محبتِ رسولﷺ اور گورنر پنجاب سلمان تاثیر کا قتل

 بسم اﷲ الرحمان الرحیم ’

اﷲ تعالیٰ نے حضور نبی کریم ﷺ کی محبت کو ایمان کی بنیاد قرار دیا بلکہ اپنی محبت کا ذریعہ بھی کہا کیونکہ دعوے کے ساتھ دلیل کا ہونا دعوے کی سچائی کو ثابت کرتا ہے اس لیئے اﷲ سے محبت کر نے کا دعویٰ کرنے والے سے دلیل کے طور پر محبت ِ رسول ﷺ کی سند پیش کرنے کا حکم دیا ہے گویا محبتِ رسول ﷺ کے بغیر اﷲ سے محبت کا دعویٰ مسترد کیا گیا ہے اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے (وان کنتم تحبون اﷲ فالتبعونی یحببکم اﷲ) اگر تم اﷲ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو اﷲ تم سے سے محبت کرے گا ۔ اس طرح یہ بھی ارشادہے کہ (یٰایھا الذین اٰمنوا لا تقدموا بین یدی اﷲ ورسولہ واتقوا اﷲ ط ان اﷲ سمیع علیم (۱) یٰایھا الذین اٰمنوا لا ترفعوا اصواتکم فوق صوتِ النبی ولا تجھروا لہ با لقول کجھربعضکم لبعض ان تحبط اعمالکم وانتم لا تشعرون (۲) ۴۹!۱ !۲ تفھیم القرآن ج۵)اے لوگو جو ایمان لائے ہو اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کے آگے پیش قدمی نہ کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہو اﷲ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے ۔اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہواپنی آواز نبی ﷺ کی آواز سے بلند نہ کرو اورنہ نبی ﷺ کے ساتھ اونچی آوازسے بات کیا کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو،ایسا نہ ہو کہ تمہارا کیا کرایا سب غارت ہوجائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔اﷲ رب العالمین نے حضورِ اکرم ﷺ کی محبت کو جزو ِ ایمان قرار دیا اور رسول ﷺ کی محبت کو اپنی محبت اوررسول ﷺ کی اطاعت کو اپنی اطاعت سے منسلک کیامسلمان ہونے کے لیئے بھی جو کلمہ پڑھنے کا حکم دیاگیا اس کے معنی بھی اﷲ کی توحید اوررسول اﷲ ﷺ کی رسالت کا اقرار ہے (لاالٰہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ) محبت رسول ﷺ کی اس سے بڑی دلیل کوئی نہیں ہو سکتی ۔خود رسول اﷲ ﷺ کا ارشاد ہے(لایٔومن احد کم حتیٰ اکون احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین ) تم میں سے ہر گز مٔومن ہو نہیں سکتا جب تک کہ وہ اپنے ماں باپ اپنی اولاد اورپوری دنیا کے لوگوں سے زیادہ مجھ سے محبت نہ کرے گویا ایمان کے لیئے محبتِ رسول ﷺ کو شرط قرار دیدیا ۔محبت کا قاعدہ یہ ہے کہ جس سے محبت ہو اس کی ہرادا سے پیارہوتاہے اس کی شخصیت کے ہر انداز کو اپنا یاجاتا ہے اس کے ہر حکم اورتعلیمات پر عقیدت وجذبے سے عمل کیا جاتا ہے اگر چہ جاں گسل اور کٹھن ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن جس کی محبت کا تذکرہ ہو رہا ہے اس کی زندگی کے ہر پہلو کی مکمل پیروی کرنے کا پابند بنایا گیا ہے ۔