مجسمہ

مجسمہہمارے گرد کتنے مجسمے ہیں جو ” ہیرو “ کہلانے پر مصر ہیں شاید انہیں خبر نہیں کہ جب پتھر مجسمے اپنے آپ کو ہیرو سمجھنے لگتے ہیں ‘ تو جعلی پندارریت کی دیوار کی طرح زمین بوس ہوتا ہے ۔
سنگ تراش نے پہاڑ سے بڑا سا پتھر کاٹا اور وادی کے دامن میں لڑھکا دیا ۔ پتھر کا ٹکڑا ایک ہموار قطعہ زمین پر رکا تو سنگ تراش ہتھوڑا چھینی لے کر اس پر پل پڑا ۔ اس کے ذہن میںاس شخصیت کا مکمل خاکہ آ چکا تھا جس کو وہ پتھر پر تراش کر ایک مجسمہ بنا کر شہر کے وسط میں نصب کرنا چاہتا تھا۔ اسے حکم ملا تھا کہ قوم کے اس ہیرو کو پتھر پر ایسا تراشو کہ لوگ دیکھتے رہ جائیں ‘ایسے نصب کرو کہ آنے والی نسلوں تک ہیروکی ہیبت اور دبدبہ قائم رہے ۔ سنگ تراش نے محنت اور محبت کے ساتھ مجسمے کی تراش خراش شروع کر دی ۔ اسے کیا خبر تھی کہ اس ہیرو کے مجسمے کو کئی برس لگ جائیں گے ۔ ایک ایک عضو پر کئی کئی مہینے لگ گئے۔ ایسے میں ہیرو کے ساتھ ساتھ سنگ تراش کو مجسمے سے محبت بھی ہو گئی تھی ۔ وہ چھینی پر ہتھوڑے کی ہلکی ضرب لگاتا اس کے نتیجے میں جو ٹکڑے الگ ہوتے وہ انہیںسنبھال کر رکھ دیتا۔مجسمہ بنتا گیا ‘ کنکریوں کا ڈھیر بھی بڑا ہوتا گیا ‘ آخر ایک روز سنگ تراش ہاتھ جھاڑ کر کھڑا ہو گیا ۔ اس کے ذہن کا خاکہ اب مجسمے کی صورت میں موجود تھا ۔ اس کی قوم کا ہیرو اب شہر کے بڑے چوک میںکھڑا ہونے کو تیار تھا ۔ سنگ تراش اسے بادشاہ وقت کے حکم پر چوک میں نصب کر نے لگا ۔ اس نے سب سے پہلے ایک خوب صورت چبوترے کی بنیاد رکھی اور اس چبوترے میں پتھر کے وہ ٹکڑے چن دیے جو مجسمے کی تراش سے نکلے تھے ۔ ایک خوب صورت چبوترا تیار ہوگیا اب مجسمہ اٹھایاگیا اور اپنی ہیبت و دبدبے کے ساتھ بلند ہوگیا ۔

مجسمہ کیاکھڑا ہوا ‘ گویا ہیرو خود کھڑا ہوگیا تھا ۔ ہر چھوٹا بڑا ‘ بوڑھا ‘ جوان ‘ عورت اور مرد گزرتے ہوئے ہیرو کے مجسمے کو سلیوٹ کرتے ‘ آداب بجا لاتے ‘ اس کے سامنے سے محبت و عقیدت کے ساتھ گزرتے ۔ ہیرو کی برسی آتی یاسالگرہ ‘ لوگ مجسمے کے سامنے کھڑے ہوتے ‘ سر جھکاتے ‘ یادگاری جلسے کرتے ‘ ناچتے اور سلامی دیتے ۔
پتھر کے مجسمے نے جو یہ حال دیکھا تو پھولے نہ سمایا ۔ ایک شام وہ آپے سے باہر ہو گیا ‘ اپنی بنیاد میںدبے سنگریزوں کو مخاطب کر کے بولا :
” دیکھو ! میری کیا خوب پذیرائی ہے ‘ میں کتنا بے مثل ہوں ‘ میری عزت و تکریم ‘ میری ہیبت و دبدبہ ‘ میری شان و شوکت کے سامنے ہر کوئی جھکا جاتا ہے ‘ کوئی بڑے سے بڑا دیوتا میرا کیا مقابلہ کرے گا۔“
اس کی یہ بات بادلوں نے ‘ درختوں اور ہواﺅں نے سنی ان سنی کر دی۔
اس کی بڑسنگ ریزوں کے لیے تھی جو اس کے قدموں میں دبے تھے جن کی وہ کوئی حیثیت نہیں سمجھتا تھا ‘ وہ بے حیثیت ‘ بے توقیر ‘ حقیر ذرے۔!!
