دنیا میں پٹرول کی قیمتیں کم ہو رہی ہیں۔
اسی تناسب سے ائر لائنز کے کرائے بھی کم ہو رہے ہیں۔ اس کا براہ راست اثر
مارکیٹ پر ہوتا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہوں تو ہر چیز کے نرخ کم
ہو جاتے ہیں۔ یہ سادہ سی بات ہے۔ فلاحی ریاستیں مہنگائی کے دور میں بھی
اپنے شہریوں کی زندگی کو آسان بناتی ہیں۔ صارفین کی قوت خرید کو مدنظر رکھا
جاتا ہے۔ جہاں بات دینی معاملات کی ہو، وہاں اور بھی آسانی پیدا کی جاتی ہے۔
مذہبی زائرین کو اس کا فائدہ پہنچایا جاتا ہے۔ تہواروں پر خصوصی رعایتیں دی
جاتی ہیں۔ مگر بعض مسلم ممالک میں شاید یہ تصور الگ ساہے۔عید آنے پر قیمتیں
کم ہونے کے بجائے ان میں اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ المیہ ہے کہ پاکستان بھی اس
صف میں سر فہرست نظر آ رہا ہے۔
جب مسلہ مقدس فریضہ حج بیت اﷲ کا ہوتو اس کے لئے مزید آسانی ، سہولیت اور
رعایت دینے کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ اس میں کمائی یا کاروبار کا کوئی
تصور نہیں۔ ہر ایک بالغ، عاقل، صحت مند، جسمانی اور مالی استطاعت رکھنے
والے مسلمان پر زندگی میں کم از کم ایک بار حج فرض ہے۔ اﷲ کے گھر کا طواف
صاحب ثروت کے لئے لازمی ہے۔ اپنی حلال کمائی میں سے زندگی بھر لوگ تھوڑی
بچت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تا کہ وہ کبھی حج کی سعادت حاصل کر سکیں۔ مگر
ہر سال روایتی انداز میں حج اخراجات بڑھا دیئے جاتے ہیں۔جو غریب کی پہنچ سے
باہر ہوتے جا رہے ہیں۔
2015میں پاکستان میں حج پیکج کا خرچ ملک کے شمالی علاقہ جات کے لئے 2لاکھ
64ہزار971روپے اور جنوبی علاقوں کے لئے 2لاکھ 55ہزار971روپے تھا۔ پی آئی اے
نے بھی گزشتہ سال شمالی اور جنوبی علاقوں کے لئے اپنے معمول کے کرائے کم کر
کے بالترتیب 98ہزار 700اور 89ہزار 700 روپے کئے۔ دیگر فضائی کمپنیوں کو بھی
پی آئی اے کی طرح اپنے کرائے ایڈجسٹ کرنا ہوتے ہیں۔ گزشتہ برس سرکاری حج
سکیم کے تحت جانے والے حجاج کرام کو مکہ مکرمہ ،مدینہ منورہ اور منی میں
حکومت کی طرف سے کھانا فراہم کیا گیا۔ تا ہم اس کی قیمت حج کے مجموعی پیکج
میں پہلے سے شامل رکھی گئی تھی۔ مکہ مکرمہ میں رہائش کا کرایہ بھی وہی وصول
کیا جاتا ہے جو اصلاً بنتا ہے۔ جبکہ مدینہ منورہ میں رہائش کا کرایہ ایک
مقررہ شرح کے مطابق فی حاجی کے حساب سے وصول کیا جا تا ہے۔
2016کے لئے حکومت کی جانب سے سرکاری سکیم کے تحت حج اخراجات میں کمی کے
بجائے اس میں 22ہزار675روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ پی آئی اے نے بھی گزشتہ
برس کے مقابلے میں شمالی علاقوں کے عازمین کے لئے کرایوں میں کوئی کمی نہیں
کی۔ جب کہ اس کی کافی گنجائش پیدا ہو گئی ہے۔ تا ہم اس نے جنوبی علاقوں کے
عازمین کے لئے 10ہزار روپے کمی کی ہے۔ جب کہ یہ کمی بھی تیل قیمتوں میں
گراوٹ کی تناسب سے کم ہے۔ جب عالمی مارکیٹ میں فی بیرل تیل کی قیمتیں کم
ہوئیں تو توقع تھی 2016میں حج اخراجات کو بھی مناسب حد تک کم کر دیا جائے
گا۔
مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں رہائش اور خوراک اخراجات میں بھی 21ہزار
