پیغمبر اسلام کے اخلاق و کردارکا نمونہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہ

نام فاطمہ اور مشہور لقب زہرا، سیدة النساءالعلمین، راضی، مرضی، شافع، صدیقہ، طاھرہ، زکیہ، خیر النساءاور بتول ہیں۔

آپ کی مشہور کنیت ام الآئمہ ، ام الحسنین، ام السبطین اور امِ ابیہا ہے۔ ان تمام کنیتوں میں سب سے زیادہ حیرت انگیز ”ام ابیھا“ہے، یعنی اپنے باپ کی ماں، یہ لقب اس بات کا ترجمان ہے کہ آپ اپنے والد بزرگوار کو بے حد چاہتی تھیں اور کمسنی کے باوجود اپنے بابا کی روحی اور معنوی پناہ گاہ تھیں۔

پیغمبر اسلام نے آپ کو” ام ابیھا“ کا لقب اس لئے دیا کیونکہ عربی میں اس لفظ کے معنی، ماں کے علاوہ اصل اور مبداء کے بھی ہیں یعنی جڑ اور بنیاد۔ لہٰذا اس لقب( ام ابیھا) کا ایک مطلب نبوت اور ولایت کی بنیاد اور مبداء بھی ہے کیونکہ یہ آپ ہی کا وجود تھا، جس کی برکت سے شجرہ امامت اور ولایت نے رشد پایا، جس نے نبوت کو نابودی اور نبی خدا کو ابتریت کے طعنہ سے بچایا۔

ولادت
حضرت فاطمہ زہرا(ع) کی تاریخ ولادت کے سلسلہ میں علماء اسلام کے درمیان اختلاف ہے۔ لیکن اہل بیت عصمت و طہارت کی روایات کی بنیاد پر آپ کی ولادت بعثت کے پانچویں سال20 جمادی الثانی، بروز جمعہ مکہ معظمہ میں ہوئی۔

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پانچ برس تک اپنی والدہ ماجدہ حضرت خدیجہ الکبری(ع) کے زیر سایہ رہیں اور جب بعثت کے دسویں برس ان کا انتقال ہوا تو ماں کی اغوش سے جدائی کے بعد ان کا گہوارہ تربیت صرف باپ کا سایہ رحمت تھا اور پیغمبر اسلام کی اخلاقی تربیت کا آفتاب تھا جس کی شعاعیں براہ راست اس بے نظیر گوہر کی آب وتاب میں اضافہ کر رہی تھیں۔جناب سیّدہ سلام اللہ علیہا کو اپنے بچپن میں بہت سے ناگوار حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ پانچ سال کی عمر میں سر سے ماں کا سایہ اٹھ گیا۔ اب باپ کے زیر سایہ زندگی شروع ہوئی تو اسلام کے دشمنوں کی طرف سے رسول کو دی جانے والی اذیتیں سامنے تھیں۔ کبھی اپنے بابا کے جسم مبارک کو پتھروں سے لہو لہان دیکھتیں تو کبھی سنتیں کہ مشرکوں نے بابا کے سر پر کوڑا ڈال دیا۔ کبھی سنتیں کہ دشمن بابا کے قتل کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ مگر اس کم سنی کے عالم میں بھی سیّدہ عالم نہ ڈریں نہ سہمیں نہ گھبرائیں بلکہ اس ننھی سی عمر میں اپنے بزرگ مرتبہ باپ کی مددگار بنی رہیں۔

حضرت فاطمہ(س) کی شادی
یہ بات شروع سے ہی سب پر عیاں تھی کہ حضرت علی(ع) کے علاوہ کوئی دوسرا دختر رسول(ص) کا کفو و ہمتا نہیں ہے۔ اس کے باوجود بھی بہت سے ایسے لوگ جو اپنے آپ کو پیغمبر(ص) کے نزدیک سمجھتے تھے اپنے دلوں میں دختر رسول(ص) سے شادی کی امید لگائے بیٹھے تھے۔