اﷲ رب العالمین کا ارشاد ہے ۔لقد کان لکم فی رسول اﷲ اسوۃ حسنۃ لمن کان یرجوا اﷲ و الیوم الاٰخروذکراﷲ کثیراً(الاحزاب۲۱) رسول کریم ﷺ کی زندگی تمہارے لیئے بہترین نمونہ ہے۔محبت کا تقاضہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کی سیرت و صورت کو اس کی روح کے مطابق عمل کیا جائے۔ اس کے علاوہ حضور ﷺ کے لائے ہوئے دین کے ہر گوشے کی حفاظت کی جائے۔اور اس کی حفاظت کے حوالے سے جان و مال اور اولاد کی قربانی دینا پڑے تو ایمان کا حصہ سمجھ کر دی جائے ۔ نبی کریم ﷺ کے جاں نثاروں کی قربانیاں ہمارے لئے امثال کا درجہ رکھتی ہیں ۔جب نبیٔ کریم ﷺ نے دعوت حق کا آغاز کیا تو قریش مکہ کی طرف سے مخالفت کی بھی ابتداء ہو گئی جیسے کہ ان کے سروں پہ بجلی کوند گئی ہو پھر کیا تھا ایک طوفان بپا ہو گیا ہر طرف مذاق ،ہلڑ بازی اوردلیل کے بجائے ہٹ دھرمی سے مقابلہ شروع کر دیا اس دعوت پرایمان لانے والوں نے ہر قربانی کے لیئے اپنے آپ کو تیار کرلیا سب سے پہلے حضرتِ خدیجہ ؓ ایمان لائیں اپنا مال اور اپنا آپ جو پہلے سے حضور ﷺکی زوجیت کے حوالے سے حضور ﷺ کی ملکیت میں تھاہرطرح کی آزمائش اور قربانی کے لیئے وقف کر دیااور سارے مصائب جھیلنے کے لیئے تیار ہو گئیں ۔اسی دوران میں حضور ﷺ کو جو تکلیفیں پہنچتیں ان کو ہلکا کرنے کی کوشش کرتیں گویا گھر میں اطمینان حاصل ہوتا۔اس کے بعد حضرت علیؓ جن کی عمر اس وقت دس سال کی تھی ایمان لائے حضرت علی ؓ واحد شخص ہیں جو حضور ﷺ کے گھر میں رہنے کی وجہ سے شائد قریشِ مکہ کی طرف سے بہت زیادہ سختیاں برداشت نہیں کیں ( سوائے بنی ہاشم و بنی عبد المطلب کے شعب ابی طالب میں محصور ہونے کے دوران اجتماعی تکالیف کے) ایک تو کم عمر تھے اور دوسرا حضور ﷺ کے گھر کے فرد تھے (سیرت ابنِ ہشام ص ۲۴۵) اس کے بعد حضرت زید بن حارثہ ؓ جو آپ ﷺ کے غلام تھے ایمان لائے(سیرت ابنِ ہشام ص۲۴۷)اس کے بعد حضرت ابو بکر صدیق ؓ جو آپ ﷺ کے دوست اور ہم اثر تھے ایمان لائے پھر یکے بعد دیگرے لوگ اسلام قبول کرتے گئے اور قریش مکہ کی سختیاں بھی بڑھتی گئیں لیکن رسول اﷲ ﷺ کی محبت و عقیدت اسی رفتار سے بڑھتی چلی گئی۔اور جاں نثارانِ مصطفی ﷺ نے نہ صرف مالی قربانیاں دیں بلکہ جانی قربانیاں بھی دیں۔یوں تو اصحابِ ؓ رسول ﷺ کی مجموعی طور پر قربانیاں قابلِ رشک ہیں لیکن (اولون الصادقون)رضوان اﷲ تعالیٰ کی قربانیوں کی مثال تاریخِ انسانی میں نہیں ملتی کہ حضور علیہ السلام کے سامنے ڈھال بن کر کھڑے ہو جائیں اور سامنے سے آنے والے تیر اپنے جسموں سے روکیں۔قریش مکہ نے اسلام قبول کرنے والوں پر ظلم کی انتہا کر دی اور سخت سے سخت سزائیں دیں لیکن محبت رسول ﷺ میں ہر سزا برداشت کی ۔