” او مغرور مجسمے ‘ تمہیں اپنا ماضی یاد ہے کیا ....؟ “ایک روز ایک کنکر نے اسے للکار ا۔
” کیا ....؟“ مجسمہ بوکھلا گیا .... ” تمہاری یہ جرات ‘ مجھے مغرور کہتے ہو ‘ میں اس قوم کا ہیرو ہوں ‘ میں نے اس قوم کو بلندی تک پہنچایا ہے۔“
” نہیں “ ایک اور کنکر چیخا....” تم ہیرو نہیں ہو ‘ تم ہیرو کا مجسمہ ہو ‘ تم تو ہماری طرح پتھر کا ایک ٹکڑا ہو‘ تم تو ایک بے روح بت ہو ‘ تمہاری خودکوئی حقیقت نہیں ‘ حقیقت کا عکس ہو۔“
” میں اس دنیا میں اکیلا ہوں ‘ دنیا مجھے پوجتی ہے ‘ کنکریاں تو اور بھی ہیں ‘ ہر جگہ ہر کہیں ۔“
” تم احمق ہو چکے ہو۔‘ تمہیں ماضی بھول گیا ہے ۔“ ایک سنگ ریزے نے کہا ۔
” ہم ایک دوسرے سے ہر گز مختلف نہیں ‘ ہم ایک ہی نسل کے ہیں ۔ فرق یہ ہے کہ تم تراشے ہوئے ہو ‘ ہم چنے گئے ہیں ۔‘ ‘
” بکواس نہ کرو ۔“ ایک دم مجسمے کو غصہ آگیا۔
” سنو ! احمق مجسمے تمہیں معلوم نہیںکہ تم ہمارے سہارے کھڑے ہو تمہارا سارا جاہ و جلال ہماری مرہون منت ہے ۔“
” تمہاری حیثیت ہی کیا ہے۔“ مغرور مجسمے نے کہا۔
پھر سنو ! ہم تمہارا حشر کرنے چلے ہیں۔“ بہت سارے سنگ ریزے للکارے ۔
” میں ایک قدیم ہیرو کا مجسمہ ہوں ‘ میں تم سے بر تر ہوں ۔“
ابھی اس نے اتنا ہی کہا تھا کہ ایک سنگ ریزہ چبوترے سے پھسلا ‘ اب ہیرو کے مجسمے کواپنی اصلیت کا اندازہ ہونے لگا وہ خوشامد پر اتر آیا ۔
” ٹھہر وہم دوست ہیں ‘ ہم تو مل کر ایک چیز بنے ہیں ‘ ہم ایک ہیں ‘ ایک دوست کی طرح ایک دوسرے کی حیثیت کا احترام کرنا ہماری ضرورت ہے۔“
چینی کہاوت ہے کہ غرور اس گھاس کی مانند ہوتا ہے جوہر سال سردیاں ختم ہونے کے بعد پھر سے اگ آتی ہے ۔
مجسمے کا غرور چند لمحے بعد پھرعروج پر تھا اس نے دور دور تک انسانوں کو دیکھا جواسے سلامی دے رہے تھے۔
’ ’ میں کتنا عظیم ہوں ۔“ وہ پھر للکارا ۔
” تم عظیم نہیں ہو‘ عظیم تو وہ انسان تھا جس کا تم مجسمہ ہو ‘ تم ایک فرضی چیز ہو۔“
” ہمیں احمق بنایا گیا ہے ‘ ہم تمہارا وزن مفت میں اٹھائے ہوئے ہیں ‘ تم جیسے پتھر کا بوجھ اب ہمارے لیے نا قابل برداشت ہے۔“
” میں تمہیں پیس دوں گا ۔“ مجسمہ چلایا ۔
دن ڈھلا ‘ شام آئی توسنگ ریزوں نے ایکا کر لیا ۔ رات آئی سنگ ریزوں نے زور لگایا ایک ایک کر کے الگ ہونے لگے ‘ دور پہاڑوں سے صبح طلوع ہو رہی تھی ‘ جب سنگ ریزے مجسمے کے بوجھ سے آزاد ہو گئے۔ مجسمہ منہ کے بل زمین پر آ گرا اور ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا ۔ سنگ تراش کو خبر ہوئی وہ بے تابانہ آگے بڑھا ۔ اپنی تخلیق کو زمین بوس دیکھ کر آنکھوں میں آنسو بھر لایا ۔ پھر اس نے کسی ہیرو کا مجسمہ تراشنے سے توبہ کر لی۔ مجسمے کا ملبہ لوگوں نے اٹھاکر دور دیہات کی کچی شاہراہ پر ڈال دیاجہاں ایک پختہ سڑک چمک اٹھی ۔ سنگ ریزے ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرائے ۔
” اب ہم سب برابر ہیں ‘ اب ہم میںسے کوئی فرضی ہیرو نہیں کوئی بڑا کوئی چھوٹا نہیں ۔“
ہمارے گرد کتنے مجسمے ہیں جو ” ہیرو “ کہلانے پر مصر ہیں شاید انہیں خبر نہیں کہ جب پتھر مجسمے اپنے آپ کو ہیرو سمجھنے لگتے ہیں ‘ تو جعلی پندارریت کی دیوار کی طرح زمین بوس ہوتا ہے ۔
Muhammad Saghir Qamar
About the Author: Muhammad Saghir Qamar Read More Articles by Muhammad Saghir Qamar: 51 Articles with 34158 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.