مؤرخین نے لکھا ہے جب سب لوگوں نے قسمت آزمائی کر لی تو حضرت علی(ع) سے کہنا شروع کر دیا ” اے علی(ع) آپ دختر پیغمبر(ص) سے شادی کے لئے نسبت کیوں نہیں دیتے۔ حضرت علی(ع) فرماتے تھے” میرے پاس ایسا کچھ بھی نہیں ہے جس کی بنا پر میں اس راہ میں قدم بڑھاؤں۔ وہ لوگ کہتے تھے ” پیغمبر(ص) تم سے کچھ نہیں مانگیں گے۔

آخرکار حضرت علی(ع) نے اس پیغام کے لئے اپنے آپ کو آمادہ کیا اور ایک دن رسول اکرم(ص) کے بیت الشرف میں تشریف لے گئے لیکن شرم و حیا کی وجہ سے آپ اپنا مقصد ظاہر نہیں کر پا رہے تھے۔

مؤرخین لکھتے ہیں کہ آپ اسی طرح دو تین مرتبہ رسول اکرم(ص) کے گھر گئے لیکن اپنی بات نہ کہہ سکے۔ آخر کار تیسری مرتبہ پیغمبر اکرم(ص) نے پوچھ ہی لیا “ اے علی کیا کوئی کام ہے ؟۔حضرت امیر(ع) نے جواب دیا” جی، رسول اکرم(ص) نے فرمایا” شاید زہراء سے شادی کی نسبت لے کر آئے ہو ؟ حضرت علی(ع) نے جواب دیا، جی۔ چونکہ مشیت الٰہی بھی یہی چاہ رہی تھی کہ یہ عظیم رشتہ برقرارہو، لہٰذا حضرت علی(ع) کے آنے سے پہلے ہی رسول اکرم(ص) کو وحی کے ذریعہ اس بات سے آگاہ کیا جا چکا تھا۔ بہتر تھا کہ پیغمبر(ص) اس نسبت کا تذکرہ زہرا(ع) سے بھی کرتے لہٰذا آپ نے اپنی صاحب زادی سے فرمایا ” آپ، علی(ع) کو بہت اچھی طرح جانتیں ہیں۔ وہ سب سے زیادہ میرے نزدیک ییں۔ علی(ع) اسلام کے سابق خدمت گزاروں اور با فضیلت افراد میں سے ہیں، میں نے خدا سے یہ چاہا تھا کہ وہ تمہارے لئے بہترین شوہر کا انتخاب کرے۔ اور خدا نے مجھے یہ حکم دیا کہ میں آپ کی شادی علی(ع) سے کر دوں آپ کی کیا رائے ہے ؟

حضرت زہراء(س) خاموش رہیں، پیغمبر اسلام(ص) نے آپ کی خاموشی کو آپ کی رضا مندی سمجھا اور خوشی کے ساتھ تکبیر کہتے ہوئے وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ پھر حضرت امیر(ع) کو شادی کی بشارت دی۔ حضرت فاطمہ زہرا(س) کا مہر40 مثقال چاندی قرار پایا اور اصحاب کے ایک مجمع میں خطبہ نکاح پڑھا دیا گیا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ شادی کے وقت حضرت علی(ع) کے پاس ایک تلوار، ایک ذرہ اور پانی بھرنے کے لئے ایک اونٹ کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا، پیغمبر اسلام(ص) نے فرمایا ” تلوار کو جہاد کے لئے رکھو، اونٹ کو سفر اور پانی بھرنے کے لئے رکھو لیکن اپنی زرہ کو بیچ ڈالو تاکہ شادی کے وسائل خرید سکو۔ رسول اکرم(ص) نے جناب سلمان فارسی سے کہا ” اس زرہ کو بیچ دو۔ جناب سلمان نے اس زرہ کو 500 میں بیچا۔ پھر ایک بھیڑ ذبح کی گئی اور اس شادی کا ولیمہ ہوا۔ جہیز کا وہ سامان جو دختر رسول اکرم(ص) کے گھر لایا گیا تھا،اس میں چودہ چیزیں تھی۔

