بعض اوقات انسان کے دل میں یہ
سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب کسی سے محبت ہوتی ہے تو محبت میں تو اسے آرام
پہنچایا جاتا ہے، راحت دی جاتی ہے تو جب اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے بندے سے
محبت کرتے ہیں تو اس بندے کو آرام پہنچانے کے بجائے تکلیف میں مبتلا کیوں
کر دیتے ہیں؟ یہ ہی سوچ کر انسان تقدیر سے شکوہ کرتا رہتا ہے اور کم علمی
میں زبان سے کفریہ کلمات نکالتا ہے جیسے کہتا ہے کہ کیا اس تکلیف کے لیے
میں ہی رہ گیا تھا یا یہ پریشانی مجھے ہی کیوں دی جارہی ہے؟ وغیرہ۔ دراصل
انسان کو اس دنیا میں جو پریشانیاں پیش آتی ہیں وہ دو قسم کی ہوتی ہیں،
پہلی قسم کی پریشانیاں وہ ہیں جو اللہ رب العزت کی جانب سے اس کا عذاب اور
قہر ہوتی ہیں گناہوں کی اصل سزا تو آخرت میں ملنی ہے لیکن بعض اوقات اللہ
تعالیٰ دنیا میں بھی عذاب کا مزہ چکھا دیتے ہیں اور دوسری قسم کی تکلیف اور
پریشانیاں وہ ہوتی ہیں جن کے ذریعے سے اللہ رب العزت اپنے خاص بندوں کے
درجات بلند فرماتے ہیں، ان دونوں قسم کی پریشانیوں میں فرق یہ ہے کہ اگر
انسان ان تکالیف کے اندر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا چھوڑ دے اور اللہ رب
العزت کے احکامات کی پابندی نہ کرے(یعنی نماز نہ پڑھے، ذکر اور توبہ اسغفار
نہ کرے وغیرہ) تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ یہ پریشانی یا تکلیف جو اس پر
آئی ہے یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قہر و عذاب ہے اور اگر تکلیف پہنچنے کے
باوجود انسان اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف رجوع کرے اور دعا کرے کہ یا اللہ
میں کمزور ہوں، اس تکلیف کو برداشت نہیں کر سکتا، اللہ تعالیٰ کے سامنے
روئے، عاجزی اختیار کرے اور اس کی رحمت کے ذریعے سے اس پریشانی سے نجات طلب
کرے لیکن اللہ رب العزت کی تقدیر پر شکوہ نہ کرے بلکہ پہلے سے زیادہ اللہ
تعالیٰ کے قرب کو محسوس کرے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ یہ تکالیف اللہ
تعالیٰ کی طرف سے درجات کو بلند کرنے اور اجر و ثواب کا باعث ہیں یعنی جب
اللہ رب العزت اپنے کسی بندے سے محبت فرماتے ہیں تو اس پر مختلف قسم کی
آزمائش اور تکالیف بھیجتے ہیں، وہ آزمائشیں اس پر بارش کی مانند برستی ہیں
کیونکہ اللہ تعالیٰ ان تکالیف کو اپنے بندے کے لیے دائمی راحت کا سبب بنانا
چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں جب آخرت میں میرا بندہ میرے پاس آئے تو گناہوں سے
پاک ہو جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا کہ بندہ کے لیے اللہ تعالیٰ کی جانب سے جو عظیم درجہ مقرر ہوتا ہے
جسے وہ اپنے عمل کے ذریعہ حاصل نہیں کر پاتا تو اللہ تعالیٰ اس کے بدن یا
اس کے مال یا اس کی اولاد کو مصیبت میں مبتلا کر دیتے ہیں اور پھر اسے صبر
کی توفیق عطا فرماتے ہیں یہاں تک کہ اسے اس درجہ تک پہنچا دیتے ہیں جو اس
کے لیے اللہ رب العزت کی جانب سے مقدر تھا،(مشکوہ شریف) اس حدیث سے معلوم
ہوا کہ انسان مصیبت و بلا میں صبر کرنے کی وجہ سے آخروی سعادت کے اس عظیم
درجہ کو پہنچ جاتا ہے جہاں اپنی عبادت کے ذریعہ سے بھی نہیں پہنچ سکتا تھا۔
جاری ہے |