یہاں سیرت رسول ﷺ لکھنا مقصود نہیں بلکہ محبتِ رسول ﷺ کے چند عملی نمونے پیش کرنا ہیں تاکہ دعویٰ محبت کر نے والوں کویہ بتایا جائے کہ رسول اکرم ﷺ جان و مال،والدین،اولاد، اور پوری دنیا کے انسانوں سے زیادہ محبت کیسے ہوتی ہے۔جب رسولاﷲ ﷺ کو ہجرت کا حکم ملا تو آپؐ کے پاس لوگوں کی امانتیں تھیں رات کونکلنا تھا اﷲ تعالیٰ نے آپؐ کوکفار کے منصوبے سے آگاہ کر دیا کہ تمام قبائل عرب سے نمائندہ جنگ جو جتھا سوتے میں شہید کرنے کی منصوبہ بندی کرچکا ہے۔حضور علیہ السلام نے اپنے ہی گھر کے فرد حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو حکم دیا کہ میری طرف سے ساری امانتیں واپس کر کے مدینے آنا چنانچہ حضرت علی ؓ حضو ر ﷺ کے بستر پر سوگئے یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ بستر سونے والے کی شہادت گاہ بنے گا لیکن جومحبت رسول ﷺ کو ایمان کا حصہّ قراردے اس کو جان کی قربانی دینا جنت کے حصول کا ذریعہ سمجھتا ہے۔حضرت علیؓ ثابت کیا کہ نبی علیہ السلام جان سے زیادہ پیارے ہیں۔ادھر صدیق اکبر ؓ حضور ﷺکے ہمراہ ہجرت کے پہلے مقام غارِ ثور کی طرف چلتے ہوئے کبھی حضورؐ کے ا ٓگے اور کبھی پیچھے چلتے اس خیال سے کوئی دشمن تعاقب میں نہ ہو اور کوئی گھات لگا کے نہ بیٹھا ہو اور حضور ﷺ کو نقصان نہ پہچائے حضرتِ صدیق ؓ نے ثابت کیاکہ حضور ﷺ کی ذات صدیق ؓ کی جان سے زیادہ عزیز اور قیمتی ہے۔یوں تو ابتداء میں ایمان لانے والوں پر کفار نے بہت زیادہ ظلم ڈھائے اور مطالبہ یہی تھا کہ جس شخص کے کہنے پر ایمان لائے ہواور اپنے آپ کو مشکل میں ڈال رہے ہو چھوڑ دو تمہیں انعام و اکرام سے نوازا جائے گا۔ایک ہی جواب تھا کہ جس رسول ﷺ پر ایمان لاچکے وہ ہماری جان و مال،والدین، اولاد عزیزواقارب،وطن، اور پوری دنیا کے انسانوں سے زیادہ عزیز اور محبوب ہیں کسی بھی قیمت پر ان کا دامن چھوڑا نہں جاسکتا اور ان شخصیات نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ محبت ِرسول ﷺ کس قدر اہم اور عزیز ہے۔غزوۂ بدر میں باپ بیٹے کے مقابلے میں تھا اور بیٹا باپ کے اور قریبی رشتہ دار ایک دوسرے کے سامنے تلواریں سونتے کھڑے تھے اور باطل کے پیرو کاروں سے حق کے پیروکار لڑ رہے تھے رشتہ داری کی محبت ہیچ تھی جبکہ رسول اﷲ ﷺ کی محبت فائق تھی یہ منظر تاریخ انسانی نے پہلے کبھی نہیں دیکھا ہو گا۔یہ صرف محبت ہی کا نہیں بلکہ اطاعت کا بھی اعلیٰ نمونہ تھا کہ رسو ل ا ﷲ ﷺکے حکم پر مر مٹنے پر تیار اور عمل پیرا سبحان اﷲ۔سب سے بڑی مشکل غزوۂ احد میں پیش آئی جب نبیٔ کریم ﷺ زخمی ہوکر گرپڑے دندان بھی شہید ہوئے حضرت علیؓ نے سہارادیا اورحضرت طلحہ بن عبید ؓ اﷲ نے آپؐ کو اٹھایا جب آپؐ کھڑے ہوئے تومالک بن سنان ؓ نے آپ ؐ کے چہرے پہ بہنے والا خون جوش محبت میں نوش کر لیا(سیرت ابنِ ھشام ج ۲ ص ۸۰)یہ محبت رسول ﷺ کی ایک اور اعلیٰ مثال،اسی طرح حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓ نے خود کی کڑیاں اپنے دانتوں سے نکالنے کی و جہ سے آپ کے دونوں دانت یکے بعد دیگرے ٹوٹ گئے ۔