ٹوپی پہنی نہیں جاتی بلکہ ٹوپی پہنائی جاتی ہے

کپھے کھپے اور نا کپھے ناکھپے کے نعروں کے بیچ میں پھر ٹوپی آگئی ہے۔ یہ ٹوپی پہنے اور پہنانے والی نہیں ہے۔ نوجوان نسل سے ٹوپی کی بات کہیں تو وہ کہتے ہیں، انکل ٹوپی پہننے کی بات چھوڑئیے! یہ بتائیں کس کو ٹوپی پہنانی ہے۔ گزرے زمانے میں ٹوپی ہماری تہذیب و تمدن کا حصہ تھی۔ ترکی ٹوپی، رام پوری ٹوپی، دو پلّی ٹوپی سندھی ٹوپی، بلوچی ٹوپی، گاندھی کیپ، جواہر کیپ، جناح کیپ، پھر ماؤ کیپ، بھٹو کیپ، چی گوئیرا کیپ اور جانے کون کون سی کیپ آئی، اور ہم ٹوپی کو بھول گئے۔ ہمیں ٹوپی ہی آج کیوں یاد آئی؟ گزشتہ دنوں سندھ میں بڑے جوش و خروش سے سندھی ٹوپی کا دن منایا گیا۔ اور ہم خوش ہوئے کہ سندھ کے گاﺅں دیہاتوں کی مقبول سندھی ٹوپی سندھ کے شہری نوجوانوں میں بھی مقبول ہوئی۔ ٹی وی چینل والے اینکر اگر ذرا توجہ شیروانی اور شلوار کرتے پر فرما دیں تو بہت سوں کا بھلا ہوجائے گا۔ اور کسی کا ہو نہ ہو شلوار کرتے بنانے والے کاریگر تو اپنے کاروبار کو دوبار زندہ کرنے پر ان اینکر پرشن کے بے حد مشکور ہوں گے۔ بچپن میں ہمیں ترکی ٹوپی بہت پسند تھی۔ اس وقت ہمیں اس کا نام نہیں پتہ تھا۔ لیکن اس میں لگے پھندنے سے ہمیں بہت دلچسپی تھی۔ اور ہم اس گھومتے ہوئے پھندنے کی گردش ہی کو دیکھا کرتے تھے۔ مولانا محمد علی جوہر اور مولانا حسرت موہانی کی یہ پھندنے والی ٹوپی انکل عرفی میں حسنات بھائی نے ایسی مقبول کی کہ ہر بچہ ہمیں کہتا نظر آیا چکو ہے میرے پاس ۔۔ ہاں ۔ ٹوپیوں کے ساتھ ساتھ ہمیں راجستھانی صافے اور پگڑیاں بھی بھی لگتی تھیں۔ راجستھانی پگڑی اس قدر بڑی ہوتی تھیں کہ ضرورت پڑنے پر ان پگڑیوں کو رسے کے طور پر کنویں سے پانی نکالنے کے لئے ڈول میں بھی باندھ کر کوم لیا جاتا تھا، ہمارے تایا پھول خاں تو اپنی آخری عمر میں بھی یہ رنگ برنگی پگڑی باندھا کرتے تھے۔ پہلے بچے اپنے جاننے والوں کو انکل نہیں کہتے تھے ۔ کسی کو چچا اور کسی کو ماموں کے رشتہ سے پکارتے تھے۔ پچاس برس میں کایا پلٹ گئی ہے۔ اب ہمارے ہاں اس لفظ یعنی’ ماموں۔ چچا‘ کی جگہ انکل سام کے ’ انکل ‘ نے لے لی ہے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ تبدیلی کب اور کیسے ہوئی کسی کو اس کا پتہ ہے اور نہ اس کا احساس۔ کرتا پاجامے کے آگے، ٹوپی کی بات پرانی لگتی ہے۔ اب جو ہمارے سندھی بھائیوں نے سندھی ٹوپی سے محبت کا مظاہرہ کیا ہے۔ تو امید ہے نوجواں نسل ایک بار پھر سے اپنے سر کی عزت کو دو بار وقار بخشے گی۔ نصف صدی میں ہماری تہذیبی اقدار تیزی سے بدلی ہیں۔ ہمارے معاشرے سے ایک دوسرے سے محبت رواداری، احترام سمیت نہ جانے کیا کیا غائب ہو گیا ہے۔ ہماری نئی نسل کو تو رومال بھی یاد نہیں کہ گھر سے نکلتے ہوئے رومال لازمی ہاتھ یا جیب میں ہوتا تھا۔ اب تو ہاتھوں میں موبائل ہے۔ اور کانوں میں ائیر فون یا پھر لیپ ٹاپ۔ ہم یہ باتیں اپنے دوست سے کر رہے تھے کہ موبائل ہاتھ میں لئے ایک نوجوان ہم سے مخاطب ہوا انکل آپ کہاں رہتے ہیں؟ کراچی میں ہم نے جواب دِیا: اس نے نہایت تمسخرانہ لہجے میں کہا کہ میرا مطلب ہے کس علاقے میں؟ ہم نے جھلا کر کہا اسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں آپ رہتے ہیں۔” انکل! یہی تو مسئلہ ہے آپ کا آپ کہتے تو یہ ہیں کہ اس دنیا میں رہتے ہیں۔ مگر سچ یہ ہے کہ اپنے حال سے بے نیاز ہو کر اپنے ماضی میں رہ رہے ہیں۔“ انکل! یا تو دنیا جس طرح اور جس سمت چل رہی ہے اس کے ساتھ چلئے یا پھر دنیا کو اپنے ساتھ چلانے کے صلاحیت پیدا کیجئے۔ ورنہ ابھی تو آپ کی ٹوپی وغیرہ گئی ہے آئندہ کیا کیا جائے گا اس کی لمبی فہرست بن جائے گی اور سچ یہ ہے کہ آپ سمجھ رہے ہیں کہ آپ کے معاشرے سے ٹوپی چلی گئی ہے۔ ٹوپی گئی نہیں ہے بلکہ ٹوپی تو موجود ہے بس آپ کو دکھائی نہیں دے رہی ہے۔“ ہم نے کہا وہ کیسے؟ ”ارے انکل ٹوپی اب پہنی نہیں جاتی بلکہ ٹوپی پہنائی جاتی ہے۔ آپ بھی ٹوپی پہنانا سیکھ لیجئے زمانے سے۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 394681 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More