سعدی کے قلم سے اﷲ تعالیٰ ہر
فتنے سے ہم سب کی حفاظت فرمائے. کچھ لوگ’’ بے کار‘‘ کاموں میں اُلجھے رہتے
ہیں. اور اُن کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ دوسرے مسلمانوں کو بھی ان’’فضولیات‘‘
میں اُلجھا دیں. ابھی ایک بہت ہی عزیز شخصیت نے بتایا کہ موبائل پر ایک
میسج چل رہا ہے. اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ.’’دجّال‘‘ جاپان کے ایک جزیرے
سے نکلنے والا ہے. اور اسی سال حضرت امام مہدی(رض) ظاہر ہونے والے ہیں.
جاپان کے سمندر میں ایک آتش فشاں پھٹا ہے. اُس سے ایک نیا جزیرہ ظاہر ہوگا.
جاپان چونکہ مشرق میں ہے اور دجّال نے مشرق سے نکلنا ہے. اس لئے وہ اس
جزیرے سے نمودار ہوگا. یہ اور اس طرح کی بہت سی باتیں اس’’میسج‘‘ میں لکھی
ہوئی ہیں. کئی لوگ دھڑا دھڑ اس میسج کو ثواب سمجھ کر پھیلا رہے ہوں گے کہ
ہم نے دجّال کا ’’ ایڈریس‘‘ معلوم کر لیا اور یہ کہ ’’دجّال‘‘ میڈ اِن
جاپان ہے. انا ﷲ وانا الیہ راجعون.
کیا اسلام نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ ہم’’دجّال‘‘ کو تلاش کرتے پھریں؟. کیا
دجّال کا فتنہ کوئی معمولی چیز ہے؟. اﷲ کے بندوں! یہ روئے زمین کا سب سے
بڑا فتنہ ہے. آپ اس طرح کے فضول’’میسج‘‘ کی جگہ وہ دعائیں میسج کریں جو ہر
نماز میں اور نماز کے بعد’’مسیح دجّال‘‘ کے فتنے سے حفاظت کے لئے سکھائی
گئی ہیں. آپ وہ احادیث’’میسج‘‘ کریں جن میں جمعہ کے دن سورۃ الکہف کی آیات
کی تلاوت کو’’مسیح دجال‘‘ سے حفاظت کا ذریعہ فرمایا گیا ہے. دجّال کے فتنے
کا مقابلہ تو جہاد فی سبیل اﷲ کے ذریعہ ہوگا. آپ مسلمانوں میں جذبہ جہاد
پیدا کریں. دجّال کا فتنہ کوئی ایسا چھوٹا یا مخفی فتنہ نہیں ہوگا کہ جسے
جاننے اور پہچاننے کے لئے کتابیں دیکھنا پڑیں گی. یہ تو وہ عالمگیر اور
خوفناک فتنہ ہے جس سے تمام انبیا علیہم السلام نے اپنی اُمتوں کو ڈرایا ہے.
کچھ عرصہ پہلے ایک صاحب مجھے ملے اور فرمایا کہ ایک مسئلے پر بات کرنی ہے
کیا آپ تحمّل سے سن سکیں گے؟. اُن سے عرض کیا کہ انشا اﷲ ضرور پورے تحمّل
سے سنوں گا. فرمانے لگے کہ دجّال کسی فرد یا شخص کا نام نہیں ہے. بلکہ
ایک’’عمومی فتنے‘‘ کا نام ہے. اور آج کل امریکہ اور یورپ ہی’’دجّال
اکبر‘‘اور’’فتنہ مسیح الدجال‘‘ ہیں. اس پر انہوں نے بہت لمبی چوڑی تقریر کی
اور بتایا کہ ہمیں چاہئے کہ تمام کام چھوڑ کر اس فتنے کے بارے میں مسلمانوں
کو بتائیں. بندہ نے اُن سے چند سوالات کئے. اُن صاحب کے پاس امریکہ کی
نیشنلٹی تھی. انگریزی فر فر بولتے تھے. اُن سے پوچھا کہ دجّال اکبر نے اپنے
اتنے بڑے مخالف کو اپنے ملک کی نیشنلٹی کیسے دے رکھی ہے؟. وہ گرم ہونے لگے.
