تحریک سید شہید رحمتہ اﷲ علیہ اور خاندان شاہ ولی اللہ رحمتہ اﷲ علیہ

ہمارے برصغیر پاک وہند میں ایک طبقہ ایسا ہے جو شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ اور ان کے خاندان سے محبت وعقیدت اور انہی کے مسلک پر کاربند ہونے کا نہ صرف مدعی ہے بلکہ بزعم خویش واحد وہی طبقہ شاہ ولی اللہ صاحب کے مزاج ومسلک دینی کا ترجمان ہے۔ یہ طبقہ بظاہر شاہ ولی اللہ صاحب سے جس قدر محبت وعقیدت کا اظہار کرتا ہے اُسی قدر بلکہ اس سے بڑھ کر تحریک سید احمد شہیدؒ سے بغض وعناد اور حسد وعداوت رکھنا اپنا عین ایمان خیال کرتا ہے اور اسی لیے جب خاندان ولی اللّہی کے نامور فرد شاہ محمد اسماعیل شہیدؒ کو اس تحریک کی صف اول میں پاتا ہے تو ان پر مختلف الزامات عائد کرکے عوام الناس کو یہ دھوکہ دیتا ہے کہ شاہ محمد اسماعیل ؒ اگرچہ خاندان ولی اﷲ ہی کے فرد تھے مگر اپنے افکار ونظریات میں اس خاندان سے مختلف تھے اس لیے انہیں فکری ونظریاتی طور پر شاہ ولی اللہ صاحبؒ کا پیروکار اور ان کے افکار کا ترجمان نہیں کہا جا سکتا۔ اس طبقے نے اپنے اس غلط دعویٰ کو مضبوط کرنے کیلئے شاہ محمد اسماعیل صاحب کی کتاب’’تقویۃ الایمان‘‘ کے خلاف ایک ایسا طوفان بدتمیزی برپا کیا کہ بعض ناعاقبت اندیشوں نے ان پر کفر وگستاخی کے الزامات لگانا ہی اپنا وظیفۂ حیات بنا لیا لیکن حالات وواقعات یکسر اس کے خلاف ہیں۔ حالات و واقعات کا مطالعہ کرنے سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ تحریک سید احمد شہیدؒ اور خاندان ولی اللّہی میں تحریک کے آغاز سے پہلے اور بعد میں باہم نہایت خوشگوار اور محبت وعقیدت بھرے تعلقات قائم رہے۔ معترضین جتنا شور مچائیں مگر ان حقائق کا نہ انکار کر سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی جواب ان کے پاس ہے ۔

سید احمد شہیدؒ کے نانا سید ابو سعید بریلویؒ شاہ ولی اللہ صاحب ؒ سے تعلق ارادت وبیعت رکھتے تھے اور انہیں شاہ ولی اللہ صاحبؒ کی طرف سے خلافت بھی حاصل تھی ۔ ان کے خطوط کے ملاحظہ سے پتہ چلتا ہے کہ دونوں بزرگوں میں باہمی الفت ویگانگت کا گہرا تعلق تھا۔ہم یہاں سید شہید ؒ سے قبل کے ان تعلقات کو قلم زد کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں ۔ سید شہیدؒ کو خود شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ جو شاہ ولی اللہ صاحبؒ کے جانشین اور بڑے صاحبزادے تھے، نے سلسلہ قادریہ، چشتیہ اور نقشبندیہ میں بیعت فرمایا اور خلافت واجازت سے سرفراز کیا۔