شہزادی عالم، زوجہ علی(ع)، فاطمہ زہراء(ع) کا بس یہی مختصر سا جہیز تھا۔ رسول اکرم(ص) اپنے چند با وفا مہاجر اور انصار اصحاب کے ساتھ اس شادی کے جشن میں شریک تھے۔ تکبیروں کی آوازوں سے مدینہ کی گلیوں اور کوچوں میں ایک خاص روحانیت پیدا ہو گئی تھی اور دلوں میں سرور و مسرت کی لہریں موج زن تھیں۔ پیغمبر اسلام(ص) اپنی صاحبزادی کا ہاتھ حضرت علی(ع) کے ہاتھوں میں دے کر اس مبارک جوڑے کے حق میں دعا کی اور ا نہیں خدا کے حوالے کر دیا۔ اس طرح کائنات کے سب سے بہتر جوڑے کی شادی کے مراسم نہایت سادگی سے انجام پائے۔

حضرت فاطمہ(س) کا اخلاق و کردار
حضرت فاطمہ زہرا اپنی والدہ گرامی حضرت خدیجہ کی والا صفات کا واضح نمونہ تھیں جود و سخا، اعلیٰ فکری اور نیکی میں اپنی والدہ کی وارث اور ملکوتی صفات و اخلاق میں اپنے پدر بزرگوار کی جانشین تھیں۔ وہ اپنے شوہر حضرت علی(ع) کے لئے ایک دلسوز، مہربان اور فدا کار زوجہ تھیں۔ آپ کے قلب مبارک میں اللہ کی عبادت اور پیغمبر کی محبت کے علاوہ اور کوئی تیسرا نقش نہ تھا۔ زمانہ جاہلیت کی بت پرستی سے آپ کوسوں دور تھیں۔ آپ نے شادی سے پہلے کی ۹ سال کی زندگی کے پانچ سال اپنی والدہ اور والد بزرگوار کے ساتھ اور ۴ سال اپنے بابا کے زیر سایہ بسر کئے اور شادی کے بعد کے دوسرے نو سال اپنے شوہر بزرگوار علی مرتضیٰ(ع) کے شانہ بہ شانہ اسلامی تعلیمات کی نشرواشاعت، اجتماعی خدمات اور خانہ داری میں گزارے۔ آپ کا وقت بچوں کی تربیت گھر کی صفائی اور ذکر و عبادت خدا میں گزرتا تھا۔ فاطمہ(س) اس خاتون کا نام ہے جس نے اسلام کے مکتب تربیت میں پرورش پائی تھی اور ایمان و تقویٰ آپ کے وجود کے ذرات میں گھل مل چکا تھا۔

فاطمہ زہرا(س) نے اپنے ماں باپ کی آغوش میں تربیت پائی اور معارف و علوم الٰہی کو سر چشمہ نبوت سے کسب کیا۔ انہوں نے جو کچھ بھی ازدواجی زندگی سے پہلے سیکھا تھا اسے شادی کے بعد اپنے شوہر کے گھر میں عملی جامہ پہنایا۔ وہ ایک ایسی مسن وسمجھدار خاتون کی طرح جس نے زندگی کے تمام مراحل طے کر لئے ہوں اپنے گھر کے امور اور تربیت اولاد سے متعلق مسائل پر توجہ دیتی تھیں اور جو کچھ گھر سے باہر ہوتا تھا اس سے بھی باخبر رہیتی تھیں اور اپنے اور اپنے شوہر کے حق کا دفاع کرتی تھیں۔