عرض کیا کہ تحمّل سے سنیں. دجّال کا مقابلہ صرف اور صرف جہاد سے ہوگا. آپ
کے پاس جہاد کا کیا نظام ہے؟. وہ سٹپٹا گئے. اُن سے عرض کیا کہ آپ کا کام
صرف ’’دجّال‘‘ کا تعارف پیش کرنا ہے یا اُس کا مقابلہ کرنا؟. اگر صرف تعارف
کرانا ہے تو پھر آپ دجّال کی خدمت کررہے ہیں. اور اگر مقابلہ کرنا ہے تو
اُس کی آپ کے پاس کیا ترتیب ہے؟. وہ صاحب کافی گھبرا گئے. اور غصّے میں اٹھ
کر چلے گئے. اُن کے بھائی نے بتایا کہ کئی سال سے یہ اس موضوع پر علما سے
بات کر رہے ہیں. مگر اِن کو اس طرح سے بھاگتے ہوئے آج دیکھا ہے. ورنہ یہ تو
اپنی معلومات کے زور پر کئی علما کرام کو شرمندہ کر چکے ہیں. دراصل اس طرح
کے لوگوں کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ آپ اُن کے ساتھ بیٹھ کر دجّال کی باتیں
کریں. دجّال کی طاقت کے گُن گائیں. دجّال کے ضمن میں یہودیوں کی طاقتوں اور
سازشوں پر لمبی گفتگو کریں. اُن کے ایٹم بم شمار کریں، اُن کے طیارے گِنیں.
اُن کی ٹیکنالوجی کے ہوشربا تذکرے کریں. اور اُن کو ناقابل تسخیر قرار دے
کر. جہاد کا کام حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور امام مہدی(رض) کے ذمہ لگا دیں
کہ وہ آئیں گے تو کچھ ہوگا. ہم سے تو اس خوفناک طاقت اور فتنے کے خلاف جہاد
نہیں ہو سکتا. چند دن پہلے ایک رسالے میں دیکھا کہ ایک خاتون صاحبہ نے پوری
اُمت مسلمہ کے ذمہ یہ کام لگا دیا کہ انگریزی میں حضور اقدس ﷺ کے نام مبارک
کے ساتھ’’صلی اﷲ علیہ وسلم‘‘. فلاں طریقے سے لکھیں اور جو عام طریقے سے
لکھا جاتا ہے. وہ غلط ہے اور اس کے فلاں فلاں معنیٰ ہیں. انا ﷲ وانا الیہ
راجعون. یہ ہے’’نیٹ‘‘ کے کھلاڑیوں کا جہاد کہ ہر لفظ میں سازش کی ’’بُو‘‘
سونگھ کر. پھر اس’’بو‘‘ کو پورے زور سے مسلمانوں میں پھیلاتے ہیں. ایک اور
خاتون اس مشن پر تھیں کہ انگریزی میں جب’’اﷲ‘‘ ،’’قرآن‘‘ اور’’رسول‘‘ جیسے
الفاظ لکھے جائیں تو. پہلا حرف بڑی اے، بی، سی میں لکھا جائے. ورنہ گناہ
ہوگا. اور مسلمان سازش کا شکار ہو جائیں گے. اسی طرح ہر چند روز بعد
کوئی’’سائبر مفکّر‘‘ اچانک یہ اعلان چلا دیتا ہے کہ مکہ، مدینہ وغیرہ الفاظ
کو. اگر فلاں ’’اسپیلنگ‘‘ میں لکھا تو مطلب یہ ہو جائے گا اور مسلمان ایک
گمنام سازش کا شکار ہو جائیں گے. اسی طرح یہ ’’کمپیوٹر کھلاڑی‘‘مختلف چیزوں
پر گستاخی کی سازش پکڑ لیتے ہیں اور پھر اس گستاخی کی اتنی تشہیر کرتے ہیں
کہ انسان کا دل غم سے پھٹنے لگتا ہے. حالانکہ انسان کسی بھی مصلّے، جائے
نماز، جوتے یا نقشے کو مختلف زاویوں سے دیکھے تو کئی خیالی تصاویر اور
الفاظ بن جاتے ہیں. مگر چونکہ ان بے کار لوگوں نے نہ تو جہاد کرنا ہوتا ہے
اور نہ ان کو تلاوت اور نوافل کی فکر ہوتی ہے. یہ ہر چیز کی تصاویر اور
نقشوں میں الجھے رہتے ہیں اور پھر کوئی نہ کوئی سازش اور گستاخی تلاش کر کے
مسلمانوں کا دل مزید زخمی کرتے ہیں. اور اس کو دین کی بڑی خدمت سمجھتے ہیں.
اﷲ کے بندوں! مسلمانوں کے خلاف اس طرح کی سازشیں اُس وقت ہوتی تھیں جب کفار
مغلوب تھے. اور وہ اپنے دل کی بھڑاس چُھپ چُھپ کر نکالتے تھے. کہیں کوئی
صلیب چھپا دی. کسی جگہ مسلمانوں کے مقدس ناموں کی چھپ کر گستاخی کر دی. مگر
اِس وقت تو وہ غالب ہیں. اور مسلمان خود بھاگ بھاگ کر اُن کی جھولی میں گر
رہے ہیں. وہ کھل کر ہمارے پاک نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کرتے ہیں. مگر پھر
بھی اُن کے سفارتخانوں کے باہر مسلمانوں کی لمبی قطاروں میں کوئی کمی نہیں
آتی. عام لوگ تو درکنار دیندار اور صاحب علم بھی اُن کے ملکوں میں جانا.
