عرب کی زمیں جس نے ساری ہلادی

آج سے تقریباً چودہ سو سال قبل عرب کے ریگزار میں ایک ایسے گل سر سبد کا ظہور ہو ا ،جس کی خوشبو نے اس دنیائے آب وگل کو معطر کردیا ،اس خوشبو میں مزید نکھار آیا اور خلا پھر فضا پھر ملا یہاں تک کے عرش آعظم تک پہنچ گئی ،اس کی اس روز افزوں ترقی کو دیکھ کو دیکھ بے شمار انسانوں کے دلوں میں حسد کی چنگاریاں سلگنے لگیں اور اس خوشبو کو دبانے کے لیے وہ اپنے تئیں غم وغصہ کا اظہار ہی نہیں ؛بلکہ اس کو نیست ونابود کرنے کی پیہم کو ششیں کرنے لگے ،لیکن وہ خوشبو کوئی معمولی خوشبو نہیں تھی کہ صاف کرنے سے دھل جائے بلکہ جس قدر اس کو دبایا جاتا وہ اسی قدر تیز ہوجاتی اور ہزاروں انسانوں کو مدہوش کرتی ہوئی گذر جاتی اس خوشبو کی شاخ دائی حلیمہ کے گل نایاب اور سیدہ آمنہ بنت وہب کے پاکیزہ پھول سے پھوٹتی ہے، آج جسے دنیا محمدبن عبداللہ(فداہ ابی وامی)صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے یاد کرتی ہے۔

آپ کی ولادت باسعادت 9یا 12ربیع الاول بروز پیر رات میں اس وقت ہوئی جبکہ رات کی تاریکی چھٹ چکی تھی اور سپیدۂ سحر ہویدا ہونے لگا تھا، جب آپﷺ نے اپنے وجودِ مسعود سے دنیا والوں کو سرفراز فرمایا، تو اس وقت عالم انسانی میں ایک انقلاب بر پا ہوگیا ،صنم کدہ لرزہ براندام اور خرمنِ کفر خاکستر ہوگئے، فرشتے قطار درقطاراس منظرِدل نواز کو دیکھنے کے لیے امنڈ پڑے، حوریں شہنائیاں بجانے لگیں اور قدرت نے بھی محفلِ کائنات کی تمام تر رعنائیوں اور دلفریبیوں کو اس نومولود پر محدود کردیا۔عبداللہ کے نورنظر آمنہ کے فرزندارجمند کے تولد کی خبرپر پورے مکہ خصوصا قریش میں خوشی کی لہر دوڑگئی ، خواجہ عبدالمطلب نے سردارانِ قریش کی دعوت کی، ابولہب خوشی میں جھوم اٹھا اورولادت کی خبر دینے والی اپنی باندی ثویبہ کو آزاد کردیا۔

کچھ دنوں بعد عرب کے دستور کے مطابق آپﷺ کی والدہ محترمہ بی بی آمنہ اور دادا محترم خواجہ عبدالمطلب نے دیہات کی خوشگوار اور پُر بہار فضا میں صاف وشفاف ہوا خوری، لسانی درستگی اور رضاعت کے لیے آپ ﷺ کو قبیلہ بنوسعد کی ایک نیک دل خاتون ’’ دائی حلیمہؓ سعدیہ ‘‘کے سپرد کردیا، جس کے باوصف ان کے مقدر کا ستارہ روشن ہوگیا، ان کے گردش کے ایام رخصت ہوگئے، وہ اونٹنی جس پر سوار ہو کر وہ بچہ لینے آئی تھیں سب سے سمین وجمیل اور تیزرو ہوگئی ،جب کہ اس سے قبل وہ بہت ہی نحیف ولاغر تھی، وہ بکریاں جن کی تھنیں خشک ہوچکی تھیں یکایک دودھ سے لبریز ہوگئیں اور وہ کھیتیاں جو بنجر ہونے کی وجہ سے ناقابل کاشت تھیں قابل کاشت ہوکر سبزہ زار ہوگئیں، یہی نہیں بلکہ اس بابرکت طفلِ مہ جبیں کی برکت سے بنوسعد کی تمام کھیتیاں سر سبز وشاداب اور گل وگلزار ہو گئیں،کس مپر سی اورتلخی کی زندگی گذارنے والے فراخی محسوس کرنے لگے، ہزاروں بے کسوں کو بے کسی کا مداوا مل گیا، مگر وہ ذات جو دوسروں کے درد کی ماویٰ وملجا بنی جب چھ سال کی عمر کو پہنچی، تو اس کے وجود کا آخری سہارا بھی ٹوٹ گیا اور وہ بے درخت کی شاخ ہو کر رہ گئی، پھر سا ز ندۂ فطرت نے ان کی ظاہری کفالت کا باران کے دادا خواجہ عبد المطلب پر ڈال دیا جنہوں نے نگہبانِ چمن کی طرح اس شاخ بہار کی پرورش و پرداخت کی اور ہر پل ان کا خیال رکھا ،مگر چمنِ ہاشمی کا یہ نگہبان بھی زیادہ دنوں تک اس گل یاسمیں کی آب یاری نہ کرسکا اور دوسال کی قلیل مدت میں اپنے مالک حقیقی سے جاملا، جس سے ان کے وجود پر غم واندودہ کے پہاڑ ٹوٹ پڑے اور ان کی زندگی کی کلیاں گویامرجھانے لگیں ،تو خالق کائنات نے خواجہ ابوطالب کو ان کی کفالت پر مامور کردیا ،جنہوں نے آپ ﷺ کو بیٹے سے بڑھ کر پیار دیا تمام دنیا سے رخ موڑ کر آپﷺ کو اپنی محبت وچاہت کا محور سمجھا ،آپﷺ کی آنکھوں میں آنسو ان کے لیے ناقابل برداشت ہوتی، وہ ہمیشہ آپﷺ کو افقِ عالم پر چمکتا دمکتا اور مسکراتا ہوا دیکھنا چاہتے تھے، تاکہ یتیمی کا وہ خیال جو آپﷺ کے قلب اطہر میں موجزن ہوگیا تھا یکسر ختم ہوجائے ،چنانچہ آپ کی نو سال کی چھوٹی سی عمر ہے، خواجہ ابوطالب کے سامنے بغرض تجارت ملک شام کی لمبی مسافت کا سفر، اِدھر دل میں اپنے محبوب سے بچھڑنے کا غم،اُدھرمصاحبت کی صورت میں لمبے سفر پر ان کی تکلیف کا خیال، دل مضطرب ، ذہن پریشان ،عجب کشمکش کی فضا ہے، نہ لے جاتے بنتا ہے اور نہ ہی ان کی فرقت گوارہ، عجب سماں ہے، بالآخرتنہاجانے کاعزم کرلیا،مگر جب اس طفل مہ جبین کے جمال جہاں آرا پر نظر پڑی جس کے حسن پر ہزاروں زلیخا ئیں قربان ہوجائیں، بقولہ حضرت عائشہ: ’’یوسف ؑ کو دیکھ کر مصر کی عورتوں نے تو اپنے انگلیاں کاٹ لی تھیں، اگر وہ میرے محبوب کو دیکھتیں تو اپنا جگر تراش لیتیں‘‘ تو وہ بے تاب ہوگئے اور ان کی آنکھیں نمناک ہوگئیں عرض کیا کہ اے عبداللہ کے نور نظرمیرے لخت جگر میں تمہیں تنہا چھوڑ کر نہیں جاسکتا کیونکہ تمہاری جدائی اور تیری یہ حالت میرے لیے بہت ہی صبر آزما ہے ،پھر وہ ان کو اپنے ساتھ لے کر ملک شام کے سفر پر روانہ ہوگئے جس میں بحیرہ راہب نے ان کو آپﷺ کے نبی آخر الزماں ہونے کی بشار ت دی۔

