قدرت کے کھیل بھی نرالے

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ فاطمہ بھٹو نے’لہو اور تلوار کے گیت لکھ کر بھٹو خاندان سے انتقام لیا ہے۔’سانگز آف بلڈ اینڈ سورڈ یا ’لہو اور تلوار کے گیت‘ فاطمہ بھٹو کی نئی کتاب ہے جو انکی یاداشتوں پر مبنی ہے۔ بھٹو خاندان اپنی تحریر اور تقریر کے باعث ہمیشہ عوام میں مقبول رہا ہے۔ بھٹو کی تقاریر عوام کی دلوں کی آواز تھی۔ اپنے ایام اسیری میں انہوں نے کتاب لکھی تھی۔ اگر مجھے قتل کیا گیا۔۔۔ ضیاء کے دور میں یہ کتاب پاکستان میں نہ چھپ سکی۔ اسی دور میں بے نظیر بھٹو کے ان خفیہ خطوط کا خوب چرچا رہا۔ جو انہوں نے بھٹو صاحب کی رہائی کے لئے بیرون ملک لکھے۔ پنکی کے خطوط اسمگل ہوکر باہر جاتے تھے۔ جو بعد میں ایک خبر رساں ایجنسی کے ہاتھ لگ گئے۔ اور اخبارات تک پہنچ گئے۔ بے نظیر بھٹو کی کتاب ڈاٹر آف ایسٹ، جس کا اردو ترجمہ دختر مشرق کے نام سے شائع ہوا۔ ایک بیسٹ سیلر کتاب تھی۔ اچھی انگریزی اس خاندان کی خاصیت رہی ہے۔ اور اب یہ ورثہ فاطمہ بھٹو کو منتقل ہوا ہے۔ جس کا وہ خوب استعمال کررہی ہیں۔ فاطمہ بھٹو کی کتاب لندن کے ایک اشاعتی ادارے جوناتھن کیپ نے شائع کی ہے۔ بھٹو خاندان کی اکثر کتابیں بیرون ملک کے اشاعتی اداروں ہی سے شائع ہوتی رہی ہیں۔ فاطمہ بھٹو نے اپنی تازہ کتاب اپنی علیل دادی بیگم نصرت بھٹو اور والدہ غنویٰ بھٹو کے نام کی ہے۔ بیگم نصرت بھٹو زندہ ہوتے ہوئے بھی برسوں سے عوام کی آنکھوں سے اوجھل ہیں۔ یہاں تک کہ اپنی بیٹی بے نظیر کی شہادت پر بھی وہ کہیں دکھائی نہ دیں۔ فاطمہ بھٹو کے والد میر مرتضیٰ بھٹو کو انیس سو چھیانوے میں ایک پولیس مقابلے میں ہلاک کیا گیا تھا۔ اگلی صبح میرا گزر اس سڑک سے ہوا۔ صبح سویرے ہی سے سڑک کو سرف پوڈر کے ذریعے رگڑ رگڑ کر دھویا جارہا تھا۔ فیض نے کہا تھا خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد۔ لیکن خون کے یہ دھبے تو کسی برسات کے بغیر ہی مٹا دئے گئے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو انیس سو اناسی میں فوجی دور حکومت میں پھانسی دے دی گئی، ان کے دوسرے بیٹے شاہنواز بھٹو جو انیس سو پچاسی میں قتل ہوئے، یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ شاہنواز کے قتل کے ٹھیک گیارہ برس بعد فاطمہ بھٹو کے والد میر مرتضیٰ بھٹو جو انیس سو چھیانوے میں ہلاک کیے گئے مرتضی بھٹو کے قتل کے گیارہ برس بعد بینظیر بھٹو دو ہزار سات میں ہلاک ہوئیں۔ اور ان کی شہادت کے مقام کو بھی راتوں رات سرف اور پانی سے رگڑ رگڑ کا صاف کر دیا گیا۔ فاطمہ بھٹو اس وقت چودہ برس کی تھیں جب بینظیر بھٹو کے دور حکومت میں ان کے والد کو کراچی میں ان کے گھر کے باہر پولیس نے ہلاک کر دیا۔ بہن کی حکومت میں پولیس کے ہاتھوں بھائی کا قتل ہونا، تاریخ کا المیہ ہے۔ فاطمہ بھٹو کا الزام ہے کہ ان کے والد کے قتل کا مقصد دراصل بھٹو خاندان کے اصلی جانیشن کو راہ سے ہٹانا تھا۔ فاطمہ لکھتی ہیں کہ ان کی پھوپھی بینظیر بھٹو جسے وہ’وڈی بوا’ کہتی ہیں، بچپن سے ہی ان کے والد میر مرتضیٰ پر غلبہ پانے کی کوشش کرتی رہتی تھیں اور بھٹو خاندان کی سیاسی وارث بننے کی کوشش کرتی رہیں۔ فاطمہ بھٹو نے اپنی ’وڈی بوا‘ کی مخالفت میں اس کتاب میں بہت کچھ لکھا ہے۔ جس پر اس خاندان سے محبت کرنے والے حیران ہیں۔ تاریخ میں حقائق نہ ہوں تو وہ قصہ کہانی تو ہوسکتی ہے۔ لیکن تاریخ نہیں ہوسکتی۔ اس کتاب میں ایک بیٹی نے اپنے باپ پر لگے دہشت گردی اور مسلح جدوجہد کے الزامات کو دھونے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اس میں وہ کتنی کامیاب ہوئیں۔ یہ وقت بتائے گا۔ کتاب میں اپنی وڈی بوا سے اظہار نفرت کرنے والی فاطمہ بھٹو کی ایک مشکل یہ بھی ہے کہ قدرت نے اسے بے نظیر بھٹو کی کاپی بنایا ہے۔ اس لئے وہ عجیب کشمکش میں رہتی ہیں۔ وہ اپنی بے بسی کا اظہار ان الفاظ میں کرتی ہیں، لوگ جب مجھے کہتے ہیں کہ میری شکل بینظیر بھٹو سے ملتی ہے تو میرے پاس کچھ کہنے کو نہیں ہوتا۔ قدرت کے کھیل بھی نرالے ہیں۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 389421 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More