farooq ahmed Read More Articles by syed farooq ahmed: 65 Articles with 52294 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.