تحریک سید شہیدؒ کے ایک اہم صاحب علم ومعرفت مولانا عبدالحی بڑھانوی ہیں۔ یہ بزرگ شاہ ولی اللہ صاحبؒ کے خلیفہ شاہ نور اللہؒ کے پوتے تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ شاہ عبدالعزیز صاحب کے داماد تھے، علم وفضل میں یہ مرتبہ حاصل تھا کہ شاہ عبدالعزیز صاحب ؒ جیسے جامع الکمالات محدث نے انہیں’’شیخ الاسلام‘‘ کے خاص لقب سے نوازا تھا، انہیں خود شاہ عبدالعزیز صاحبؒ نے سید شہیدؒ سے بیعت کرایا، مقام حیرت ہے کہ تحریک کے معترضین شاہ محمد اسماعیلؒ کو تو معاف نہیں کرتے کیونکہ ان پر عناد کے تیربرسانے کیلئے ’’تقویۃ الایمان‘‘ نامی کتاب کا سہارا لے لیا جاتا ہے جس نے ان نااہل گدی نشینوں اور بدعات کے دلدادہ لوگوں کے حلوے مانڈے پر کڑی ضرب لگائی ہے مگر مولانا عبدالحی صاحبؒ کے بارے میں اس قدر خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے گویا وہ اس تحریک کے فرد ہی نہیں تھے کیونکہ انہیں تحریک کا فرد ظاہر کرنے سے اُنہیں اِن پر کوئی اعتراض کرنے کا موقع ہاتھ نہیں آتا بلکہ اُلٹا اپنا پروپیگنڈہ ہوا میں تحلیل ہوتا نظر آتا ہے کیونکہ سائل پوچھ سکتا ہے کہ اگر سید شہیدؒ اتنے ہی قابل اعتراض تھے جتنا انہوں نے بنا رکھا ہے تو پھر شاہ عبدالعزیزصاحبؒ نے اپنے اتنے بڑے صاحب علم وفضل داماد کو سید شہیدؒ سے کیوں بیعت کرایا؟یاد رہے مولانا عبدالحیؒ نے جس وقت بیعت کی شاہ عبدالعزیز صاحب ؒ اس بیعت کے 5،6سال بعد تک حیات رہے تھے اور یہ بزرگ مرتے دم تک سید شہیدؒ کے ساتھ رہے اور ہجرت وجہاد کا سفر کیا اور اسی راہ جہاد میں سرحد کے مقام خہر(خار) میں وفات پائی۔

خاندان ولی اللہ صاحبؒ کے دوسرے عظیم فرد جو اس تحریک کے روح رواں رہے شاہ محمد اسماعیل شہیدؒ ہیں ۔ شاہ محمد اسماعیل صاحبؒ ، شاہ ولی اللہ ؒ کے پوتے،شاہ عبدالغنیؒ کے بیٹے اور شاہ عبدالعزیز صاحب ؒ کے بھتیجے ہیں ۔ اس مبارک خاندانی رشتے کے علاوہ علم وفضل میں آپ کا پایہ اتنا مضبوط تھا کہ شاہ عبدالعزیز صاحب ؒ نے انہیں’’حجۃ الاسلام‘‘ یعنی’’ اسلام کی حقانیت وصداقت کی دلیل ‘‘کا لقب خاص دیا تھا۔ شاہ عبدالعزیز صاحب ؒ کو آپ سے اور شاہ محمد اسحاق صاحب ؒ سے(جو شاہ عبدالعزیز ؒ کے جانشین مقرر ہوئے تھے)اِس قدر محبت اور اعتبار تھا کہ اکثر ان دونوں بزرگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ آیت مبارکہ تلاوت کرتے:
الحمد للّٰہ الذی وہب لی علی الکبر اسماعیل واسحاق
اس آیت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قول نقل کیا گیا ہے جو انہوں نے اپنے فرزندان گرامی قدر حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت اسحاق علیہ السلام کے متعلق فرمایا کہ:’’تمام تعریفیں اُس پرورگار کیلئے ہیں جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحاق عطا کیے‘‘

عبرت ہے اس میں ان لوگوں کیلئے جو شاہ محمد اسحاق صاحب ؒ کی عقیدت کا دم تو بھرتے ہیں مگر شاہ محمد اسماعیل صاحبؒ پر سبّ وشتم کرنا کارِثواب خیال کرتے ہیں ،فیا للعجب!
شاہ محمد اسماعیل صاحب ؒ نے بھی شاہ عبدالعزیز صاحب ؒ کی حیات میں، ان کی موجودگی میں سید شہیدؒ سے بیعت کی اور ان کی حیات میں ہی خود کو سید شہیدؒ کے قدموں میں ڈال دیا تھا۔ کیا یہ سب کچھ شاہ عبدالعزیز صاحبؒ کی مرضی کے خلاف تھا؟