دن مہینوں اور مہینے سالوں میں بدلنے لگے اور مرور زمانہ سے آپﷺ کے وجود مبارک میں تغیر آتا گیا حتی کہ صفات حسنہ سے مالامال ہوگئے او روہ مشک عطربیز جو ابھی مختوم تھا اچانک اس کا دہا نہ کھل گیا اور صداقت وامانت کی خوشبو سے دنیائے عرب کو معطر کرنے لگا ؛چنانچہ بنائے خانہ خدا کے وقت جبکہ قبائل قریش آپس میں کٹنے مرنے پر اتر آئے، قریب تھا کہ ان کے مابین خون کی ندیاں بہہ پڑے اور عرب کی ریتیلی زمین ان کے خون سے لالہ زار ہوجائے، تو آپﷺ کی فطرت سلیمہ نے وقت کی اس نزاکت کو بھانپ لیا اور اس صدق دل سے فیصلہ کیا کہ وہ سب سر تسلیم خم کرنے پر مجبور ہوگئے اور وہ تلواریں جو بھوکے شیروں کی طرح جاندارکے خون میں نہانے کو بے قرار تھیں بے بسی سے اپنے اپنے نیاموں میں جاپڑیں اور وہ واقعہ خونچکاں رونماہوتے ہوتے رہ گیا جس کا خطرہ محسوس کیا جارہا تھا، لو گوں میں آپﷺ کے طرز تحکیم، شرافت وصداقت او رامانت داری کی دھوم مچ گئی ،اپنے تو اپنے غیروں نے بھی آپ کو الصادق الامین سے ملقب کیا ،یہی وجہ تھی کہ خاندان قریش کی ایک صاحب ثروت خاتون ،جس کے بہت سے سر داران عرب خواہش مند تھے ،جب آپ ﷺ کی نظافت وشائستگی اور راستگوئی کی بھینی بھینی خوشبو مشام جان کو معطر کرتی ہوئی ان کے دل کے نہاں خانوں میں پیوست ہوگئی تو انہوں نے تمام سردارانِ عرب کے پیام نکاح کو رد کرتے ہوئے آپﷺ سے ازدواجی تعلق قائم کرلیا او ربحیثیت شریک حیات آپﷺ پر اپنا تن من اورمال ومتاع سب کچھ نچھاور کردیااور
من تو شدم تو من شدی
من تن شدم تو جاں شدی
تاکس نہ گوید بعد ازیں
من دیگرم تو دیگری
کا بھرپور عملی مظاہرہ کیا،نیز ان دونوں مبارک ہستیوں کے سنگم سے کئی کلیاں وجود میں آئیں جن میں سے بعض مرجھاگئیں اور بعض حیات فانی کے ساتھ مہرتاباں بن کرتا ریخ کے صفحات پر چھاگئیں، اسی اثناء میں آپﷺ کی طبیعت میں ایک انقلاب برپا ہوا، گوشہ نشینی کو محبوب سمجھنے لگے، اختلاط سے گریزاں ہوگئے اور آپﷺ کی چاہت ایک حقیقتِ منتظر کی طرف مرکوزہوکر رہ گئی ؛چنانچہ ایک مرتبہ جبکہ عالم انسانیت اپنی خواہشات میں مگن تھا، یہ امین العرب والعجم سہما سہما، ڈرا ڈراکائنات میں سب سے محبوب حضرت خدیجہ (رضی اللہ عنہا)کے پاس آیا اور فرمایا :’’زملوني زملوني‘‘(مجھے چادر اوڑھاؤچادر اوڑھاؤ)یہ راستباز وپاکباز بیوی بے تاب ہوگئیں اور ما ہی بے آب کی طرح بے قرار ہو کر فرمایا میرے آقا آپ کو کیا ہوگیا ہے ؟آپ اس قدر مغموم کیوں ہیں؟بتائیے کہ میں آپ کے درد کی معالجہ بنوں۔ آپﷺ نے فرمایا اے میری ہمراز تم توجانتی ہی ہو کہ میں تنہا ئی پسند ہوگیا ہوں کئی روز ہوگئے جبکہ میں غار حرا جایا کرتا تھا حسب معمول آج جب میں وہاں تھا تو ایک نامعلوم شخص میرے پاس آیا اور مجھ سے کہاپڑھ میں نے کہا میں پڑھنا نہیں جانتا، اس نے مجھے دبایا پھر کہا پڑھ یہاں تک کہ تیسری مرتبہ اس زور سے دبایا کہ میرا دم گھٹنے لگا، پھر آپﷺ نے وہ کلمات جو آپﷺ کو سنائے گئے تھے حضرت خدیجۃ الکبریؓ کے سامنے پڑھ دیئے، حضرت خدیجہ اس حالتِ زار کو سن کر گھبرائی نہیں بلکہ عزم واستقلال کی پہاڑ بنی رہیں اور آپ ﷺکو تسلی دی کہ بخدا اللہ آپﷺ کوکبھی بھی رسوا نہیں کرے گا کیوں کہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں مقروضوں کی طرف سے قرضے ادا کرتے ہیں ، ناداروں کی خبر گیری کرتے ہیں ، مہمان نواز ی کرتے ہیں اور قدرتی آفتوں میں لوگوں کی مدد بھی کرتے ہیں اور اس طرح کے رفاہی کام کرنے والے کو اللہ رسوا نہیں کرتا،مگران تسلی آمیز کلمات کے باوجود یہ کیسے ہو سکتا تھاکہ وہ اپنے دلبرکی دل دہلادینے والی خبر کو سن کر صبر کرلیتیں ، فوراً آپﷺ کو لے کر اپنے عم زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس گئیں اور سارا واقعہ ان کے گوش گزار کرایا ،یہ سن کر ان کی باچھیں کھل اٹھیں آپﷺ کو عظیم انسان اور نبی آخرالزماں ہونے کی بشارت دی اور یہ عرض کیا کہ ا گرمیں زندہ رہا تو آپ کی معاونت میں کوئی کسر نہیں چھوڑوں گا پھر آپﷺ اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا خراماں خراماں گھر تشریف لائے۔ حضرت خدیجۃ الکبری ٰتو گھر کے کام کاج میں مصروف ہوگئیں ؛مگر وہ غمخوارِ امت امت کے غم میں ڈوب گیا یہاں تک کہ اللہ عزوجل نے آپ ﷺ کو’’ قم فانذر‘‘ سے خطاب کیا اور فرمایا کہ اٹھیئے اپنے رب کی بڑائی بیان کیجئے اور لوگوں کو مجھ سے ڈرائیے ؛چنانچہ آپﷺ اس حکم کے بموجب ایک روز مکۃ المکرمہ کی صفا پہاڑی پر چڑھے اور ’’یا ایہا الناس قولوا لاالہ الااللہ تفلحوا‘‘ (اے لوگوں کہہ دو کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود نہیں کامیاب ہوجاؤ گے)کی صدا بلند کی، تو بجائے اس کے کہ باشندگان مکہ اسے ہاتھوں ہاتھ قبول کرتے خوشیوں کے ترانے گاتے اور آپﷺ کی شان میں مدحیہ قصیدے پڑھتے، مگران کی حرماں نصیبی کہ انہوں نے محبت والفت کا جواب نفرت وشقاوت سے دیا، اخوت وبھائی چارگی کا جواب بغض وعداوت سے دیا ، جو ان کو قعر مذلت سے نکالنے آیا تھا،وہی ا ن کے ظلم وجور کا تختۂ مشق بنا اور جو ساری دنیا کے کمزور معبودوں سے صرف نظر کرتے ہوئے ایک