حضرت فاطمہ (س) کا نظام عمل
حضرت فاطمہ زہرا نے شادی کے بعد جس نظام زندگی کا نمونہ پیش کیا وہ طبقہ نسواں کے لئے ایک مثالی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ گھر کا تمام کام اپنے ہاتھ سے کرتی تھیں۔ جھاڑو دینا، کھانا پکانا، چرخہ چلانا، چکی پیسنا اور بچوں کی تربیت کرنا۔ یہ سب کام اور ایک اکیلی سیدہ لیکن نہ تو کبھی تیوریوں پر بل پڑے اور نہ کبھی اپنے شوہر حضرت علی علیہ السّلام سے اپنے لیے کسی مددگار یا خادمہ کے انتظام کی فرمائش کی۔ ایک مرتبہ اپنے پدر بزرگوار حضرت رسولِ خدا سے ایک کنیز عطا کرنے کی خواہش کی تو رسول نے بجائے کنیز عطا کرنے کے وہ تسبیح تعلیم فرمائی جو تسبیح فاطمہ زہرا کے نام سے مشہور ہے 34 مرتبہ اللہ اکبر، 33 مرتبہ الحمد اللہ اور 33 مرتبہ سبحان اللہ۔ حضرت فاطمہ اس تسبیح کی تعلیم سے اتنی خوش ہوئی کہ کنیز کی خواہش ترک کردی بعد میں رسول نے بلا طلب ایک کنیز عطا فرمائی جو فضہ کے نام سے مشہور ہے۔ جناب سیّدہ اپنی کنیز فضہ کے ساتھ کنیز جیسا برتاؤ نہیں کرتی تھیں بلکہ ان سے ایک برابر کے دوست جیسا سلوک کرتی تھیں. وہ ایک دن گھر کا کام خود کرتیں اور ایک دن فضہ سے کراتیں۔ اسلام کی تعلیم یقیناً یہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں زندگی کے جہاد میں مشترک طور پر حصہ لیں اور کام کریں . بیکار نہ بیٹھیں مگر ان دونوں میں صنف کے اختلاف کے لحاظ سے تقسیم عمل ہے ۔ اس تقسیم کار کو علی علیہ السّلام اور فاطمہ نے مکمل طریقہ پر دنیا کے سامنے پیش کر دیا۔ گھر سے باہر کے تمام کام اور اپنی قوت بازو سے اپنے اور اپنے گھر والوں کی زندگی کے خرچ کا سامان مہیا کرنا علی علیہ السّلام کے ذمہ تھا اور گھر کے اندر کے تمام کام حضرت فاطمہ زہرا انجام دیتی تھیں۔

حضرت زہرا سلام اللہ کا پردہ
سیدہ عالم نہ صرف اپنی سیرت زندگی بلکہ اقوال سے بھی خواتین کے لیے پردہ کی اہمیت پر بہت زور دیتی تھیں۔ آپ کا مکان مسجدِ رسولِ سے بالکل متصل تھا۔ لیکن آپ کبھی برقع وچارد میں نہاں ہو کر بھی اپنے والدِ بزرگوار کے پیچھے نماز جماعت پڑھنے یا آپ کا وعظ سننے کے لیے مسجد میں تشریف نہیں لائیں بلکہ اپنے فرزند امام حسن علیہ السّلام سے جب وہ مسجد سے واپس آتے تو رسول اللہ کے خطبے کے مضامین سن لیا کرتی تھیں ۔ ایک مرتبہ پیغمبر نے منبر پر یہ سوال پیش کر دیا کہ عورت کے لیے سب سے بہتر کیا چیز ہے یہ بات سیدہ کو معلوم ہوئی تو آپ نے جواب دیا عورت کے لئے سب سے بہتر بات یہ ہے کہ نہ اس کی نظر کسی غیر مرد پر پڑے اور نہ کسی غیر مرد کی نظر اس پر پڑے۔ رسول کے سامنے یہ جواب پیش ہوا تو حضرت نے فرمایا”کیوں نہ ہو فاطمہ میرا ہی ایک ٹکڑا ہے۔"

