حق بات کے سوا کچھ نہ کہو کیوں کہ جھوٹ مذاق میں بھی حرام ہے قسط نمبر۳
(Ata Ur Rehman Noori, India)
شریعت مصطفوی کا قانون ہے کہ کسی شخص سے ملنے کا وعدہ ہے توایک نماز تک انتظار ضروری ہے |
|
۲۶؍فروری اور ۳؍مارچ کو قارئین شامنامہ کی
نذر زبان کی آفتوں پر راقم کا مضمون آیاتھا۔۱۰؍مارچ کوحالات حاضرہ پر
’’اجتماعی نکاح،بیاضوں کی تقسیم،تعمیری کام ،وارثین کی مدداور بینززکے
سلسلہ پرایک تلخ جائزہ‘‘نامی مضمون شائع ہوا۔اس ہفتے زبان کی مزیدچندآفتوں
کوتحریر کیا جارہا ہے تاکہ زبان کے صحیح ودرست استعمال کی طرف ہماری توجہ
مبذول ہو اور زبان کی آفتوں سے بچنے کا حتی الامکان جذبہ بھی پیدا ہو۔
٭مذاق:زبان کی ساتویں آفت بذلہ سنجی(لطیفہ گوئی)اور مذاق ہے۔کسی کا مذاق
اڑانااور اس کی بات اوراس کے فعل کو اس طرح نقل کرناکہ رنجیدہ ہوتویہ حرام
ہے۔حق تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ترجمہ:’’اور نہ مردمردوں سے ہنسیں عجب نہیں کہ وہ
ان ہنسنے والوں سے بہتر ہوں‘‘۔(پارہ۲۶،سورۃ الحجرات،آیت۱۱،کنزالایمان)حضور
اکرم ﷺ نے مذاق کرنے سے مطلقاً منع فرمایا ہے،ہاں تھوڑی سی ظرافت کبھی کبھی
مباح ہے اور حسنِ اخلاق میں داخل ہے بشرطیکہ اس کو عادت نہ بنا لیاجائے اور
حق بات کے سوائے اور کچھ نہ کہے کیوں کہ جھوٹ مذاق میں بھی حرام ہے۔اور
زیادہ ہنسی مذاق سے وقت ضائع ہوتا ہے اور زیادہ ہنسی سے انسان کا دل سیاہ
ہوجاتا ہے اور کبھی کبھی یہی ہنسی مذاق جھگڑے کا باعث بنتی ہے۔حدیث شریف
میں آیا ہے کہ ایک اعرابی اونٹ پر سوار تھا،رسول اﷲ ﷺ کودیکھ کر اس نے سلام
کیا اور چاہا کہ حضور ﷺ کے قریب جا کرآپ سے کچھ دریافت کرے،ہرچند وہ آگے
بڑھناچاہتا لیکن اونٹ پیچھے ہٹ جاتا تھا،صحابہ کرام ہنسنے لگے،آخر کا اونٹ
نے اس اعرابی کو گرادیااور وہ بے چارہ اس صدمے سے مرگیا،اصحاب رسول نے
کہاکہ یارسول اﷲ ﷺوہ شخص گرکرہلاک ہوگیا۔آپ ﷺ نے فرمایا:ہاں تمھارے منہ اس
کے خون سے بھرے ہیں یعنی تم اس پر ہنس رہے تھے یعنی ہماری ہنسی قلب مومن کی
تکلیف کا باعث ہوتی ہے۔اور ایک صالح مومن کے قلب کی اہمیت وافادیت وفضیلت
احادیث مبارکہ میں بڑی صراحت کے ساتھ موجود ہے۔مگر آج چند لمحے کی تفریح
طبع کی خاطر قلب مومن کوپارہ پارہ کر دیا جاتاہے۔جس سے انسانی دل زخم خوردہ
ہوجاتاہے جب کہ پیغمبر اسلام ﷺ نے فرمایا کہ کوئی شخص لوگوں کو ہنسانے کے
لیے ایک بات کہتاہے اور اسی کی بدولت اپنے درجہ سے اتنا زیادہ گر جاتا ہے
جتنا کہ آسمان سے زمین پر۔حضور اکرم ﷺنے یہ بھی ارشاد رفرمایاہے کہ جب کوئی
استہزا کرے اور دوسرے لوگوں پر ہنسے تو قیامت کے دن بہشت کادروازہ کھولیں
گے،اس کو بلائیں گے مگر اس کو اندرداخل نہیں ہونے دیں گے،جب وہ لوٹے گا تو
پھراس کو بلائیں گے اور دوسرا دروازہ کھولیں گے اسی طرح چند بار کیا جائے
گاکہ جب وہ نزدیک آئے گا دروازہ بند کردیاجائے گا،پھر ہرچنداس کو بلایا
جائے گالیکن وہ نہیں آئے گا کیوں کہ وہ سمجھے گا کہ اس کی تحقیر کی جارہی
ہے۔
٭جھوٹاوعدہ کرنا:جھوٹاوعدہ کرنا زبان کی آٹھویں آفت ہے۔حدیث مبارکہ میں
وعدہ خلافی کرنا منافق کی نشانی قرار دیا گیا ہے۔حضور ﷺنے فرمایا:وعدہ قرض
کی طرح ہے۔اﷲ رب العزت نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے اوصاف میں