حضرت ابو دجانہ ؓ آپ کے سامنے ڈھال بن کر کھڑے ہوگئے اور تیر ان پرلگتے رہے،حضرت سعد بن ابی وقاصؓ آپ ؐ کے دفاع میں دشمنوں پر تیر چلاتے رہے اس طرح دس جاں نثاروں نے اپنی جانیں حضور علیہ السلام پر قربان کیں اور یہ ثابت کیا کہ جان عالم ہماری جانوں سے زیادہ قیمتی اور محبت کا مرکز و محور ہیں۔بنی دینار کی ایک خاتون جس کے شوہر ،بھائی،اور باپ جنگ میں شہید ہو چکے تھے اس کو جب بتایا گیا اس نے ایمان افروز جواب دیا کہ یہ بتائیں کہ رسول اﷲ ﷺ کاکیا حال ہے اسے بتایا گیا کہ حضور ﷺ خیریت سے ہیں تو اس نے کہا مجھے ان سے ملائیں جب ملاقات ہوئی تو عرض کیا آپؐ سلامت ہیں تو ساری مصیبتیں ہیچ ہیں(سیرت ابن ہشام ج ۲ ص ۹۹) یہ مثالی محبت رسول ہے کہ جو باپ،شوہر ،بھائی سے زیادہ عملاً ثابت کی گئی وہ بھی ایک حساس صنف یعنی خاتون۔تفصیلات کو چھوڑتے ہوئے ہجرت کے تیسرے سال قبیلۂ عضل اور قبیلۂ قارہ نے رسول اﷲ ﷺ سے تعلیم وتعلم کے لیئے کچھ معلمین کی درخواست کی آپ ؐ نے چھے افرا کا وفد بھیجا ان قبائل نے غداری کی اور راستے میں چار کو شہید کر دیا اور ان میں سے دو حضرت خبیب ؓ بن عدیؓ اور زید بن الدثنہ ؓ کوقریش کے ہاتھوں فروخت کردیا خبیبؓ حجیربن ابی اہاب نے باپ کے بدلے میں قتل کے لئے خریدا جبکہ زید بن الدثنہ کو صفوان بن امیّیہ نے اپنے باپ کے بدلے میں قتل کے لیئے خریدا ۔ زیدؓ کو حرم سے باہر قتل کے لے جایا گیا قریش کے بڑے بڑے لوگ اکٹھے ہوئے جن میں ابو سفیان بھی تھے انہوں نے زید ؓ سے قسم دے کر پوچھا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ تم گھر میں آرام سے رہواور تماری جگہ محمد ﷺ ہوں انہوں نے جواب میں کہا میں یہ کبھی گوارہ نہیں کرتا کہ میں گھر میں آرام سے رہوں اور رسول اﷲ ﷺکو ایک کانٹا بھی چبھے۔اس پر ابو سفیان نے کہا میں نے کسی کو کسی سے اتنی محبت کر تے نہیں دیکھا جتنی محبت محمد ﷺ کے ساتھی کر تے ہیں ، یہ وہ محبت ہے جس کا اعتراف دشمن بھی کرتے ہیں اس کے بعد حضرت زیدؓ بن الدثنہؓ کو شہید کر دیا گیا۔ اور حضرت خبیبؓ کو سولی چڑھا دیا گیا ۔ یہ صرف محبت رسول ﷺ کی چند مثالیں ہیں ورنہ جاں نثاران مصطفےٰ ﷺ کی لاکھوں امثال موجود ہیں تابعین میں سے محبت رسول ﷺ کی اعلیٰ مثال حضرت اویس قرنی ؒ کی ہے جنہوں نے ایک ایک کر کے اپنے سارے دانت نکال دیئے کہ نہ جانے غزوۂ احد میں محمد رسول ﷲ ﷺ کا کون سا دانت شہید ہوا ۔جاں نثاران اسلام کی ذمہ داری ہے کہ حضور علیہ السلام کی ذات ، آپؐ کی شریعت، آپؐ کی عزت وحرمت ، اور آپؐ کے اہل بیت و آلِ رسول ﷺ سے محبت واحترام اور آپؐ کے صحابہ رضوان اﷲ علیھم کے ساتھ عقیدت و احترام کو ملحوظ رکھیں اگر چہ اس میں جان ومال کی قربانی ہی کیوں نہ دیناپڑے پڑے۔