روپے اضافہ کیا گیا ہے۔ جب کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں رواں برس اشیاء کی
قیمتیں کم ہوئی ہیں۔
پاکستان کے لئے حج کوٹہ بھی 180000سے کم کر کے 143000مقرر کیا گیا تھا۔
کیوں کہ حرم کا توسیعی کام جاری تھا۔ یہ کام مکمل ہو چکا ہے۔ اس لئے توقع
ہے کہ سعودی حکومت اب حج کوٹہ میں مناسب اضافہ کرے گی۔ تا کہ زیادہ سے
زیادہ عازمین حج کی سعادت سے فیض یاب ہو سکیں۔
سرکاری کوٹہ کے ساتھ حکومت پرائیویٹ حج آپریٹرز کو بھی کوٹہ دیتی ہے۔ حج
گروپ آرگنائزرز کے ساتھ ایک معاہدہ سروس پرووائڈر ایگریمنٹ کیا جاتا ہے۔ جس
کے تحت حج آپریٹرز حجاج کرام کو ضروری سہولیات فراہم کرنے کے پابند ہوتے
ہیں۔ مگر ان میں سے اکثرکے خلاف ہر سال شکایات کے انبار لگ جاتے ہیں۔ جن پر
کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔
حکومت امور کرایہ، خرید سامان، عمارات کو کرایہ پر حاصل کرنے، ٹرانسپورٹ کے
حصول، خوراک کے انتظامات اور دیگر متعلقہ اشیاء و خدمات کے حصول کے لئے
کمیٹیاں تشکیل دیتی ہے۔ جو اس بات کی پابند ہوتی ہیں کہ وہ حج پالیسی میں
دی گئی رہنمائی کے مطابق کام کریں۔ مگر ان کا چیک ایند بیلنس بھی نہیں ہو
پاتا۔ علاوہ ازیں ایک حج ایدوائزری کمیٹی بھی بنتی ہے۔ جو پاکستان اور
سعودی عرب میں حج پالیسی، پلان، آپریشنز کے انتظامات میں رہنمائی دیتی ہے۔
وزیرامذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی اس کے سربراہ ہوتے ہیں۔ اس کے
ارکان میں سینٹ اور اسمبلی کی قائمہ کمیٹیاں ، چیئرمین سینٹ کا نامزد
سینیٹر، اسمبلی سپیکر کا نامزد اسمبلی رکن اور دیگر شامل ہوتے ہیں ۔ پھر
بھی حجاج کرام شکایات کرتے ہیں۔ جو جائز ہوتی ہیں۔ حج میڈیکل مشن، معاونین
حج، وزارت مذہبی امور کا سٹاف، مقامی معاونین کی تعداد بھی ڈیرھ ہزار افراد
سے بڑھ جاتی ہے۔ حج آرگنائزر کے بھی درجنوں لوگ موجود ہوتے ہیں۔ پھر بھی
مسائل کم نہیں ہوتے۔ اس پر حکومت کو غور کرنے کی ضرورت درپیش کیوں نہیں
ہوتی؟۔ ظاہر ہے کہ میرٹ کی پامالی، دھاندلی، اپنے لوگوں کو حج ڈیوٹی دلانے
اور دیگر وجوہات ہی بے ضابطگی کا جواز پیدا کرتی ہیں۔
حکومت اگر ایک سہولت کار کے طور پر شفاف عمل سے انتظامات نہیں کرے گی تو اس
پر انگلیاں ضرور اٹھیں گی۔ اسے عازمین کے لئے قرآن و سنت کے مطابق مناسک حج
کی ادائیگی میں سہولیات بہم پہنچانے ہوتی ہیں۔ یہ حج انتظامات کو بدنام
کرنے یا تہمت لگانے کی بات نہیں ۔ ایک اصولی بات ہے۔ حکومت کو حج اخراجات
او ر سہولیات کے نام پر حج کو کمائی کا زریعہ نہیں بنانا چاہیئے۔ بلکہ
عازمین کے لئے کم از کم اخراجات کو یقینی بنانے کی فکر کرنا چاہیئے۔ اگر
حکومت اس سلسلے میں تسلی بخش انتظامات اور پالیسی تشکیل نہیں دے گی تو یہ
نا انصافی اور ظلم ہو گا۔ اس ظلم سے بچنے کی تدبیرکی جا سکتی ہیں۔ سعودی
حکومت بھی ٹرمینل ٹیکس میں کمی کر سکتی ہے۔ جبکہ حج واجبات، سروس
چارجزوغیرہ میں بھی کمی ہو سکتی ہے۔
حج اخراجات میں اضافہ واپس لے کر اس میں ضروری اور مناسب کمی کی گنجائش ہے۔
کمائی اور کرپشن سے حج کو پاک کیا جانا انتہائی لازمی بن چکا ہے۔ |