دادا کا تھپڑ

ار کا موسم ہر سال آتا رہا لیکن بہار آزادی کا وہ دن نہیں آیا جس کی آرزو لیے کتنے دادے یوں ہی رخصت ہو گئ
چنار کہانی

شجر کاری کا موسم جب بھی آتا ہے ، میں اپنے بچپن کی ایک تلخ و شیریں یاد میں کھو جاتا ہوں ، یوںلگتا ہے کہ میرے گال پر کسی نے تھپڑ کھینچ مارا ہے۔ بے اختیار میرے ہاتھ گال کو سہلانے لگتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے وقت کی فلم الٹی چلنے لگی ہے ۔ میرے سامنے اچانک برسوں پہلے کا منظر گھوم جاتا ہے ۔ ایک ستر سالہ باریش بزرگ کا نحیف و نزار سراپا میرے سامنے آن کھڑا ہوتا ہے۔ کاپنتے ہاتھ ، لڑکھڑاتی ٹانگیں ، جھریوں بھرا چہرہ، ہاتھ میں لاٹھی .... گویا زندگی کے روشن دان کا دور افق میں ڈوبتا سورج ۔

وہ میرے دادا جان تھے، پیار ومحبت کے پیکر لیکن جانے آج کیوں انہیں بے پناہ غصہ آ گیا تھا ۔ ان کا ہاتھ لہرایا اور میرے گال پر آ پڑا۔ میں کافی دیر تک روتا رہا۔ انہوں نے مجھے بہت پیار کیا ، مٹھائی منگوا کر دی ، بار بار دلاسہ دیتے رہے پھر بھی میں چپ نہ ہوا تو وہ خود بھی رونے لگے ۔اتنا روئے کہ ان کی بوڑھی آنکھیں چھلک پڑیں اور سفید داڑھی تر ہو گئی ۔ ان کو روتا دیکھ کر بے اختیار میری ہنسی نکل گئی ۔ مجھے ہنستا دیکھ کر وہ رونا بھول گئے ۔ اس واقعے کے ایک سال بعد بہار ہی کے دنوں میں وہ دنیا سے رخصت ہو گئے۔اب تو انہیں گئے ہوئے بھی چار عشرے بیت گئے۔