اس دور میں بھی فدا کاران محمد مصطفی ﷺ کی کمی نہیں تحریک ختمِ نبوت اور تحریک نظامِ مصطفی ﷺمیں لو گوں نے جانیں جانِ عالَم پر قربان کیں ۔پاکستان کی تاریخ میں غازی علم الدین شہیدؒکے وکیل تو خود قائد اعظم تھے حالانکہ اس نے ایک غیر مسلم گستاخ رسو ل ﷺ کو قتل کیا تھا ۔ دوسرانو جوان عامر چیمہ شہیدؒ ایک عیسائی جرنلسٹ جو رسولِ کریم ﷺ کے توہین آمیز خاکے بنا کر شائع کراتا تھا جب دیکھا کہ مسلم حکمران مذمت تک کرنے کی جرأت نہیں کرتا تواس نوجوان نے اس گستاخ قتل کرنے کا فیصلہ کیا وہ وہاں تک کیسے پہنچا کیسے حملہ کیا اور بدلے رسول اﷲ ﷺ پر جان قربان کر دی ۔ تیسرا عاشق رسول ﷺ غازی ممتاز حسین قادری شہید ؒ ہے ، اس کی نوعیت اور طرح کی ہے جس وضاحت ضروری ہے کیوں کہ اس مسئلہ کو مغرب زدہ دانشور حکومت کے وزراء ترجمان عدالتوں کا فیصلہ قرار دے کر پاکستانی عوام کو دھوکہ دے رہے ہیں۔اصل حقیقت یہ ہے کہ سلمان تاثیر ایک عیسائی ماں کا بیٹا جس نے کبھی اسلام قبول نہیں کیا اس پر اعتراض نہیں اہل کتاب کی خواتین سے شادی جائز ہونے کے باوجود سلمان تاثیر مشرک ماں کی گود میں پرورش پانے والا دینی تربیت سے کوسوں دور تھا لبرل سیکو لر اسلام سے نفرت رکھنے والاشخص تھا با لخصوص اسلامی سزاؤں کو ظالمانہ اور کالے قوانین کہتا تھا وہ سلمان رشدی ملعون جس نے قرآن کو شیطانی آیات اپنی کتاب میں لکھا اس پر حسب روایت مسلمان ممالک نے آواز تک نہ بلند کی سوائے امام خمینی ؒکے انہوں نے اس کے قتل کا فتویٰ دیا اور لاکھو ں ڈالر قتل کرنے والے کو انعام میں دینے کا وعدہ کیا اس وقت سے برطانوی حکومت نے اس کو نا معلوم مقام پر چھپا رکھا ہے حقیقی خالہ زاد ہے ۔ ایک بھائی قرآن کو شیطانی آیات کہتا ہے اور دوسرا کالا قانون کہتا تھا وہ پیپلز پارٹی کی حکو مت سے مطالبہ کرتا تھا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے والی قانونی دفعہ آئین پاکستان سے ترمیم کے ذریعے نکالی جائے ، یہی وجہ ہے کہ جب آسیہ نامی عیسائی لڑکی نے توہینِ رسالت کی اور اس پر عدالت میں ثابت ہوگیا عدالت نے سزائے موت دی سلمان تاثر کے عیسائی دود ھ نے انگڑائی لی اورآسیہ کو ملنے جیل چلا گیا اور اظہار ہمدردی کے طور پر توہینِ رسالت قانون کو کالا قانون کہا گور نرنے صدر پاکستان آصف علی زرداری سے مطالبہ کیا کہ توہین رسالت اور قاد یانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے والی آئینی دفع حذف کر دی جائے یہ امتیازی قوانین سرا سر ظلم اور زیا دتی ہے یہ تھا سلمان تاثیر کا عقیدہ ایسا شخص با لاتفاق مرتد دائرۂ اسلام سے خارج اور واجب القتل ہے اسلامی شریعت میں اس کی سزا موت ہے ۔ جب سلمان تاثیر کے خلاف مقدمہ درج کرایا گیا تو عدالت نے یہ کہ کر درخواست خارج کر دی گورنر کو آئینی اثتسنا ء حاصل ہے۔ یہ غیر شرعی آئینی اثتسنا ء گورنر کو تو تحفظ دیتا ہے اور اگر تحفظ نہیں ہے تو ناموس رسالت کو ؟ ان حالات میں کسی بھی جانثا ر رسول ﷺ کی غیرت ایمانی جوش میں آ سکتی ہے اور ایسا ہی ہوا کہ ایک سیدھا سادہ نوجوان میٹرک پاس اس نے دل ہی دل میں فیصلہ کیا کہ مجھے اس واجب القتل شخص جو میرے نبی ﷺ کا گستا خ ہے اور قانون اس کو پکڑنے سے اس نوجوان اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے ( لایؤمن احد کم حتیٰ اکون احب الیہ من والدہٖ و ولدہٖ والناس اجمعین) کہ وہ ہر گز مؤمن نہیں ہو سکتا جس کو میں(محمد) اپنے والد اپنے بیٹے اور ساری دنیا سے زیادہ پیارا نہ ہو ۔ ممتاز قادری شہید نے سارے رشتوں پر اپنے نبی ﷺ کو تر جیح دی تے ہوئے واجب القتل شخص کو قتل کر دیا اور اپنے انجام فخر سے قبول کی۔ قانونی مشگافیوں ہٹ کر کہ اس نے انسان کو قتل کیا جہا ں قرآن نے قتلِ انسان کی ممانعت کی وہاں الا با الحق کی قید لگائی۔ گستاخ رسول ﷺ کے قتل کو حق قرار دیا گیا ہے اس کی کئی امثال نبی ﷺ کے زمانے میں بھی اور خلائے راشدین کے دور میں بھی گستاخ رسول کے قاتل سے نہ تو قصاص لیا گیا نہ دیت نہ کوئی اور سزا۔ جب پاکستان میں گستاخ رسول ﷺ اور اسلامی بشعائر کی توہیں کرنے والوں کو تحفظ حاصل ہو وہاں محبت رسول ﷺ سے سرشار جان تو دے سکتے ہیں لیکن کسی گستاخ رسول ﷺ کے وجود برداشت نہیں کر سکتے ۔ممتاز قادری شہید کو پھانسی لگانے کی جلدی کیاتھی آسیہ ملعونہ کو بھی سزائے موت ہو چکی ہے زرداری نے سزائے موت التواء میں ڈال دی تھی اور ممنون حسین کو آسیہ نظر نہیں آئی ممتاز قاری نظر آگیا اس کو بھی عدالتوں نے سزا دی تھی کئی کئی سال سے پھانسی کے سزا یا فتہ جیلوں میں پڑے پھانسی کا انتظار کر رہے ہیں کیا وجہ ہے کہ صدر صاحب سزا کی توثیق سے گھبرارہے ہیں شائدحکومتوں کے پالے ہوئے دہشت گرد ہیں جنہیں کوئی نہ کوئی قانونی سہارالے کر رہا کرانا چاہتے کیوں کہ یہی تو ہیں جو دہشت گردی سے دھاندلی کرا کر بر سرے اقتدار لاتے ہیں بڑی مہارت سے انہیں وی آئی پی سہولیات کے ساتھ جیلوں محفوظ رکھا جاتا ہے ۔ اس کا ایک ہی حل ہے ملک میں نظام مصطفیٰ نافظ ہو پا کستانی قوم کو یہ فیصلہ کر نا ہے کہ اس ملک میں امریکہ کے غلاموں کو مسترد کردیں اورمحمد مصطفی ﷺ کے غلاموں سے تعاون کریں تاکہ انصاف کو اس کی روح کے ساتھ نافذ کیا جائے۔یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا یہاں کسی بھی ازم کو برداشت نہیں کیا جا سکتا۔
Muzaffar Bukhari
About the Author: Muzaffar Bukhari Read More Articles by Muzaffar Bukhari: 23 Articles with 36844 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.