اﷲ اکبر

کافی دنوں سے مجھے لگ رہا تھا کہ میرا وجود ایک ایسے درخت کی مانند ہے کہ جس کا سایہ ہے اور نہ پھل، مجھے لگ رہا تھا کہ میرا اب نہ کوئی مقصد حیات رہا ہے اور نہ ہی میرا وجود کسی کی ضرورت ہے۔یہ صرف میرے ساتھ ایسا معاملہ نہیں ہوا ہے بیشتر لوگوں کے ساتھ ایسا ہوتا ہے خیر اسی سوچ کو پروان چڑھا کر میں روزانہ کی روٹین کو بھاری قدموں ، تھکے جسم، بجھے دل اور مایوسی کے پہاڑ تلے دب کر اپنے آپ کو تقدیر پر چھوڑ کر زندگی کے دن گزار رہا تھا ۔

مایوسی سے بھری اسی روٹین پرچلتے ہوئے ایک شام اپنی اکیڈمی کھو ل کر کرسی پر بیٹھا اور اخبار کا مطالعہ شروع کیا تو ایک لڑکی جس کی عمر تقریباً بیس سال کے لگ بھگ ہو گی ،میری اکیڈمی میں داخل ہوئی ۔مجھے سلام کر کے اس نے جاب کے لیے پوچھا تو اس کے جواب میں ، مَیں نے کہا کہ ابھی تو سیشن ختم ہونے والا ہے نیا سٹاف ہم ان شاء اﷲ جون میں ہی رکھیں گے تو آپ تب اپنی سی وی کے ساتھ آئیں ۔یہ کہہ کر میں نے نظریں اخبار پر جما دیں جس میں کسی کالج کے جشن بہاراں کی تصاویر صفحہ کی زینت بنی ہوئی تھی۔لال پیلے ہرے لباس میں ملبوس ،ہاتھوں میں پتنگ پکڑے نوجوان لڑکے لڑکیا ں بسنت انجوائے کر رہے تھے ۔ دل جب مردہ ہو جائے توخسارے کا سودا کرنے والا انسان سہارہ انھی رنگینیوں کو دیکھ کریا ان رنگینیوں کا کسی نہ کسی طرح حصہ بن کر ہی حاصل کرتا ہے مگر۔۔۔مگر انسان تو خسارے میں ہے ۔

خیر میری بے رخی اور جواب کو سن کر بھی وہ لڑکی وہاں سے نہیں گئی میں نے نگاہیں اخبار کی رنگینیوں سے ہٹا کر اوپر کی تو وہ لڑکی بولی سرجون تو بہت دور ہے اگر آپ کاکسی اور اکیڈمی سے کوئی رابطہ ہے تو پلیز مجھے جاب لگوا دیں ۔ اس آواز میں اتنا درد تھا کہ میں ایک دم چونک گیا میں نے عارضی رنگینیوں سے مزین اخبار کو ایک طرف کیا اور اس لڑکی کو بیٹھنے کے لیے کہا اور اس کی تعلیم پوچھی ۔ تعلیم کا سن کر مجھے اور دھچکا لگا ۔ وہ بولی سر میں بی اے کر رہی ہوں اور فائنل ائیر ہے میں نے اس پر کہا کہ آپ کے تو اگلے ماہ پیپر ہیں،جس پر اس نے سر کو ہلایا اس پر میں نے اسے نصیحت مشاہدات کے ساتھ کی کہ آپ پیپرز کی تیاری کریں جیسا کہ سب لڑکے لڑکیا ں کرتے ہیں کہ سب سے تعلق توڑ کر پڑھائی کو پہلی ترجیح دیتے ہیں کیوں کہ اس میں انھیں اپنا روشن مستقبل نظر آتا ہے تو اس لیے آپ بھی ایسا کریں ، میری یہ تمہید سن کرقدرے ناگواری سے وہ بولی سر یہ باتیں مجھے بھی پتا ہے لیکن میری مجبوری ایسی ہے کہ میں گھر میں سب سے بڑی ہوں والدہ میری بیمار ہیں چارپائی پر پڑی ہوئی ہیں چھوٹی بہنیں ابھی نئی کلاسز میں جائے گیں تو ان کی تعلیمی چیزیں بھی پوری کرنی ہوں گی جب کہ ابو ہم بیٹیوں کی وجہ سے ہمیں کب کا چھوڑ کر چلے گئے ہیں ۔بھائی ہمارا کوئی نہیں ہے اگر بھائی ہوتا تو ابو ہمیں چھوڑتے بھی نہیں اور میں گھر سے اکیلی بارہ کلومیڑ کا سفر طے کر کے لوگوں کی ہوس بھری نگاہوں کا شکار ہوکر آپ کے پاس جاب کے لیے نہ آتی ۔ کاش اﷲ جی ہمیں ایک ہی بھائی دے دیتے اسی کی وجہ سے ابو کم از کم ہمیں پیار تو کرتے یا اور کچھ نہیں تو چھوڑ کر تو نہ جاتے ۔۔۔