قادر مطلق اور جبار ہستی سے ان کارشتہ جوڑ نے کا سبق لے کر آیا تھا انہی کو ان سطحی ذہن والوں نے ’’قد صبا‘‘کا بدنما لقب دیا اور اپنی جہالتوں کا انہیں منتہی ٰسمجھا؛بلکہ انہوں نے اس شجرۂحق کو اپنے ماحول میں نشو ونما پانے تک نہیں دیا ، کہ کہیں اس کی ہریالی سے ان کا چمن سبزہ زار نہ بن جائے اور انہیں یہ خیال ہوا کہ کیوں نہ اس پودے کا جڑ ہی سے استیصال کردیا جائے چنانچہ ایسا بھی ہوا کہ ان انجام ناشناسوں سے جب کچھ نہ بن پڑا تو اس جرم عظیم کے ارتکاب سے بھی اپنے آپ کو یہود یوں سے کم تر نہ سمجھا اور اس داعیِ حق کاقصہ پاک کرنے نکل پڑے مگر وہ ذات جو کبھی بدبخت یہودیوں کے ناپاک چنگل سے حضرت عیسی علیہ السلام کو بچالیا تھا اور رہتی دنیا تک کے لیے افق عالم کی سرخیوں پر ’’وماقتلوہ وماصلبوہ ولکن شبہ لہم‘‘ کا پیغام اجاگر کردیاتھاآج وہی ذات اپنی قدرت کی چادر پھیلائے ہوئے اس کی منتظر کھڑی تھی، جوں ہی انہوں نے اپنے مشن کو عملی جامہ پہنانا چاہا اور قریب تھا کہ صفحۂ ہستی پروہ بدترین تاریخ پھر سے دہرائی جائے ،اس ذات حي لایموت نے ان کو اپنی قادریت ولاثانیت کی چادر میں چھپا لیا اور انہیں ان کے قدر دانوں تک پہونچا دیا جہاں پہلے ہی سے بہت سے عطا ر اس خوشبو ئے نو کی مہک محسوس کررہے تھے اور برسوں سے اس خوشبو کی تلاش میں سرگرداں تھے اور جب وہ خوشبو خود انہی کے ریگزاروں میں سے ظاہر ہوئی تو ہر ایک نے اسے اپنے چمن کی زینت بنانا پسند کیا اور اس خوشبو کو اپنی زندگی میں بسایا پھر وہاں سے مشک وعنبر کی وہ خوشبویں پھوٹیں جنہوں نے حجاز کی ساری سرزمین کو معطر بنادیا او روہ نور جس کی روشنی کبھی فاراں کی چوٹی سے نمودار ہوئی تھی آج سارا حجاز اس کا پر تو اور عکس جمیل بن گیا پھر حجاز ی کرنوں نے اطراف عالم پر ضو پاشی کرنی شروع کی اور سارے عالم میں نور ہی نور کا سماں پیدا ہوگیا ، اور روئے زمین کا وہ حصہ جو کبھی بت پرستوں کی آماجگاہ تصور کیا جاتا تھا اس کی کرنوں نے اس کفر ستان کوتوحید کا گہوارہ بنادیا اور ساری دنیا ’’اِمّام الاسلام او اِمّا السیف ‘‘کی صدا سے گونج اٹھی اوردنیا کی ساری سوپر پاور او رطاغوتی طاقتیں اسلام کے زیر سایہ ہو کر اس کے رحم وکرم کی محتاج بن گئیں۔
وہ بجلی کا کڑکا تھا یاصوت ہادی
عرب کی زمیں جس نے ساری ہلادی
Rameez Ahmad Taquee
About the Author: Rameez Ahmad Taquee Read More Articles by Rameez Ahmad Taquee: 89 Articles with 73418 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.