حضرت زہرا(س) اور جہاد
اسلام میں عورتوں کا جہاد، مردوں کے جہاد سے مختلف ہے۔ لہٰذا حضرت فاطمہ زہرا نے کبھی میدانِ جنگ میں قدم نہیں رکھا۔ لیکن جب کبھی پیغمبر میدان جنگ سے زخمی ہو کر پلٹتے تو سیدہ عالم ان کے زخموں کو دھوتیں تھیں اور جب علی علیہ السّلام خون آلود تلوار لے کر آتے تو فاطمہ اسے دھو کر پاک کرتی تھیں۔ وہ اچھی طرح سمجھتی تھیں کہ ان کا جہاد یہی ہے جسے وہ اپنے گھر کی چار دیواری میں رہ کے کرتی ہیں ۔ ہاں صرف ایک موقع پر حضرت زہرا نصرت اسلام کے لئے گھر سے باہر آئیں اور وہ تھا مباہلے کا موقع۔ کیونکہ یہ ایک پرامن مقابلہ تھا اور اس میں صرف روحانی فتح کا سوال تھا۔ یعنی صرف مباہلہ کا میدان ایسا تھا جہاں سیدہ عالم خدا کے حکم سے برقع و چادر میں نہاں ہو کر اپنے باپ اور شوہر کے ساتھ گھر سے باہر نکلیں جس کا واقعہ یہ تھا کہ یمن سے عیسائی علماءکا ایک وفد رسول کے پاس بحث ومباحثہ کے لیے آیا اور کئی دن تک ان سے بحث ہوتی رہی جس سے حقیقت ان پر روشن تو ہوگئی مگر سخن پروری کی بنا پر وہ قائل نہ ہونا چاہتے تھے نہ ہوئے۔ اس وقت قران کی یہ آیت نازل ہوئی کہ " اے رسول اتنے سچے دلائل کے بعد بھی یہ نہیں مانتے تو ان سے کہو کہ پھر جاؤ ہم اپنے بیٹوں کو لائیں تم اپنے بیٹوں کو لاؤ، ہم اپنی عورتوں کو لائیں تم اپنی عورتوں کولاؤ، ہم اپنے نفسوں کو لائیں تم اپنے نفسوں کو اور اللہ کی طرف رجوع کریں اور جھوٹوں کے لیے اللہ کی لعنت یعنی عذاب کی بد دعا کریں "

عیسائی علماء پہلے تو اس کے لیے تیار ہوگئے مگر جب رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اس شان سے تشریف لے گئے کہ حسن علیہ السّلام اور حسین علیہ السّلام جیسے بیٹے فاطمہ زہرا جیسی خاتون اور علی علیہ السّلام جیسے نفس ان کے ساتھ تھے تو عیسائیوں نے مباہلہ سے انکار کر دیا اور مخصوص شرائط پر صلح کرکے واپس ہو گئے۔

فاطمہ زہرا(س) اور پیغمبر اسلام
حضرت فاطمہ زہرا (س) کے اوصاف وکمالات اتنے بلند تھے کہ ان کی بنا پر رسول(ص) فاطمہ زہرا (س) سے محبت بھی کرتے تھے اور عزت بھی۔ محبت کا ایک نمونہ یہ ہے کہ جب آپ کسی غزوہ پر تشریف لے جاتے تھے تو سب سے آخر میں فاطمہ زہرا سے رخصت ہوتے تھے اور جب واپس تشریف لاتے تھے تو سب سے پہلے فاطمہ زہرا سے ملنے کے لئے جاتے تھے ۔ عزت و احترام کا نمونہ یہ ہے کہ جب فاطمہ(س) ان کے پاس آتی تھیں تو آپ تعظیم کے لئے کھڑے ہوجاتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے تھے۔ رسول کا یہ برتاؤ فاطمہ زہرا کے علاوہ کسی دوسرے شخص کے ساتھ نہ تھا۔