یہ باتیں سن کر مجھے ایسی شرمندگی ہوئی کہ میرا سر شرم سے جھک گیا اور وہ اخباری صفحہ جس میں رنگینیاں تھی مکروہ لگنا شروع ہو گیا مجھے نہیں پتا کہ اس کے بعد اس نے کیا کہا۔مجھے انسان ہونے پر شرمندگی ہوئی تومیری زبان اور کان بندہوگئے مگر وہ بولتی رہی اور تھوڑی دیر بعد مجھے بس اتنی سمجھ آئی کہ سر میں جاتی ہوں ابھی اور بھی اکیڈمیز میں جانا ہے اﷲ آپ کی بہنوں پر آپ کا سایہ قائم رکھے۔۔۔ السلام علیکم
 
یہ کہہ کر تو وہ چلی گئی مگر میرے آنسو تھے کہ میری لاکھ کوشش کے باوجود بھی آنکھ میں رک نا سکے اور چھلکنا شروع ہوگئے ۔۔۔میری آنکھوں کے سامنے کبھی وہ بچے اور بچیاں گردش کرنا شروع ہوجاتے جو امتحانات کی تیاری میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر کرکتابوں میں غرق ہوئے ہیں تو کبھی اپنی بہنیں آنکھوں کے سامنے گردش کرنا شروع ہوجاتی کہ جنہیں میں جاب کے لیے اکیلا تو دور کی بات جاب کرنے کے لیے ہی نہیں بھیجتا ۔پھر یہ لڑکی آنکھوں کے سامنے گردش کرتی کہ جس کے پیپر ایک ماہ بعد ہیں اور وہ اتنی مجبور کہ اپنا روشن مستقبل داؤ پر لگا کر فکر معاش میں ہے۔۔۔مجھے یہ لڑکی جہاں زندگی کے تلخ حقائق سمجھا گئی وہاں ہی اپنے وجود کی اہمیت کا احساس بھی دلا کر مجھے مقصد حیات سمجھا گئی ، میرے اردگرد کی سوسائٹی میں شامل افراد کے رویے پر بھی شرمندہ کر گئی اورمجھے اپنے ناشکرے پن کا احساس بھی دلا گئی ۔۔۔پھر عصر کی نماز کا وقت ہوا ،اپنی ناشکری اور مایوسی کو یاد کیا جو اس لڑکی سے ملاقات سے پہلے تھی ، اﷲ کے حضور نماز کے لیے کھڑا ہوا، شرمندگی سے ہاتھوں کو کانوں تک لے کر گیا اور دل سے آواز آنسوؤں کے ساتھ نکلی ۔۔۔اﷲ اکبر
Nusrat Aziz
About the Author: Nusrat Aziz Read More Articles by Nusrat Aziz: 100 Articles with 78113 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.