قرآن پاک اور ہماری زندگی

اﷲ رب العزن کا کلام جو کہ ہمارے پاس قرآنی شکل میں موجود ہے اس کے اندر اتنی طاقت و قوت ہے کہ وہ مردہ زمین کو زندہ کرنے والے پانی سے زیادہ مردہ ضمیر کو زندہ کرنے والا ہے۔ اس سچائی کا ادراک ہونے کے باوجود ہم رب العالمین کے کلام سے دور ہیں ۔ ۔۔کیوں۔۔۔؟ ؟؟یہ ہے وہ سوال جو آج میں اپنے سمیت سب کے اوپر کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔کیونکہ حقیقت سے رو گردانی نہیں کرنی چاہیے بلکہ حقیقت کو تسلیم کرنا ہی کامیابی کی نشانی ہے۔اگر ہم اپنے ایک دن کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ جو ترجیحات ہماری ہیں وہ ایک ایسے مسلم کی ہو ہی نہیں سکتیں جسے آخرت کی فکر لگ چکی ہو۔ ہماری صبح۔۔۔دوپہر۔۔۔شام۔۔۔ رات۔۔۔سارے ہی اوقات اس زندگی سے دور ہیں جسے آخرت کی فکر کرنے والے کی قرار دیا جائے۔ ہماری ان ترجیحات کو بدلنے والی کتاب صرف ایک ہے جس کو ہم نے اپنے سے دور کر رکھا ہے۔ ۔۔! قرآن پاک سے آج ہمارا رشتہ عقیدت کا ہے۔۔۔ اور شائد افسوس سے اس حقیقت کو ماننا پڑے کہ اس حد پہ ہمار ا تعلق ختم ہو جاتا ہے۔قرآن پاک کی تلاوت پہلا درجہ سے ، جسے اپنی روزانہ کی طرززندگی میں جگہ دینے والے بے حد کم لو گ ہیں۔ہماری بحیثیت مسلم قوم ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہی مجرمانہ غفلت ہے، ہماری اس کوتاہی پہ امت جس زوال کا شکار ہے اس کی ذمہ دار ی ہم میں سے کوئی بھی انفرادی طور پہ تسلیم نہیں کرتا، آج امت کے روشن مستقبل کے جھوٹے خواب دکھانے والے مادی ترقی کو سبب بتا کر ہمیں مزید دین سے دور کر رہے ہیں۔ اس اعتراف بنا چارہ نہیں ہے کہ ہم قرآن کو چھوڑ کر ہی رسوائے ِ زمانہ ہو چکے۔ جس کافر کا رعب آج ہمارے دل میں گھر کر چکا ہے اسے رب کی فرمانبرداری کی صورت میں اﷲ ہماری غلامی میں دینے کو تیار ہے مگر ہمیں رب کی بغاوت و نافرمانی سے فرصت ہو تو تب۔۔۔۔ نعوذبااﷲ۔۔۔۔ہماری بے حسی ہمیں دنیا میں رب کی طرف ، اس کے کلام کی طرف متوجہ ہونے دے تو شائد ہم بھی اس زندگی کی کچھ قدر کر پائیں۔ اﷲ ہمیں تلاوت ِ کلام کی طرف متوجہ فرمائے کہ دلوں کے زنگ کو دور کرنے والے قرآن کے سوا کوئی راہ ِ نجات ہے ہی نہیں ۔۔۔اﷲ ہمیں اس بات کا فہم نصیب فرمائے ۔۔آمین۔۔۔قرآن پاک کوبرکت کے لیے تلاوت کرنے والے، دنیاوی مسائل کے حل کے لیے پڑھنے والے کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جن کی سوچ دنیا کے رنگ میں ایسی رنگی جا چکی ہے کہ اس سے آگے ان کا ذہن کام ہی نہیں کرتا۔ ربِ کائنات نے دنیا کی زندگی کو مثل ِ جنت بنانے کو مسودہ جاری فرمایا اور جنت میں داخلہ کی سند قرار دیا، اور ایسا شفاعت کرنے والا بتایا جس کی شفاعت قبول ہو گی اور ضرور قبول ہو گی۔ مگر ہم نے اپنی کوتاہ عقلی سے اسے مجدود کردیا ۔۔ ۔ برکت و ثواب کے لیے تلاوت کرنا اگرچہ نہ کرنے سے بہتر ہے مگر کیایہی قرآن پاک کا حق ہے۔۔؟ نہیں ۔۔۔ ہر گز نہیں۔۔۔ قرآن پاک تو وہ مقدس کتا ب ہے جو غور و فکر کی دعوت دیتی ہے۔۔۔ اس کی ایک ایک آیت مردہ سے مردہ ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ غافل ترین مسلمان کو جگانے کی طاقت رکھتی ہے۔ نافرمان کو متقی بناتی ہے۔ متقی کو اپنے رب کی محبت میں آبدیدہ کر دیتی ہے۔مگر یہ سب ہمارے رب نے ہمارے اختیار پہ چھوڑا ہے کہ چا ہو تو اختیار کرو۔ چاہے تو ساری عمر دین کے کاموں کے لیے دعاؤوں ، وعدوں اور نیتوں میں گزار دو۔