اور اُن کے طریقوں کو اپنانا فخر کی بات سمجھتے ہیں. ہمارے ملکوں کی سیاست
پر اُن کا قبضہ ہے. ہماری معیشت اُن کے جھوٹے برتنوں کو چاٹنے کا نام ہے.
ہماری فوجیں اُن کے حکم پر مسلمانوں کی گردنیں کاٹنے کیلئے ہر وقت تیار ہیں.
ان حالات میں اُُن کو خفیہ سازشوں اور چوری چھپے وارداتوں کی کیا ضرورت ہے؟.
اِس وقت اُن کی سازشوں کے چرچے کرنا مسلمانوں میں مزید کمزوری اور بے ہمتی
پھیلانے کا ذریعہ ہیں. کیونکہ اُمتِ مسلمہ کو اس وقت الفاظ کی نہیں عمل کی
ضرورت ہے. آج سے پندرہ، بیس سال پہلے لاہور میں ایک صاحب سے ملاقات ہوئی.
وہ عالم نہیں تھے مگر مطالعہ کے زور پر درس قرآن دیتے تھے. اور’’احیائے
خلافت‘‘ اُن کا موضوع تھا. تین گھنٹے کی تفصیلی بات چیت سے اُن کو فائدہ
ہوا. اور وہ جہاد کے حامی ہو گئے. اُن سے یہی بات عرض کی تھی کہ ’’خلافت‘‘
کوئی ناراض بیوی تو نہیں ہے کہ صرف آوازیں دینے سے واپس آجائے گی. ہائے
خلافت، اری خلافت، آہ خلافت، پیاری خلافت. ہم جتنا بھی پکاریں ’’خلافت‘‘
قائم نہیں ہوگی. ایک بزرگ عالم دین کافی پہلے عراق کا سفر کر کے واپس تشریف
لائے. انہوں نے بتایا کہ عراق میں’’سامرہ‘‘ کے مقام پر ایک غار ہے. شیعہ
لوگوں کا عقیدہ ہے کہ اسی غار میں اُن کے بارہویں امام ’’روپوش‘‘ ہیں.
زائرین اس غار پر جاتے ہیں. وہاں موجود’’مجاوروں‘‘ کو نذرانے دیتے ہیں اور
غار کے دھانے کھڑے ہو کر. روتے پیٹتے اور پکارتے ہیں کہ امام صاحب! جلدی
نکل آؤ. وہ عالم کہتے ہیں کہ میں نے وہاں کے ایک مقامی شخص سے پوچھا.کیا
واقعی امام اس غار میں ہیں؟.وہ کہنے لگا یہ تو پتا نہیں کہ امام غار میں
ہیں یا نہیں. لیکن اگر ہوئے بھی تو کبھی نہیں نکل سکیں گے. بلکہ جب وہ
نکلنے لگیں گے تو مجاور اُن کو مار کر واپس غار میں ڈال دیں گے. کیونکہ اُن
کے چلے جانے سے مجاوروں کی کروڑوں کی آمدن بند ہو جائے گی. خلافت، خلافت کا
شور کرنے والے اکثر’’مفکرین‘‘ خود خلافت کے دشمن ہیں. کیونکہ یہ لوگوں
کو’’جہاد‘‘ سے روکتے ہیں. اور بغیر جہاد کے خلافت قائم نہیں ہو سکتی. خلاصہ
یہ ہے کہ مسلمان فضول کاموں اور بے کار تحقیقات میں وقت ضائع نہ کریں. حضرت
امام مہدی(رض) کے تشریف لانے سے پہلے بھی جہاد کا حکم ہر مسلمان کے لئے
موجود ہے. بس اس حکم کو پورا کریں. اگر وہ ہماری زندگی میں تشریف لے آئے تو
جہاد کرتے ہوئے اُن کے ساتھ شامل ہونا ہمارے لئے. انشا اﷲ آسان ہوگا. اور
اگر وہ ہماری زندگی میں تشریف نہ لائے تو بھی ہمیں عمل جہاد کا پورا اجر
ملے گا. دجّال جب آئے گا تو پوری دنیا کو پتا چل جائے گا اور دجّال کے فتنے
سے وہی لوگ محفوظ رہ سکیں گے جن کا ایمان کامل ہوگا اور وہ موت سے نہیں
ڈرتے ہوں گے. اور مال و ہوس کے پجاری نہیں ہوں گے. یہ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ
السلام کے لشکر میں شامل ہو کر دجّال کا مقابلہ کریں گے. اور دجّال حضرت
عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں مارا جائے گا. چنانچہ ہم سب دجّال کا ایڈریس
معلوم کرنے کی بجائے. دجّال سے مقابلے کے لئے. جہاد کے ساتھ اپنا رشتہ
مضبوط کریں.
اللھم انا نعوذبک من فتنۃ المسیح الدجال
آمین یا ارحم الراحمین
اللھم صل علیٰ سیدنا محمد صاحب الفرق والفرقان وجامع الورق ومنزلہ من سمائ
القرآن وال محمد وسلم تسلیما کثیرا کثیرا |