فرمایا:’’انہ کان صادق الوعد‘‘۔ترجمہ:بے شک وہ وعدے کا سچا تھا۔(پارہ ۱۶،سورۂ
مریم،آیت ۵۴،کنزالایمان)حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کسی مقام پر کسی سے
ملنے کا وعدہ کیا اوروہ شخص نہیں آیا۔آپ نے تین دن تک وہاں اس کا انتظار
کیاتاکہ وعدہ پورا ہو جائے۔ایک صحابی رسول فرماتے ہیں کہ میں نے شاہکارِ
دست قدرت مصطفی جان رحمت ﷺسے بیعت کی اورمیں نے کہاکہ میں فلاں جگہ آپ سے
ملاقات کے لیے آؤں گا،میں بھول گیا۔تیسرے دن مجھے یاد آیا تو میں وہاں
گیا۔آپ ﷺ وہاں میرے انتظار میں موجود تھے۔آپ فرمانے لگے۔’’ائے جواں مرد!تین
دن سے میں تمھاری راہ دیکھ رہاہوں‘‘۔اب شریعت مصطفوی کا قانون یہ ہے کہ اگر
کسی شخص سے کسی جگہ ملنے کا وعدہ کیاہے تو اس جگہ اگلی نماز کے وقت تک
ٹھہرنا ضروری ہے۔
٭جھوٹی قسم کھانا:جھوٹ بات کہنا اور جھوٹی قسم کھانا زبان کی نویں آفت ہے
اور یہ سخت گناہ ہے۔پیغمبر اسلام ﷺ نے فرمایاکہ’’دروغ‘‘نفاق کا ایک دروازہ
ہے اور فرمایا’’دروغ گوئی رزق کی کمی کا سبب ہوتی ہے۔مزید فرمایا کہ بندے
کی ایک ایک دروغ بات خداوند تعالیٰ کے حضور میں لکھی جاتی ہے۔آج کل جھوٹ
گھریلو ونجی زندگی سے پروان چڑھ کر تجارتی میدانوں کو بھی اپنے دامِ فریب
میں لے چکا ہے۔وہ تاجر جو زیادہ منافع کی خاطر گاہکوں سے جھوٹ کہہ کر رزق
کی برکت سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں انھیں اس حدیث شریف سے درس حاصل کرنا
چاہئے۔آقا علیہ السلام نے فرمایاـ’’تاجر لوگ فاجر ہیں‘‘۔صحابہ کرام رضی اﷲ
عنہم نے دریافت کیایارسول اﷲ ﷺ!کیا خریدوفروخت حلال نہیں ہے؟آپ ﷺنے فرمایا
اس کا سبب یہ ہے کہ وہ لوگ قسم کھاتے ہیں اور گناہگار بنتے ہیں پھر جھوٹ
بولتے ہیں‘‘۔جب کہ حدیث مبارک میں ہے کہ مومن بخیل تو ہو سکتا ہے،بخیل ہونا
بھی ممکن ہے مگر مومن جھوٹا نہیں ہوسکتا۔(مشکوٰۃ)حضرت عبداﷲ ابن عامر رضی
اﷲ عنہ کہتے ہے کہ میرادو سالہ بچہ کھیلنے کے لیے باہر جارہا تھا۔میں نے اس
سے کہاکہ مت جاؤ،میں تمھیں کھانے کے لیے کچھ دوں گا۔اس وقت محبوب رب
العالمین ﷺ ہمارے گھر میں تشریف فرماتھے،آپﷺنے دریافت کیا کہ تم اس بچے کو
کیا دوگے؟میں نے عرض کیاکہ میں اس کو خرما دوں گا،آپ نے فرمایااگر تم کچھ
نہ دیتے تو یہ تمھاراجھوٹ لکھا جاتا۔جناب میمون ابن شبیب کہتے ہیں کہ میں
خط لکھ رہاتھا،اسی وقت ایک بات دل میں آئی،اگر خط میں اس کوتحریر کرتا
توحسنِ بیان میں اضافہ ہوتا لیکن وہ جھوٹ تھی،پس میں نے پختہ ارادہ کرلیا
کہ اس کو نہیں لکھوں گا۔حضرت عبدا ﷲ بن عتبہ فرماتے ہیں کہ میں اور میرے
والد حضرت عمر بن عبدالعزیز (علیہ الرحمہ)کے پاس گئے،میں اس وقت عمدہ لباس
پہنے ہوئے تھا،جب ہم وہاں سے واپس ہوئے تولوگ کہنے لگے کہ یہ خلعت امیر
المومنین نے دی ہے،میں نے کہاکہ اﷲ تعالیٰ امیر المومنین کو جزائے خیر
عطافرمائے۔یہ سن کر میرے والد نے فرمایاکہ ائے فرزند!ہرگز جھوٹ نہ بولواور
جھوٹ کے مانند بھی بات زبان سے نہ نکالو،تمھاری یہ بات جھوٹ کے مشابہ
ہے۔حضرت خبیب رضی اﷲ عنہ کی آنکھ دکھ رہی تھی۔ان کی آنکھ کے کنارے کوئی چیز
(کیچڑ)جمع ہو گئی،لوگوں نے صاف کرنے کو کہاتو آپ نے فرمایاکہ میں نے طبیب
سے وعدہ کیا تھاکہ آنکھ کو ہاتھ نہیں لگاؤں گا،اب اگر میں اس کوصاف کرلوں
تویہ میری دروغ گوئی ہوگی۔ |
|