*دین خانقاہی اور دین اسلام* (گزشتہ سے منسلک قسط نمبر2)
(عمران شہزاد تارڑ, mandi bahauddin)
اگر کوئی شخص مزاروں'خانقاہوں کا سفر کرتا ہے تو وہ ہمارے بیان کردہ واقعات کے ایک ایک حرف کو سچ پائے گا۔ |
|
سندھ میں پیر لٹن شاہ کا مزار اور مکلی
پیروں کی خرافات(بیہودگیاں) 1993ء کا رمضان المبارک ہے اور میں کراچی شہر
سے باہر”منگا پیر“ کے دربار پہ کھڑا ہوں-پچھلے سال 1992ءکے رمضان المبارک
میں-میں ایران کے شہر”شیراز“ میں تھا-یہ وہ شہر ہے کہ جس میں تیرہ صدیاں
قبل اسلام کا ایک جرنیل محمد بن قاسم خیمہ زن تھا-ناگہاں اس کے چچا حجاج بن
یوسف کا پیغام اسے کچھ اس طرح موصول ہوا:”دیبل کی بندر گاہ(کہ جو اب کراچی
میں پورٹ قاسم کہلاتی ہے)کے قریب مسلمان تاجروں اور بیوگان ویتامی کا مال
لوٹ لیا گیا ہے-لہٰذا ان لٹیروں اور ان کے سرپرست راجہ داہر کو شمشیر جہاد
سے سبق سکھادو-محمد بن قاسم رحمہ اللہ شیراز شہر سے چلا-بلوچستان کے علاقے
مکران میں آیا-یاد رہے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دور 22 ہجری میں
حضرت عاصم بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے خاران پر قبضے کے ساتھ ہی مکران
میں بھی اسلام آ چکا تها-چنانچہ اس حوالے سے بعض مورخین نے برصغیر
میں”مکران“ کو”باب الاسلام“کہا ہے-چنانچہ محمد بن قاسم رحمہ اللہ جب مکران
میں آیا تو یہاں کے پانچ ہزار جوانوں اپنے لشکر میں شامل کر کے دیبل کی
جانب چل کھڑا ہوا-پھر اس نے خشکی اور سمندر دونوں جانب سے راجہ داہر کی
ہندو فوج پر حملہ کیا-یہ رمضان المبارک ہی کا مہینہ تھا کہ محمد بن قاسم
رحمہ اللہ نے دیبل کو فتح کیا اور یوں رمضان کے مہینے میں جہاد کی برکت سے
سندھ کو باب الاسلام ہونے کا شرف حاصل ہوا-بلوچستان میں اسلام نے قدم رکھا
تو جہاد کے زور سے-سندھ میں اسلام داخل ہوا تو جہاد کی قوت سے اور قرآن و
حدیث کی دعوت سے-اب حالات نے رخ بدلا-ایک لمبی مدت گزر گئی اور پھر جب سندھ
سے عرب حکومتوں کا وجود مٹا اور باطنی فرقوں کو عروج ہوا تو اگلے مرحلے میں
ان کی قوت کو جس نے توڑا اور وسطی ہند میں سومنات اور متھرا وغیرہ کو تاراج
کرکے‘ ہندوں کی قوت ختم کرکے‘اسلام کا راستہ ہموار کیا‘ تو غزنی کے سلطان
محمود نے جہاد کے زور سے کیا-سلطان محمودکے بعد سلطان شہاب الدین غوری کو
نکال کر برصغیر میں یہ المیہ رونما ہوا کہ ان کے بعد غوری‘لودھی اور مغل
حکمران آئے تو یہ اپنی اپنی بادشاہتوں اور سلطنتوں کے لئے کشور کشائی کرتے
رہے-اس کیلئے وہ ہندوں سے بھی لڑتے رہے اور آپس میں بھی برسر پیکار رہے ‘
جبکہ اس دور میں انہیں جو دین ملا تو وہ صوفیوں سے ملا جو خانقاہوں میں
ذکرو اذکار‘ چلہ کشیوں‘ تعویزوں اور لنگر خانے جاری کرنےکی حد تک محدود
تھا-چنانچہ مذکورہ بادشاہ بھی دین دار بننے کے لئے یہ کرتے کہ ان خانقاہوں
کے نام جاگیریں وقف کردیتے-گدی نشینوں کے حضور حاضر ہو کر دعا کروا لیتے
اور بس !....چنانچہ وہ دین جو جہاد کی برکت سے بلوچستا اور سندھ میں آیا
تھا‘اب وہ دین دین اسلام نہ رہا تھا بلکہ اب دین توحید کی بجائے دین تصوف
رائج ہو رہا تھا-مسجدوں کے ساتھ علم حدیث کے مدرسوں کی بجائے اب خانقاہیں
بن گئی تھیں-حدیث کی کتابیں صحاح ستہ کے دروس کی بجائے اب تصوف کے سلسلے
قادریہ ‘ چشتیہ ‘ سہر وردیہ اور نظامیہ کی مشقیں جاری ہو گئی تھیں-اب
صورتحال یہ ہوگئی تھی کہ بزرگوں کے مزارات اور مقبرے ہی مرجع خلائق بن گئے
تھے جبکہ ان کے ساتھ مسجدیں محض علامت کے طور پر باقی تھیں-اس صورتحال کے
بعد لوگوں کی زبانوں پہ یہ کلمہ جاری ہوگیا کہ” برصغیر میں اسلام پھیلایا
ہی ان اولیائے کرام نے ہے-انہی خانقاہوں اور درباروں سے اسلام پھیلا ہے اور
چونکہ سندھ ان بزرگوں کا سب سے بڑا گڑھ تھا-اس لئے آج تک یہی کہا جاتا ہے
کہ سندھ اور ملتان ولیوں کی سرزمین ہے-یہ صوفیوں کا وطن ہے-یہ گدی نشینوں
کی وادی ہے-بالکل سچ ہے یہ موجودہ خانقاہی دین انہی صوفیوں نے پھلایا
ہے-انہی خانقاہی بزرگوں نے اسے رواج دیا ہے اور آج بهی برصغیر میں اس دین
خانقاہی کا راج ہے...-
مزید اگلی قسط میں پڑهیں جاری ہے...
تالیف عمران شہزاد تارڑ ڈریکٹر فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان |
|