تلاوت اور غور و فکر کے بعد قرآن پاک ہمیں ایک عملی زندگی کی طرف لانے میں معاون بنتا ہے۔ ایک ایسی زندگی جس میں رب چاہی کو اولیت حاصل ہو اور من چاہی کا انکار ۔۔۔ رب کی رضا میں اپنی رضا شامل ہو۔۔۔ صبر و شکر سے آراستہ ۔۔۔ ایثار و قربانی سے سرشار۔۔۔ اخوت و محبت کا پیکر۔۔۔ خلق خداکی محبت سے معمور۔۔۔ یہ زندگی کوئی خواب یا افسانہ نہیں۔۔۔ قرآن پاک کو رہبر بنانے والے کی عام زندگی ہے۔۔۔ جو قرآن کو آگے رکھتا ہے ، اپنی زندگی میں قرآن کو رہبر بناتا ہے۔ اپنی عقل کو قرآن کے تابع کرتا ہے اﷲ اس کے سینے کو منور فرما دیتے ہیں ۔ محبت الہٰی سے معمور یہ دل و سینے رشد و ہدایت کا گہوارہ بن جاتے ہیں۔۔ قرآن پاک کو اپنی عملی زندگی بنانے والا کبھی ناکام نہیں ہو سکتا اور قرآن کو چھوڑ کر کوئی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اس یقین کو بنائے بنا اگر ہم اس دنیا سے چلے گئے تو یقینی طور پہ ایک بڑی ناکامی کا سامنا کرنا ہو گا۔

اسلامی طرز ِ زندگی کا یہ بھی امتیاز ہے کہ جو اسے اختیار کرنا چاہے یا اختیار کے بعد استقامت کا خواہش مند ہو۔۔ دونوں صورتوں میں ایک ہی راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے اور یقینی طور پہ وہ راستہ دعوت کا ہے ۔ قرآن پاک کو پڑھنا نصیب ہو گا۔ اس میں تدبر کی توفیق ملے گے۔ اس پہ عمل کرنے کی ہمت پیدا ہو گی ۔ اگر ہم اس کی دعوت ہر ایک کو دین۔ جتنا ہم اس دعوت پہ زور دیں گئے اتنا ہمیں اﷲ تعالیٰ زیادہ نوازیں گے۔ قرآن پاک کے سیکھنے اور سکھانے کے عمل کو بہترین عمل قرار دیا گیا ہے۔ اس بہترین عمل کو اپنانے کے ہر خواہش مند کو اس کی دعوت کو عام بھی کرنا ہو گا۔رب کی اطاعت کی نیت کر کے اﷲ کی زمین پر اﷲ کے نظام کو دیکھنے کو خواہش مند بن جاؤں۔

اﷲ ہمیں تلاوت قرآن پاک کی عادت، تدبر کی صلاحیت، عمل کی قوت اور دعوت ِ حق کا داعی بننے کی توفیق عطا فرمائے(آمین)

نظریہ توحید اور حقیقت وحدانیت کو محض ایک مذہبی رسم سمجھنے والی بے لگام دنیا کو اُسی کے اسلوب کو روکنے کے لیے جامع سدباب کرنے کی اس وقت اشد ضرورت ہے۔ کتاب اﷲ اتنی باکمال ہے کہ احساسِ عبدیت سے خالی سینوں میں دھڑکنے والے دلوں کو آج بھی قرآنی آیات
سے متاثر کیا جا سکتا ہے۔

قرآن مجید میں سورہ البقرہ کی اکیسویں اور بائیسویں آیت میں بیان کیا گیا ہے کہ
"الے علمبردارانِ انسانیت! بن جاؤ اپنے پالنہار کے عبادت گزار، جو (نہ صرف)تمہارے پیکر و جود کا خالق ہے (بلکہ)تمہارے (عالمِ وجود میں آنے سے) قبل انسانوں (کے جتنے گروہ بھی گزرے ہیں اُن سب) کا خالق ہے(اور اُس کی اس تخلیق کاری کا واحد مقصد اس کے سوا کچھ نہیں) کہ تمہیں حشیت الہٰی کی سعادت نصیب ہو جائے۔ وہ ہی تو ہے جس نے (تمہارے پاؤ ں تلے وسائل ِ حیات سے مالا مال) زمین کا فرش بچھایا اور (تمہارے سروں پر) آسمانِ(بے کراں) کا(گویا ایک)سائبان اُستوار کیا اور (اسی) آسمان (کی سمت) سے پانی بھی برسایا (اور اسی پانی کے ذریعہ) بشکلِ ثمرات ، تمارے رزق اور سامانِ بودوباش اور ہر قسم کے رزق کا سامان بھی بہم پہنچایا۔ چنانچہ (تمہاری تخلیق سے لے کر تمہارے لیے نطام رزق تک اﷲ ہی کی خلاقی مصروف ِکار رہی ہو) تو (تمہارے لیے زیبا نہیں کہ )تم کسی اور (مخلوق کو) اسکا شریک بناؤ، اور تم اس حقیقت سے با خبر ہو)"۔