یہاں ایک اور حقیقت کا اظہار بھی فائدے سے خالی نہ ہوگا۔ تحریک کے مخالفین کی جانب سے سید شہیدؒ کے ملفوظات پرمشتمل کتاب ’’صراط مستقیم‘‘ کی بعض عبارات کے حوالے سے سید شہیدؒ اور شاہ محمد اسماعیل شہیدؒ کو ہدف طعن بنایا جاتا ہے۔ قطع نظر اس سے کہ ان اعتراضات کی کیا حقیقت ہے اور علماء نے ان کا جواب بھی لکھا ہے مگر یہاں صرف اتنا عرض کرنا ہے جو ماننے والے کیلئے کافی ہے کہ یہ مجموعہ ملوظات۱۲۳۳ھ میں شاہ عبدالعزیز صاحب ؒ کی وفات ۱۲۳۹ھ سے قبل ترتیب پاگیا تھا اور اس کے مرتب صرف شاہ اسماعیل صاحب ؒ نہیں بلکہ مولانا عبدالحی صاحبؒ بھی اس کی ترتیب میں شریک تھے اگر ان دو اہل علم کی بات نہ بھی مانی جائے تو شاہ عبدالعزیز صاحب ؒ نے اس عبارت پر گرفت کیوں نہیں کی ؟جس پر بعد کا یہ بدعات کا رسیا طبقہ شور اُٹھاتا ہے اور نہ ہی شاہ صاحب کے جانشین شاہ محمد اسحاق صاحبؒ نے اس پرکوئی گرفت کی۔

خاندان ولی اللّہی کے تیسرے اہم فرد جو تحریک میں شامل تھے اور تحریک میں’’قطب‘‘ کا درجہ رکھتے تھے وہ مولانا محمد یوسف پھلتیؒ ہیں۔ یہ شاہ ولی اللہ صاحب ؒ کے چھوٹے بھائی شاہ اہل اللہ کے پوتے ہیں ۔یہ بزرگ بھی شاہ عبدالعزیز صاحب ؒ کی موجودگی میں بیعت ہوئے اور بیعت کے وقت سے لیکر تادم وفات سید شہیدؒ کے ایک ادنیٰ خادم کی حیثیت سے ساتھ رہے ۔آپ کا علم وفضل کے ساتھ روحانی مقام اتنا بلند تھا کہ سید شہیدؒ انہیں اپنے لشکر کا ’’قطب‘‘ فرمایا کرتے تھے آپ ہجرت وجہاد کے سفر میں ساتھ رہے اور اسی مبارک سفر میں سرحد کے ایک غیر معروف مقام میں انتقال فرمایا۔

خاندان ولی اللّہی کے ان تین نامور اصحاب علم وفضل کے علاوہ بہت سے غیر معروف افراد نے سید شہیدؒ کے ہاتھ پر بیعت کی ان میں مولوی وجہیہ الدین ،حکیم مغیث الدین اور حافظ معین الدین صاحب شامل ہیں ان کا خاندان ولی اللہ سے رشتہ داری کا قریبی تعلق تھا اگرچہ فی الحال ہمیں تفصیلی حالات دستیاب نہیں۔اس کے علاوہ خود شاہ محمد اسحاقؒ جو شاہ عبدالعزیز صاحبؒ کے جانشین بنے اپنے بھائی شاہ محمد یعقوبؒ کے ہمراہ سید شہیدؒ کے دست مبارک پر بیعت ہوئے یہ دو حضرات اگرچہ عملی طور پر ہجرت وجہاد کے سفر میں شریک نہ تھے مگر سید صاحب سے بیعت ہوئے اس حقیقت کا انکار ناممکن ہے اسی طرح سید شہیدؒ کے ہجرت فرمانے کے بعد دہلی اور ہندوستان میں اس تحریک کو جاری رکھنے میں ان کی کاوشیں ایک مسلمہ حقیقت ہے جس سے معاندین تحریک انکار نہیں کر سکتے۔ ان بزرگوں کا تحریک سے کتنا تعاون تھا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ۱۲۴۰ھ شاہ محمد اسحاق دہلی میں عوام الناس سے وعظ فرماتے اور باہر مدرسے کے دروازے پر آپ کے داماد مولانا سید محمد نصیر الدین دہلویؒ ان مجاہدین کیلئے چندہ جمع کرتے۔

سید شہیدؒ کی حیات تک اس تحریک اور خاندان ولی اللّہی کا جو قریبی اور گہرا تعلق رہا وہ گزشتہ بالا تحریر سے صاف عیاں ہے مگر یہ تعلقات یہیں ختم نہیں ہو جاتے بلکہ بعد میں بھی قائم رہے۔ سید شہیدؒ اور ان کے رفقاء کی بالاکوٹ میں شہادت کے بعد اس تحریک کی وہ رونق باقی نہ رہی تھی جو سید شہیدؒ کی حیات میں قائم تھی ۔ اس صورتحال میں مولانا سید نصیر الدین دہلویؒ ہی تھے جو میدان جہاد میں اترے اور قیادت اپنے ہاتھ میں لیکر تحریک کو از سر نو تازہ کیا۔ گویا سید شہیدؒ کے جانشین بن کر انہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جہادی قافلوں کو سنبھالا۔ یہ مولانا سید نصیر الدین کون تھے؟۔