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پیغمبر(ص) کی نظر میں
سیدہ عالم کی فضیلت میں پیغمبر کی اتنی حدیثیں وارد ہوئی ہیں کہ جتنی حضرت علی علیہ السّلام کے سوا کسی دوسری شخصیت کے لیے نہیں ملتیں .
ان میں سے اکثر علماءاسلام میں متفقہ حیثیت رکھتی ہیں۔ مثلاً
" آپ بہشت میں جانے والی عورتوں کی سردار ہیں۔ "
" ایمان لانے والی عوتوں کی سردار ہیں ."
" تمام جہانوں کی عورتوں کی سردار ہیں "
" آپ کی رضا سے اللہ راضی ہوتا ہے اور آپ کی ناراضگی سے اللہ ناراض ہوتا ہے "
" جس نے آپ کو ایذا دی اس نے رسول کو ایذا دی"
اس طرح کی بہت سی حدیثیں ہیں جو معتبر کتابوں میں درج ہیں.

فاطمہ زہرا(س) پر پڑنے والی مصیبتیں
افسوس ہے کہ وہ فاطمہ(س) جن کی تعظیم کو رسول کھڑے ہوجاتے تھے رسول کے جانے کے بعد اہل زمانہ کا رخ ان کی طرف سے پھر گیا۔ علی علیہ السّلام سے خلافت چھین لی گئی ۔ پھر آپ سے بیعت کا سوال بھی کیا جانے لگا اور صرف سوال ہی پر اکتفا نہیں بلکہ ان پر طرح طرح کے ظلم ہونے لگے۔ جبروتشدّد سے کام لیا جانے لگا۔ انتہا یہ کہ سیّدہ عالم کے گھر پر لکڑیاں جمع کر دیں گئیں اور آگ لگائی جانے لگی۔ اس وقت آپ کو وہ جسمانی صدمہ پہنچا، جسے آپ برداشت نہ کر سکیں اور وہی آپ کی وفات کا سبب بنا۔ ان صدموں اور مصیبتوں کا اندازہ سیّدہ عالم کی زبان پر جاری ہونے والے اس شعر سے لگایا جا سکتا ہے کہ
صبَّت علیَّ مصائب لوانھّا صبّت علی الایّام صرن لیالیا
یعنی "مجھ پر اتنی مصیبتیں پڑیں کہ اگر وہ دِنوں پر پڑتیں تو وہ رات میں تبدیل ہو جاتے"۔

سیدہ عالم کو جو جسمانی وروحانی صدمے پہنچے ان میں سے ایک، فدک کی جائیداد کا چھن جانا بھی ہے جو رسول نے سیدہ عالم کو مرحمت فرمائی تھی۔ جائیداد کا چلا جانا سیدہ کے لئے اتنا تکلیف دہ نہ تھا جتنا صدمہ آپ کو حکومت کی طرف سے آپ کے دعوے کو جھٹلانے کا ہوا۔ یہ وہ صدمہ تھا جس کا اثر سیّدہ کے دل میں مرتے دم تک باقی رہا۔

