بھارت ماتا پر سنگرام
(Falah Uddin Falahi, India)
ایم آئی ایم کے صدربیرسٹر اویسی کے اس بیان
’کوئی میرے گردن پر چھری رکھ دے تب بھی میں بھارت ماتا کی جئے نہیں کہوں گا
‘ پر سیاسی گلیاروں سے لیکر ایوان تک ہنگامہ آرائی مچی ہوئی ہے ۔کوئی اسے
جنونی پاگل پن قرار دے رہا ہے تو کوئی انہیں پاکستان چلے جانے کا مشورہ دے
رہا ہے ۔یہاں تک کئی ایک مسلم ممبران پارلیمنٹ نے بھی اویسی کے خلاف آواز
بلند کی ہے ۔جس میں سر فہرست گیت کار جاوید آختر اور وزیر اقلیتی امور
محترمہ نجمہ ہپت اﷲ ہیں ۔ان دونوں نے اپنے محب وطن ہونے کا ثبوت بھارت ماتا
کی جئے لگا کر پوری دنیا کے سامنے پیش کیا ۔آخر یہ بھارت ماتا ہے کیا چیز ؟کیا
اس کے ادا کرنے سے کوئی اپنے وطن سے حقیقی محبت کا دم بھر سکتا ہے یا پھر
اس کے پس پردہ کوئی اور چیز کارفرما ہے ۔یہ جاننے کے لئے ہر کوئی چاہے گا ۔ہندوستان
چونکہ قدیم زمانے سے بت پرستی کا گڑھ رہا ہے یہاں ہر اس چیز کو جو طاقت ور
محسوس ہو اسے خدا ماننے کا چلن ہے اور محبت کی انتہا کو ماتاکہتے ہیں ۔اب
اگر کوئی غیر مسلم بھارت ماتا کی جئے لگاتا ہے تو ہم اس کی قدر کرتے ہیں
چونکہ یہ ملک جمہوری ملک ہے اور ہر کسی کو اپنے مذہب کے مطابق ملک سے محبت
کا اظہار کرنے کا حق حاصل ہے ۔لیکن یہی فقرہ اگر کوئی مسلمان ادا کر تا ہے
تو یہ اس کی شایانِ شان نہیں سمجھی جاتی ہے ۔جس طرح اویسی نے اظہار کیا
ٹھیک اسی طرح کسی اورمذہب کے ماننے والے بھی کر سکتے ہیں ۔چونکہ خدا پرستی
اور محبت دو الگ الگ چیز ہیں اور اس کا تعلق عقیدے سے ہے ۔رہی بات وطن سے
محبت تو اس کا درس شاید دینے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وطن سے محبت ایک فطری
عمل ہے اس کے لئے ہائے توبہ مچانا کسی جہالت سے کم نہیں ہے ۔اس کی مثال ہم
ایک پرندے سے لیتے ہیں دنیا کے ہر ملک میں طرح طرح کے پرندے پائے جاتے ہیں
اور وہ اپنی غذا حاصل کرنے کے لئے صبح کو ایک طرف سے جاتے ہوئے دیکھائی
دیتے ہیں اور شام ڈھلتے ہی اپنے اپنے آشیانے کی طرف لوٹے ہوئے بھی دیکھے
جاتے ہیں ۔کئی بار تو ایسا ہوتا ہے کہ کسی خاص موسم میں پرندے سرحد پار سے
دوسرے ممالک چلے جاتے ہیں اور وہاں انہیں اپنے من پسند کی غذا مل جاتی ہے
اس سے وہ خوب فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان کے مطابق انہیں سب کچھ مل جاتا ہے
لیکن جیسے ہی شام ڈھلنے لگتی ہے وہ اپنے اپنے آشیانے کی طرف رواں دواں ہو
جاتے ہیں وہ وہاں آشیانہ نہیں بناتے ہیں بلکہ کھانا حاصل کرنے کے بعد واپس
چلے جاتے ہیں ۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جہاں غذا ملے وہیں آشیانہ بنا لیتے
لیکن ایسا نہیں ہے چونکہ وطن سے محبت یہ ایک فطری عمل ہے اور وہ اپنے وطن
لوٹ جاتے ہیں ۔اسی طرح انسان کے اندر بھی وہی فطری عمل پائی جاتی ہے ۔اس
لئے کسی پر یہ الزام لگانا کہ وہ اپنے وطن سے محبت نہیں کرتا ہے اپنے آپ
میں کسی جہالت سے کم نہیں ہے ۔اب اگر غیر مسلم حضرات بھارت ماتا کی جئے
لگاتے ہیں تو وہ اس کا اطلاق تمام بھارتی پر نہیں لگا سکتے کیونکہ ان کے
نزدیک ماتا کی عبادت مقصود نہیں ہے بلکہ وہ تو ہر چیز سے محبت کرتے ہیں جس
طرح ایک ماں سے محبت کرتے ہیں اسی طرح وہ بیٹی بہن باپ ہر رشتہ دار سے محبت
کرتے ہیں ماتا ان کے نزدیک عبادت کا تصور نہیں ہے بلکہ یہ جذبہ تعظیم کا ہے
جس کا وہ اظہار بھی کرتے رہتے ہیں ۔لیکن اگر کسی دیگر مذہب کے ماننے والے
سے یہ کہہ دیا جائے کہ ملک کو خدا مانو تو یہ کسی جمہوری ملک کی آواز کبھی
نہیں ہو سکتی بلکہ یہ تو کسی خاص مذہبی ملک اور ڈکٹیٹر حکومت کی پہچان ہے ۔اس
لئے اگر کوئی اس کا اطلاق تمام بھارتی پر کرنا چاہتا ہے تو حقیقت میں وہ
جمہوریت پسند نہیں ہے ۔جمہوری ملک میں اظہار محب کے بھی اپنے اپنے مذہب کے
مطابق آزادی دی گئی ہے اس لئے کسی پر زبردستی کوئی نچرہ تھوپنا صرف غلط ہی
نہیں بلکہ قابل گرفت ہے ۔اس لئے جمہوریت کی بقا کے لئے یہ ضروری ہے کہ اپنے
اپنے مذہب کے مطابق عقیدے اور اظہار کی آزادی حاصل ہو ،اسی میں ملک کی امن
وآمان اور ترقی کا راز مضمر ہے ۔ |
|