مولانا غلام رسول مہر آپ کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں’’حضرت مولانا سید نصیر الدین جامع کمالات بزرگ تھے۔ آپ کو مجدو شرف کی متعدد نسبتیں حاصل تھیں ۔ آپ سید ناصر الدین تھانیسری سونی پتی کی اولاد سے تھے۔ حضرت شاہ رفیع الدین محدث دہلویؒ بن شاہ ولی اللہ کے نواسے،حضرت شاہ عبدالعزیز ؒ کے شاگرد عزیز،حضرت شاہ محمد اسحاقؒ کے داماد،حضرت شاہ محمد آفاق مجددی نقشبندی دہلویؒ کے مرید وخلیفہ اور حضرت سید احمد شہیدؒ کی تحریک جہاد کے رکن رکین تھے‘‘۔

مولاناسید نصیر الدین صاحب نے ۱۲۴۶ھ میں سید شہیدؒ کی شہادت کے چار سال بعد ۱۲۵۰ھ میں اس تحریک کی قیادت اور اسے ازسرنوزندہ کرنے کیلئے دہلی سے ہجرت کی۔آپ کی ہجرت کے وقت آپ کے سسر، مسند علم کے بے تاج بادشاہ شاہ محمد اسحاقؒ اور آپ کے پیرومرشد شاہ محمد آفاق مجددی ؒ دونوں بزرگ زندہ تھے۔ بھلا اگر یہ تحریک غلط تھی یا ’’وہابی تحریک‘‘ تھی جیسا کہ اسے بدنام کرنے کی متعدد ناروا کوششیں ہوئیں اور اب تک جاری ہیں تویہ حضرات اپنے اس چہیتے داماد اور محبوب خلیفہ کو کیوں جانے دیتے؟ اور جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ یہی مولانا سید نصیر الدین صاحب شاہ محمد اسحاق کے وعظ کے وقت مدرسے کے دروازے پر مجاہدین کیلئے چندہ جمع کرتے تو ان حضرات نے اس سے کیوں منع نہ کیا؟

نیز یہ اتفاقی امرکس قدر باعث حیرت ومسرت ہے کہ سید شہیدؒ کی حیات میں آپ کی تحریک کے روح رواں مولانا عبدالحی بڑھانویؒ شاہ عبدالعزیز صاحب ؒ کے داماد تھے اور سید شہیدؒ کی شہادت کے بعد اس تحریک کو سنبھالنے والے شاہ عبدالعزیزؒ کے جانشین شاہ محمد اسحاق صاحبؒ کے داماد تھے۔

غرضیکہ تحریک کے قیام وبنیاد میں خاندان ولی اللہ ہی کابنیادی کردار رہا بلکہ شاہ ولی اللہ صاحب کے’’نظریۂ فک کل نظام‘‘جس کی تفصیل آپ کی کتاب ’’حجۃ اللہ البالغہ ‘‘اور’’البدورالبازغہ‘‘ میں موجود ہے کی بنیاد پر یہ تحریک شروع کی گئی اس لیے شاہ ولی اللہ صاحبؒ کے جانشین شاہ عبدالعزیز اور پھر ان کے جانشین شاہ محمد اسحاق صاحبؒ نے بھرپور طریقے سے اس تحریک کا ساتھ دیا۔ اس تحریر میں تحریک میں شامل خاندان ولی اللہ کے معروف وسرکردہ اصحاب علم وفضل کی نسبت سے باہمی تعلقات کا ایک مختصر نقشہ پیش کیا گیا ہے اگرچہ تحریک میں شامل دیگر متعدد ولی اللّہی خاندان کے افراد بھی شامل تھے ان میں سے بعض کے صرف نام تاریخ میں محفوظ رہ گئے ہیں گویا:
دو چار سے دنیا واقف ہے
گمنام نہ جانے کتنے ہیں

مگر جو کچھ ذکر کیا گیا انصاف پسند لوگوں کیلئے یہی کافی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے محبوب بندوں کی سچی محبت وپیروی نصیب فرمائے اور ان سے بغض وعداوت رکھنے سے محفوظ رکھے کیونکہ نبی کریمﷺ نے اللہ تعالی کا ارشادنقل فرمایا:

من عادی لی ولیافقد آذنتہ بالحرب جس نے میرے دوست سے عداوت کی میرا اسے اعلان جنگ ہے۔
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 372749 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.