عمل کے بغیر تو معجزہ بھی نہیں ہوتا صاحب
(Prof Liaquat Ali Mughal, Kehroor Pakka)
دین اور دنیا کے حوالے سے کشمکش عرصہ دراز
سے جاری ہے۔دنیا کی رنگینوں کے رسیا دنیا کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں اور دین
کے حوالے سے انکی ترجیحات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اسی طرح دین کے علم
برداروں کا زور اسی بات پرصرف ہوتا ہے کہ دنیا کچھ نہیں دین میں داخل ہو
جاؤ۔دنیا سے کنارہ کشی کر لواور کامیابی کو اپنا لو۔یہ جنگ جاری ہے اور نہ
جانے کب تک اس جنگ میں لوگ جھلستے رہیں گے حالانکہ دین و دنیا لازم و ملزم
ہیں۔دنیا اگردین اسلام کے بغیر ادھوری ہے تودین بھی دنیا کی عملداری کے
بغیر مکمل نہیں ۔ انسان فطری تقاضوں کا پابند ہے اور دین اسلام کی بنیاد
فطرت پر ہی ہے ۔فطرت سے رو گردانی دنیا و آخرت کی نا کامی ہے۔اگر ہم دنیا
کی تاریخ میں دیکھ لیں قرآن وحدیث اور تفسیر کا مطالعہ کریں تو بڑی دلچسپ
اور حیران کن معلومات سے واسطہ پڑتا ہے کہ وہ تمام پیغمبر‘نبی اور رسول جو
کہ اپنے اپنے وقت کے سب سے معتبر‘برگزیدہ ‘دانشمند ،فہم و فراست کے منبع ہو
تے تھے اگر انکی زندگیوں کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ وہ دینی
ومذہبی معاملات کے ساتھ ساتھ عصری علوم میں بھی یکتا تھے عصری علوم پر انکی
گرفت ہی انکو دوسروں سے ممتاز کرتی تھی۔ کہیں پر کوئی مثال ایسی نہیں ملتی
کہ کسی دنیا دار نے دنیاوی معاملے میں ان میں سے کسی کو مات دے دی ہو۔ان کے
علم و عمل کا سکہ مانا جاتا تھایہی وجہ تھی کہ لوگ ان کے ساتھ نسبت کو اپنی
آخرت سنوارنے کا ذریعہ سمجھتے تھے۔
ہم لوگ آج کے اس پر فتن دو ر کے فتنوں اپنے آپ کو اس طرح سے غرق کر چکے ہیں
کہ دین کے ساتھ ساتھ دنیا سے بھی عملی طور پر دور ہوتے جا رہے ہیں ۔یہی روش
ہمیں تنزلی کی عمیق گہرائیوں کی جانب لے جا رہی ہے۔ علم کے بل پر ہم یہ
گمان کر رہے ہیں کہ کوئی معجزہ ہوگا اور ہمارے سارے دکھڑے دھل جائیں گے
حالانکہ تاریخ کے ساتھ ساتھ واقعات بھی بتاتے ہیں کہ کوئی بھی معجزہ عمل کے
بغیر نہیں ہوتا۔کسی بھی معجزے کے وقوع پذیر ہو نے میں عمل کا کردار کلیدی
حیثیت کا حامل ہوتا ہے چاہے وہ کسی نبی سے منسوب ہو کہ کسی ولی سے ۔ یہ
حقیقت ہے کہ نبوت علم و عمل سے نہیں ملتی خدائے بزرگ و بر تر کی ودیعت و
عطاء ہے کہ اس نے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام کو اپنی مرضی
و منشا کے مطابق اس عظیم منصب کی ذمہ داری سے سرفراز کیا لیکن انسان کامل
ہونے کیلئے اس کا عامل ہونا شرط اول ہے گرچہ وہ عالم نہ بھی ہو مگر جب علم
و عمل متوازی ہوچلیں تو اس کے حامل کا اس وقت ہی دنیا میں علم و ہنر کا
ڈنکا بجتا ہے۔دنیا میں نامور ہونے کیلئے با عمل ہونے کی جو شرط ہے ہر ذی
شعور اس کا ادراک رکھتا ہے کوئی اس پر عمل پیرا ہوکر علم کی بدولت بہت آگے
نکل جاتا ہے اور کوئی علم رکھنے کے باوجود عامل نہ ہونے کی بنا پر کہیں
پیچھے رہ جاتا ہے
ہمیں اس وقت بڑی خوشی اور مسرت کا احساس ہوتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ پولیس
میں علم و عمل سے مزین لوگ اپنے فرائض سے عہدہ برآمد ہو رہے ہیں ان کے
کاموں سے جہاں عوام کو ریلیف مل رہا ہے، انکی داد رسی ہو رہی ہے، ان کے
مسائل حل کیے جا رہے ہیں وہیں پر پولیس کے حوالے سے عمومی رائے بھی تبدیلی
کے مراحل سے گزر رہی ہوتی ہے۔ملتان ڈویژن میں آرپی اوطارق مسعود یسین نے
پولیس کلچر کو تبدیل کرنے کی کوشش کی اور تبدیلی شروع ہو گئی ۔کیوں؟ کیونکہ
وہ کرنا چاہتے تھے اور کرنا چاہتے ہیں۔اورلودھراں میں اسد سرفراز جیسے ڈی
پی او کی تعیناتی سے جس طرح اوپر سے لے کر نیچے تک پولیس کے رو یے، ان کے
اطوار اور کردارمیں بہتر تبدیلی کی جھلک دکھائی دی ہے وہ ہر عام و خاص
کیلئے خوشگوار ہے ۔ خود کو عقلمند سمجھنے والے لوگ کہتے ہیں کہ گراس روٹ
لیول سے تبدیلی کا آغاز کریں حالانکہ ایسا با لکل نہیں ہے کہ تبدیلی ہمیشہ
اوپر سے نیچے کی طرف سفر کرتی ہے تو نتائج مثبت اور اورثمر مند ہوتے ہیں ۔اختیار
رکھنے والا شخص جب کسی کو اس کے برے عمل سے روکے گا تو اس کی بات میں وزن
ہوگا۔بے وزن اور کمزور شخص کی بات کا اثر آج کل کم کم ہی ہوتا ہے ۔سوایسا
ہی کچھ طارق مسعود اور انکی ٹیم کے ایک ہونہار ڈی پی او اسد سرفراز نے کیا
خود کو بطور نمونہ پیش کیا جس کے اثرات نیچے تک گئے شروع شروع میں ان کے
کردار کو بطور تمسخرلیا جاتا رہا کہ ہر نیا آنیوالا افسر کاوطیرہ اور طریقہ
واردت یہی ہوتا ہے ،اپنے آپکو بڑا فرض شناس، ایماندار اور بڑا با اصول افسر
کے طور پر پیش کرتا ہے لیکن کچھ عرصہ بعد ہی اس ماحول میں ڈھل جاتا ہے مگر
مذکورہ افسران کے بارے میں اکثریت کی رائے دھری کی دھری رہ گئی ۔ اور جب
ماتحت عملے نے انہیں ڈگر پر قائم اور اپنے مقصد پرڈٹے دیکھا تو وہ بھی اسی
انداز اور ماحول میں ڈھلنے لگے یہ بھی حقیقت ہے کہ پولیس کلچرمیں مکمل طور
پر تبدیلی نہیں آئی اور نہ ہی اس نظام کی کہنہ سالی کی وجہ سے آسکتی ہے
لیکن تبدیلی کا آغاز توہو چکا ہے پہلا قطرہ اپنی قربانی دے چکا ہے پہلی
اینٹ تو رکھی جاچکی ہے کوئی شبہ نہیں محکمہ پولیس دہائیوں سے بدنام چلا
آرہا ہے لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ زبانی جمع خرچ اور اس پر تنقیدکے
علاوہ کچھ نہیں کیا جاسکا ہے۔خلوص دل اور عملی طورپراسکو بدلنے کی کوشش ہی
نہیں کی گئی۔اب جب کہ مذکورہ بالا علم و عمل سے مزین افسران محکمہ کی باگ
دوڑ سنبھالیں گے تو پھرٹاؤٹ مافیا جس سے سب سے زیادہ محکمہ پولیس نقصان
پہنچایا اور پہنچارہا ہے اس کا خاتمہ بھی ہوگا ،روایتی تفتیشی انداز بھی
تبدیل ہوگا۔شائستگی اور شفتگی بھی اپنا رنگ دکھائے گی ظالم کو جیل اور
مظلوم کو کرسی ملے گی۔ گناہگار اورمظلوم میں فرق بھی نمایاں ہوگا عوام اور
پولیس کے درمیان اعتماد کی فضا بھی قائم ہوگی اوور فاصلے بھی یقینا سمٹیں
گے۔ آپ صرف پہلے اپنے آپ کو بدلئے۔دوسرے خود تبدیل ہوجائیں گے۔یہی سوچ اسد
سرفراز خان نے اپنائی اپنے جدید علم کو عملی طور پر نافذ کیاتو لودھراں
پولیس کا قبلہ نہایت حدتک درست سمت اختیار کرچکا ہے اور اس میں مزید بہتری
آرہی ہے صرف مستقل مزاجی درکار ہے بقول شاعر
جو پتھر پہ پانی پڑے متصل
بلاشبہ گھس جائے پتھر کی سل |
|