گزشتہ شجر کاری کے موسم میں جب میں اپنے گاﺅں میں پودے لگا رہا تھا تو میں اس جگہ پہنچ کر ٹھٹھک گیا جہاں آج سے برسوں پہلے میں ایسا ہی پودا ہاتھ میں لیے کھڑا تھا ۔ دادا جان کو جانے کیسے خبر ہو گئی تھی ، وہ لاٹھی ٹیکتے ہوئے آئے اور مجھے اشارے سے روکتے ہوئے تحکمانہ لہجے میں بولے۔ ” تم یہ پودا نہ لگاﺅ ۔ “
” آخر کیوں “ ؟ میں نے وضاحت چاہی ۔
” اس ویرانے میں پودے لگانے کی ضرورت نہیں ۔ بس کچھ ہی عرصے بعد ہم واپس اپنے ”گھروں“کو چلے جائیں گے۔ وہاں ہمارے بڑے باغ ہیں ،ا خروٹ کے درخت بھی ہیں ۔ یہاں اخروٹ لگانے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ “ انہوں نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔
” لیکن جو لوگ یہاں رہیں گے وہ تو اس سے فائدہ اٹھائیں گے ۔ “ میں نے آخری کوشش کی ۔ اگلے ہی لمحے ایک زنانے کا تھپڑ میرے گال پر پڑ چکا تھا ۔
” بکواس کرتے ہو ، کون رہے گا ،جن کے پاس ہم ٹھہرے ہوئے ہیں ان کو بھی ساتھ لے چلیں گے ۔ “
میرے ہاتھ سے پودا گر گیا ۔ اگرچہ اس واقعے کو مدت گزر گئی لیکن مجھے یوں محسوس ہوا جیسے دادا جان نے پھر میرے گال پر تھپڑ دے مارا ہے یا میں کوئی چوری کرتے ہوئے پکڑا گیا ہوں ۔ میں نے پودا اور کدال وہیں پھینکی اور دیر تک منڈھیر پر بیٹھا سوچتا رہا۔
میری نظروں کے سامنے گزرے لمحے فلم کی طرح چلنے لگے ۔ دادا جان کو دنیا سے رخصت ہوئے برس ہا برس بیت گئے ۔ وہ ۷۴۹۱ءمیں راجوری کے نواحی قصبے پٹھان موہڑہ سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے۔ راجوری سے وہ گجرات چلے گئے ۔ ان کا خیال تھا چند دنوں کی بات ہی تو ہے پھر اپنے پیارے دیس کو لوٹ جائیں گے ۔ گجرات میں ایک پرانے دوست کے پاس ٹھہر گئے تا کہ جونہی کشمیر کی آزادی کا اعلان ہو ، واپس اپنے گاﺅں جا سکیں ۔
ایک روز اس میزبان دوست نے میرے دادا جی سے کہا، اب واپسی کے امکانات کم ہیں ، میں آپ کو یہاں شہر میں کچھ زمین الاٹ کر ادیتا ہوں ۔ یہ سن کر وہ جلال میں آ گئے۔
” تمہارا خیال ہے کشمیر آزاد نہیں ہوگا ، ضرور ہوگا ہم اپنے گھروں کو ضرور واپس جائیں گے ، یہاں میں زمین الاٹ نہیں کر ا سکتا۔ ایسی بات کر کے تم میرے سب سے بڑے دشمن بن گئے ہو۔ “
میزبان اور دادا جان کی اس مختصر بحث نے انہیں ایک دوسرے سے جدا کر دیا ۔ اسی روز انہوں نے اپنا سامان سمیٹا اور جہلم چلے گئے ۔ چک جمال کے مہاجر کیمپ میں کچھ دن تک قیام کیا مگر جی نہ لگتا تھا ۔ ان کا خیال تھا کہ سیز فائر لائن کے قریب رہا جائے تا کہ جوں ہی کشمیر کی آزادی کا اعلان ہو فی الفور گاﺅں پہنچ جائیں ۔
اسی خیال کے پیش نظر انہوں نے سیز فائر لائن کے ساتھ اس ویرانے کا انتخاب کیا تھا ۔ جہاں سے جنگ بندی لائن چند گام پر ہے اور کبھی بھارتی فوجی گولیاں چلاتے ہیں تو ہمارے بھائی بند شہید ہوتے رہتے ہیں ۔ دادا جان نہیں چاہتے تھے کہ ہم لوگ اپنا دل یہاں لگا ئیں اور اس ویرانے کو پودوں سے سجا لیں ۔ کل جب کشمیر آزاد ہو جائے تو یہ گھر بھی اجڑ جائیں ، یہاں رہنے والا کوئی نہ ہو۔
میرے دادا جان دوسرے برس ہی چل بسے تھے۔ اپنے اجدا کی بسائی ہوئی بستیوں سے دور، اسی ویرانے کی خاک ان کے حصے میں آئی جس میں پودا لگانے سے مجھے انہوں نے روکا تھا ۔ ان کے جانے کے بعد میرے والدبھی راجوری لوٹنے کے خواب دل میں بسائے ہوئے چل بسے اور ہم بھی اسی انتظار میں زندگی کے نصف النہار پر پہنچ چکے ہیں ۔ میرے دل میں اپنے دادا جان کے ادھورے خوابوں کو تعبیر دینے کا جذبہ موجزن رہا لیکن افسوس اس خواب کی تعبیر شاید ابھی دور ہے۔
سوچتا ہوں کبھی تو کشمیر آزاد ہوگا ۔ میں دادا جان سے کہتا تھا کہ پٹھان موہڑہ میں آپ کے خوابوں کی بستی دیکھنے ضرور جاﺅںگا ۔ آپ کے خوب صورت باغوں میں گھوموںگا ، ان گلیوں کو دیکھوں گا ، اخروٹ کے چھتنار درختوں کے سائے میں بیٹھوں گا جن کو پھر دیکھنے کی آپ کی آرزو پوری نہ ہو سکی۔ پھر ان سے میرا وعدہ کیا وعدہ ہی رہا؟
کہتے ہیں ، آج وہاں قابض فوجوں کی چھاﺅنی ہے ۔ ہمارے بزرگوںکی قبروں کے قریب فوجی بوٹوں کی دھمک سنائی دیتی ہے۔ جہاں اجداد کے گھر تھے وہاں قاتل فوجیوں کے کیمپ ہیں لیکن میرا یقین مجھ سے کہتا ہے کہ بہت جلد میں ان کی آرزو کے عین مطابق وہاں جاﺅں گا ۔ مجبوری کی کوئی زنجیر میرے قدموں میں نہ ہوگی ۔ان کے سارے پیغام اجداد کی قبروں کے پاس کھڑے ہو کر ان تک پہنچاﺅں گا ۔ لیکن اے میری محترم ہستی ! آپ کی حسرتوں کا مداوا کیسے کروں گا ؟ اس ویرانے میں آج برسوں پرانے درخت قطار در قطار کھڑے ہیں ۔ یہاں ایک پودا لگانے کی جسارت کرنے پر آپ نے مجھے تھپڑ ماردیا تھا۔وہاں درختوں کا جنگل سا اگ آ گیا ہے۔ ویرانے آباد ہو چکے جو قافلے آزادی کی منزل کو پانے نکلے تھے ان قافلوں کے رہبر راستے ہی میں گھر بسا کر ہمیشہ کے لیے بیٹھ گئے ۔ کشمیر کی آزادی کا خواب دیکھنے والی کتنی آنکھیں تہہ خاک بے نور ہو گئیں۔ آزادی کا راستہ دکھانے والے گم ہو گئے ۔ بہار کا موسم ہر سال آتا رہا لیکن بہار آزادی کا وہ دن نہیں آیا جس کی آرزو لیے کتنے دادے یوں ہی رخصت ہو گئی-
Muhammad Saghir Qamar
About the Author: Muhammad Saghir Qamar Read More Articles by Muhammad Saghir Qamar: 51 Articles with 34152 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.