کس قدر سادہ اور قابل فہم آیات ہیں کہ جن کو ہر انسان بڑی باخوبی سے سمجھ سکتا ہے، ان آیات میں صرف یہ ہی بیان کیا گیا ہے کہ اپنی زندگی میں صرف اور صرف ایک ہی رب کو خالق سمجھو نہ کہ کسی اور ذات کی پیروی کرو ، اسی میں تمہاری دنیا ، قبر اور آخرت سب جہانوں کی بھلائی کا راز پوشیدہ ہے۔ وہ مالک حقیقی ہے اور رزاق ہے۔

ـ"وہی اﷲ ہی ہے جس نے تمہیں سننے اور دیکھنے کی قوتیں دیں اور سوچنے کو دل دئیے۔ مگر تم لوگ بہت ہی کم شکر ادا کرتے ہو، وہ (اﷲ) ہی تو ہے جس نے تمہیں زمین میں پھیلا رکھا ہے اور تم (سب ) اسی کے پاس اکٹھا کئے جاؤ گے، وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے، رات اور دن کا بدلنا بھی اسی کے اختیار میں ہے۔ کیا تمہاری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی،
سورۃ المومنوں 23ترجمہ آیات 78تا 80

ماضی ، حال اور مستقبل کی اس قدر زبردست انسانی آبادی کے سامان و ضروریاتِ زندگی کی تخلیق و فراہمی کا سارا کام اُسی ایک خالق کا ہی تو ہے۔اگر ہم ذرا سا غور کریں کہ یہ بے حد و حساب انسان جو نہ جانے لمحہ بہ لمحہ کتنے لاکھ ٹن غذا، نہ جانے کس کس قسم کی اجناسِ غذایہ، کتنے ٹن گیالن پانی پی جاتے ہیں ، پہلے تو ہم ان اشیاء کی مقدار کو دیکھیں اور پھر سوچیے کہ کس نے پیدا کیا ان بے حد و حساب اشیاء خوراک کو؟ کس نے بخشی بے جان زمین کو قوتِ نمو؟ کس نے لہلہائے یہ کھیت و کھلیان؟ کس نے بادلوں کی تنظیم کی اور پانی؟ کون ہے جس نے زمین کی گہرائیوں میں آب طیب کے جھرنے جاری کئے؟ کون ہے وہ جس نے تالابوں، ندیوں اور کنوؤں میں پانی کے ذخیرے پیدا کیے؟ اگر کسی کے سینے میں دل ہے اور سر میں دماغ ہے تو وہ ضرور پکار اُٹھے گا کہ یہ اُسی قادر ِ مطلق کی کبریائی کا کمال ہے جو پانی کے ایک ایک قطرے میں، اناج کے ایک ایک دانے میں اور ہوق کے ایک ایک جھونکے میں ظاہر ہو رہا ہے۔
مجھے زندگی میں قدم قدم پہ تیر ی رضا کی تلاش ہے
تیرے عشق میں اے اﷲ مجھے انتہا کی تلاش ہے
میں گناہوں میں ہوں پڑا ہوا، میں زمین پر ہوں گرا ہوا
جو مجھے گناہ سے نجات دے، مجھے اس دعا کی تلاش ہے
میں نے جو کیا وہ بر ا کیا، میں نے خود کو خود ہی تباہ کیا
جو تجھے پسند ہو میرے اﷲ، مجھے اُس ادا کی تلاش ہے
تیرے در پہ ہی میرا سر جھکے، مجھے اور کچھ نہیں چاہیئے
مجھے سب سے کردے جو بے نیاز، مجھے اس ادا کی تلاش ہے

علامہ محمد اقبال نے افکارِ قرآنی کو اپنے اشعار میں جس طرح سمویا وہ انہی کا حصہ ہے۔ سب جانتے ہیں کہ علامہ نے اپنی شاعری کے ذریعے قوم کو ایک پیغام دیا اور جسد ملی میں ایک نئی روح پھونکی، لیکن اس بات سے شاید بہت کم لوگ واقف ہوں کہ اقبال در حقیقت ترجمان ِ قرآن تھے ان کا پیغام میں تمامتر افکارِقرآنی ہی سے عبارت ہے، اپنے کلام کے ذریعے مسلمانانِ برصغیر کو قرآن حکیم اور اس کی تعلیمات کی جانب
متوجہ کرنا ،
Muhammad Jawad Khan
About the Author: Muhammad Jawad Khan Read More Articles by Muhammad Jawad Khan: 113 Articles with 182593 views Poet, Writer, Composer, Sportsman. .. View More