حضرت فاطمہ زہرا(س) کی وصیتیں
حضرت فاطمہ زہرا(س) نے خواتین کے لیے پردے کی اہمیت کو اس وقت بھی ظاہر کیا جب آپ دنیا سے رخصت ہونے والی تھیں۔ اس طرح کہ آپ ایک دن غیر معمولی فکر مند نظر آئیں ۔ آپ کی چچی(جعفر طیار(رض) کی بیوہ) اسماء بنتِ عمیس نے سبب دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ مجھے جنازہ کے اٹھانے کا یہ دستور اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ عورت کی میّت کو بھی تختہ پر اٹھایا جاتا ہے جس سے اس کا قدوقامت نظر آتا ہے ۔ اسما(رض) نے کہا کہ میں نے ملک حبشہ میں ایک طریقہ جنازہ اٹھانے کا دیکھا ہے وہ غالباً آپ کو پسند ہو اسکے بعد انھوں نے تابوت کی ایک شکل بنا کر دکھائی اس پر سیّدہ عالم بہت خوش ہوئیں۔ پیغمبر اسلام کے بعد صرف ایک موقع ایسا تھا کہ آپ کے لبوں پر مسکراہٹ آ گئی چنانچہ آپ نے وصیّت فرمائی کہ آپ کو اسی طرح کے تابوت میں اٹھایا جائے۔ مؤرخین تصریح کرتے ہیں کہ سب سے پہلی لاش جو تابوت میں اٹھی ہے وہ حضرت فاطمہ زہرا کی تھی۔ اسکے علاوہ آپ نے یہ وصیت بھی فرمائی تھی کہ آپ کا جنازہ شب کی تاریکی میں اٹھایا جائے اور ان لوگوں کو اطلاع نہ دی جائے جن کے طرزعمل نے میرے دل میں زخم پیدا کر دیئے ہیں۔ سیدہ ان لوگوں سے انتہائی ناراضگی کے عالم میں اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔

شہادت
سیدہ عالم نے اپنے والد بزرگوار رسولِ خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے 3 مہینے بعد تیسری جمادی الثانی سن11 ہجری قمری میں وفات پائی۔ آپ کی وصیّت کے مطابق آپ کا جنازہ رات کو اٹھایا گیا۔ حضرت علی علیہ السّلام نے تجہیز و تکفین کا انتظام کیا۔ صرف بنی ہاشم اور سلیمان فارسی(رض)، مقداد(رض) و عمار(رض) جیسے مخلص و وفادار اصحاب کے ساتھ نماز جنازہ پڑھ کر خاموشی کے ساتھ دفن کر دیا گیا۔ آپ کے دفن کی اطلاع بھی عام طور پر سب لوگوں کو نہیں ہوئی، جس کی بنا پر یہ اختلاف رہ گیا کہ آپ جنت البقیع میں دفن ہیں یا اپنے ہی مکان میں جو بعد میں مسجد رسول کا جزو بن گیا۔ جنت البقیع میں جو آپ کا روضہ تھا وہ بھی باقی نہیں رہا۔ اس مبارک روضہ کو 8 شوال 1344ہجری قمری میں ابن سعود نے دوسرے مقابر اہل بیت علیہ السّلام کے ساتھ منہدم کرا دیا۔

اولاد
حضرت فاطمہ زہرا(س) کو اللہ نے پانچ اولاد عطا فرمائیں جن میں سے تین لڑکے اور دو لڑکیاں تھیں۔ شادی کے بعد حضرت فاطمہ زہرا صرف نو برس زندہ رہیں۔ اس نو برس میں شادی کے دوسرے سال حضرت امام حسن علیہ السّلام پیدا ہوئے اور تیسرے سال حضرت امام حسین علیہ السّلام۔ پھر غالباً پانچویں سال حضرت زینب اور ساتویں سال حضرت امِ کلثوم(ع)۔ نویں سال جناب محسن علیہ السلام بطن میں تھے جب ہی وہ ناگوار مصائب پیش آئے جن کے سبب سے وہ دنیا میں تشریف نہ لا سکے اور بطن مادر میں ہی شہید ہو گئے۔ اس جسمانی صدمہ سے حضرت سیّدہ بھی جانبر نہ ہوسکیں ۔لہٰذا وفات کے وقت آپ نے دو صاحبزادوں حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین علیہما السّلام اور دو صاحبزادیوں زینب کبری و امِ کلثوم کو چھوڑا جو اپنے اوصاف کے لحاظ سے طبقہ خواتین میں اپنی ماں کی سچی جانشین ثابت ہوئیں ۔
Tanveer Hussain Babar
About the Author: Tanveer Hussain Babar Read More Articles by Tanveer Hussain Babar: 85 Articles with 122448 views What i say about my self,i am struggling to become a use full person of my Family,Street,City,Country and the World.So remember me in your Prayers.Tha.. View More